امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات کی نوعیت وہ نہیں جو اکثر چند گھسے پٹے جملوں میں‘ سرد جنگ‘ دفاعی معاہدوں اور افغان جنگوں کے حوالے سے آپ سنتے آئے ہیں۔ ان امور کے بارے میں کچھ باتیں ہمارے سیاسی بیانیوں میں اتنی گہرائی اور باریکی سے بُنی جا چکی ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ حقیقت کا روپ دھار چکی ہیں۔ ان باتوں سے ہٹ کر‘ کچھ مخالف لکھنا یا کہنا آپ کے ماتھے پر ایک لیبل تو ضرور چپکا دے گا‘ لیکن اس کے ساتھ کچھ اور کے لیے بھی تیار رہنے کی ضرورت ہو گی۔ ہم جب کسی ٹی وی پروگرام میں شریک ہوں یا کسی سیمینار یا کانفرنس میں‘ تو یہ محسوس کرتے ہیں کہ دانشوری میں بھی انتہا پسندی کا رجحان ہے‘ اس لیے کوئی معنی خیز مکالمہ نہیں ہو سکتا۔ کوئی اہلِ علم اور صاحبِ بصیرت دانشور ملے تو ہم کھل کر باتیں کر ڈالتے ہیں۔ اس مضمون اور صفحے کی حرمت کیلئے کچھ باتیں کرنا ہمیشہ ضروری محسوس ہوتا ہے‘ کہ شاید کہیں اثر ہو ہی جائے۔ پہلی بات‘ کچھ حالات کا حوالہ دے کر مفروضوں کو حقیقت نہیں خیال کرنا چاہیے کہ خصوصی طور پر سفارتی اور بین الاقوامی تعلقات بے حد پیچیدہ ہوتے ہیں‘ اور ان پر رازداری کی تہہ چڑھی ہوتی ہے۔ ان معاملات میں سفارت کار اور حکمران‘ چاہے آمر ہوں یا جمہوری‘ راز دل میں رکھ کر دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ سرکاری دستاویزات جب کسی ملک میں عوام اور محققین کیلئے عام کی جاتی ہیں تو وہ بھی مکمل نہیں ہوتیں‘ مگر بہت کچھ بعد میں معلوم ہو جاتا ہے اور ان کے کھلنے کے بعد بہت سارے بیانیے دم توڑ دیتے ہیں۔
معافی چاہتا ہوں کہ تمہید طویل ہو گئی۔ بات تو امریکہ کے ساتھ تعلقات کی نوعیت پر کرنا مقصود ہے۔ امریکہ کے ساتھ دفاعی معاہدوں سے ہماری عسکری قوت میں تو زبردست اضافہ ہوا‘ مگر ہماری توجہ صرف اسی پہلو پر مرکوز ہو کر رہ گئی۔ ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ تقریباً پندرہ بیس سالوں میں ملک کے دیگر شعبوں میں امریکہ اور دیگر اتحادیوں کی کیا معاونت ہوئی۔ یہ کہنا ہرگز درست نہیں (کم از کم تاریخی اعتبار سے اور حقائق کی روشنی میں) کہ امریکی توجہ کا مرکز صرف ہماری فوجی قوت رہی۔ ہماری سماجی ترقی‘ معاشی و صنعتی استعداد‘ زراعت و آبی وسائل‘ اور تعلیم بھی امریکی امداد کا حصہ رہے ہیں۔ یہ تو اب سب جانتے ہیں کہ سینکڑوں کی تعداد میں سائنسدان صرف پہلے دس سالوں میں امریکی جامعات میں‘ امریکی امداد سے فارغ التحصیل ہوئے۔ اور انہوں نے ہی ہمارے جوہری پروگرام کی بنیاد رکھی۔ اس زمانے میں شاید امریکی بہت معصوم تھے کہ انہوں نے جوہری تحقیق کیلئے اسلام آباد میں ایک میگاواٹ کا نیوکلیئر ری ایکٹر بھی لگا کر دے دیا‘ جسے میں اس علاقے کے قریب اپنے جنگل میں کافی پیتے ہوئے دیکھتا رہتا ہوں۔ ہزاروں سائنسدان اور انجینئرز اس میدان میں تربیت لے چکے ہیں‘ اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اب وہاں ایک یونیورسٹی بھی قائم کی جا چکی ہے۔ افغانستان اور پاکستان دو ایسے ملک تھے جہاں امریکہ نے سکولوں کی تعلیم کا معیار بہتر بنانے اور جدت پیدا کرنے کیلئے اپنی جامعات کے دروازے کھول دیے۔ جامعہ پنجاب کا انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ اس کی صرف ایک مثال ہے۔ اس شعبے میں دونوں ملکوں کے اساتذہ کی تربیت دہائیوں تک ہوتی رہی۔
زراعت ہماری کسی کام کی نہیں تھی۔ کم آبادی کے باوجود امریکہ ہمیں ایک پروگرام کے مطابق مفت گندم مہیا کرتا رہا‘ اور یہ سلسلہ بھی دہائیوں پر محیط ہے۔ لیکن ساتھ ہی دیگر عالمی اداروں کے تعاون سے‘ جنہیں امریکی اعانت حاصل تھی‘ پاکستان میں گندم‘ چاول اور دیگر فصلوں کے بیجوں پر فیصل آباد زرعی یونیورسٹی میں تحقیق کے ادارے قائم ہوئے‘ اور ہم ملک میں پہلا زرعی انقلاب لانے میں کامیاب ہو گئے۔ آج‘ تمام تر مسائل اور آبادی میں کئی گنا اضافے کے باوجود ہم وافر مقدار میں غلہ پیدا کر رہے ہیں۔ اور اب چینی کی کیا بات کریں کہ برآمد اور درآمد کا کھیل انہی کے ہاتھ میں ہے‘ اور اس کی پیداوار بھی‘ جو سیاست کے گھوڑے کے شہسوار ہیں۔
صنعتوں کی بنیاد انہی دفاعی معاہدوں کے دور میں پڑی‘ اور ہماری معاشی ترقی کی رفتار ہمسایہ ممالک سے بہت آگے تھی۔ پھر اچانک کیا بخار چڑھا اور اس بخار کی حدت اور تیزی میں جن کا کردار تھا وہی ملک کی تباہی سے فیض یاب ہوئے۔ ہم خطرناک کھیل کھیلنے میں مصروف ہو گئے۔ ہم تو ان کی ذہانت اور عالمی امور میں علم و شعور کی داد ہی دے سکتے ہیں جن کا خیال تھا کہ اپنی طاقت سے کئی گنا بڑے ملک کے ساتھ جنگ کرکے کشمیر کو آزاد کرا سکتے ہیں۔ سنا تو یہی تھا کہ اگر امریکہ مشورہ دے تو ہم اسے تعویذ سمجھ کر گلے میں پہن لیتے ہیں‘ مگر 1965ء میں ایسا کیوں نہ ہوا؟ وہ ہمیں سمجھاتے رہے کہ یہ خطرناک کھیل مت کھیلو‘ اور اگر جنگ ہوئی تو ہم کوئی مدد نہ کریں گے کہ ہمارے دفاعی معاہدوں کے نشانے پر صرف چین اور روس ہیں۔ ہمارے قومی مجموعی شعور کی حالت یہ تھی کہ جنگ بندی کے بعد یہ بیانیہ بنایا گیا کہ جنگ تو ہم جیت رہے تھے‘ ایوب خان نے ہاتھ روک لیا‘ اور تاشقند معاہدے میں سب کچھ گنوا دیا۔ جب انسانوں کی سیاسی گفتگو اور جلسوں جلوسوں کی سیاست کو دیکھتا ہوں تو ہنسی آتی ہے کہ کیسے آپ کو بیوقوف بنایا جاتا رہا ہے اور یہ سلسلہ آج تک کب تھما ہے؟ اس جنگ اور اس کے بعد کے سیاسی حالات‘ ایک اور جنگ‘ اور پھر جو کچھ ہوتا رہا‘ اس سے ہم آج تک نہیں نکل سکے۔ مسئلہ یہ نہیں تھا کہ ہم امریکہ کے اتحادی تھے تواس لیے تباہ ہوئے‘ مسئلہ ہمارے حکمرانوں کے فیصلے‘ ان کی باہمی چپقلش اور شخصی مفادات کی سیاست رہی ہے۔ کئی ممالک کی مثال یہاں دینا ضروری ہے۔ ترکیہ‘ تائیوان اور جنوبی کوریا بھی ہماری طرح امریکی اتحادی رہے‘ اور اب بھی ہیں۔ اور وہاں بھی فوجی حکومتیں رہی ہیں۔ ان کی ترقی اور خوشحالی دیکھیں‘ اور کچھ اپنے اوپر بھی نظر ڈالیں۔
کئی دہائیوں سے فل برائٹ پروگرام کے تحت ہر سال ہمارے تقریباً 200 طلبہ امریکی جامعات سے ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی مفت تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں۔ جامعات کے اساتذہ‘ فوج اور بیورو کریسی کے افسروں کیلئے علیحدہ پروگرام رہے ہیں اور شاید اب بھی ہیں۔ ہر سال زراعت کے شعبے سے وابستہ کچھ کاشتکاروں کو بھی‘ ان کی زراعت کو دیکھنے کیلئے کئی ہفتوں پر محیط پروگرام آج بھی موجود ہیں۔ گزشتہ ہفتے یہ پڑھ کر خوشی ہوئی کہ جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تمام ایسے پروگرام ختم کر رہے تھے‘ 60 طلبہ و طالبات کو فل برائٹ سکالر شپ ملا ہے اور وہ جانے کی تیاریوں میں ہیں۔ باتیں اور بھی ہیں‘ اور ان کا ذکر کرنے سے آپ کو محسوس یہ ہو گا کہ میں امریکہ کی وکالت کر رہا ہوں‘ مگر بات یہ نہیں۔ گزارش صرف اتنی ہے کہ ہمارے تعلقات کی نوعیت وہ نہیں‘ جس کے بارے میں عام طور پر گفتگو کی جاتی ہے۔ اس کے کئی اہم اور روشن پہلو ہیں‘ اور مواقع ہمارے لیے اب بھی موجود ہیں‘ وہاں تعلیم حاصل کرنے کے ہوں‘ تجارت یا برآمدات بڑھانے کے۔ یہ جو ہمارے ہاں بحث چل نکلی ہے کہ ہمیں چین اور امریکہ سے تعلقات کے سلسلے میں ایک فیصلہ کرنا ہوگا‘ یہ بے تُکی بات ہے۔ سرد جنگ کی کیفیت سے ذہنی طور پر ہمارا دانشور ابھی نکلا نہیں‘ اور اس بات کا شعور نہیں کہ ملکوں کے درمیان تعلقات ایک نہیں بلکہ کئی مفادات کی بنیاد پر تعمیر ہوتے ہیں۔ بڑی خبر تو یہ ہے کہ امریکہ‘ پاکستان کے وسیع تیل کے ذخائر کی ترقی کیلئے سرمایہ کاری اور کسی معقول انتظام کی تلاش میں ہے۔ یہ ذخائر بھی ایک راز رہے ہیں اور اس طرف ہم نے کوئی قدم کیوں نہ اٹھایا‘ وہ بھی ایک راز ہے۔ شاید اب ان رازوں سے پردہ اٹھ جائے۔ آخر کچھ تو ہے‘ کہ آج یہ بہت بڑی اور خوش کن خبر ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved