مسئلہ فلسطین‘ دنیا میں ایک طویل عرصے سے چلے آ رہے حل طلب تنازعات میں سے ایک ہے۔ جدید دور میں ویسے تو اس کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب 1917ء میں برطانیہ نے اعلانِ بالفور کر کے فلسطین میں ''یہودی نیشنل ہوم‘‘ کی آڑ میں ایک صہیونی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ اس اعلان کا مقصد دراصل پہلی عالمی جنگ میں یہودیوں کی حمایت حاصل کر کے فلسطین پر برطانوی تسلط قائم کرنا تھا تاکہ مشرقِ وسطیٰ اور نہر سویز کے مشرقی علاقوں میں برطانوی نوآبادیاتی مفادات کا تحفظ کیا جا سکے‘ حالانکہ برطانیہ مصر پر قابض تھا اور نہر سویز کے کنارے پورٹ سعید میں اس نے خطے کا سب سے بڑا فوجی اڈہ بھی قائم کر رکھا تھا۔ مگر انیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں وفد پارٹی کی سربراہی میں مصر میں برطانوی نوآبادیاتی تسلط کے خلاف ایک طاقتور قوم پرستی کی تحریک چل پڑی تھی۔ برطانیہ کو معلوم تھا کہ جلد یا بدیر اسے مصر سے نکلنا پڑے گا مگر مشرقِ وسطیٰ اور وہاں سے بحر ہند‘ جنوب مشرقی ایشیا اور براعظم افریقہ کے مشرقی ساحل پہ واقع نوآبادیات کے تحفظ کیلئے اسے ایک علاقے کی ضرورت تھی۔ اس کی نظر فلسطین پر پڑی‘ جو بحیرۂ روم کے مشرقی ساحل پر ایک ایسی جگہ واقع ہے جہاں سے تین براعظموں یعنی ایشیا‘ یورپ اور افریقہ کو راستے جاتے ہیں لیکن یہ اس وقت سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا‘ جو جنگ میں جرمنی کے ساتھ مل کر برطانیہ‘ فرانس اور دیگر اتحادی ممالک سے برسر پیکار تھی۔ برطانوی حکومت نے اعلانِ بالفور کے تحت عالمی صہیونی قیادت سے وعدہ کیا کہ وہ ترکوں سے فلسطین چھین کر اس کے دروازے دنیا بھر کے یہودیوں کیلئے کھول دے گی۔
بعد ازاں یمن سے فلسطینیوں اور یہودیوں کے تنازع کا آغاز ہوا جو 1948ء میں فلسطین کی تقسیم اور عرب اکثریتی علاقوں میں صہیودی ریاست کے قیام کے بعد سے اب تک جاری ہے۔ اسرائیل نے اس دوران امریکہ اور یورپی ممالک کی اعانت سے چار دفعہ جارحانہ جنگوں کے ذریعے نہ صرف اپنی فوجی بالادستی قائم کی بلکہ 1967ء کی جنگ میں دریائے اردن کے مغربی کنارے‘ بیت المقدس‘ غزہ کی پٹی اور شام کے علاقے سطح مرتفع گولان پر قبضہ کر کے اس تنازع کو ہمیشہ کیلئے حل کرنے کی کوشش کی مگر فلسطینی مزاحمت اور عربوں ممالک کی مخالفت کی وجہ سے اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ بالآخر 1993ء میں اُس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم اضحاک رابن اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے سربراہ یاسر عرفات نے سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی کوششوں کے نتیجے میں ایک معاہدہ کیا جس کے تحت اسرائیل کے زیر قبضہ فلسطینی علاقوں یعنی دریائے اردن کے مغربی کنارے‘ مشرقی بیت المقدس اور غزہ پر مشتمل ایک فلسطینی ریاست کے قیام کا فیصلہ ہوا۔ اس ریاست کی کیا سرحدیں ہوں گی‘ یہ کن معاملات میں آزاد اور خود مختار ہو گی اور اسرائیل کے ساتھ اس کے تعلقات کی کیا نوعیت ہو گی‘ اس کا حتمی فیصلہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے مذاکرات کے ذریعے ہونا تھا اور اس وقت تک یہودیوں کے زیر انتظام ایک فلسطینی اتھارٹی قائم کر دی گئی۔ اس فلسطینی اتھارٹی کو مکمل طور پر آزاد‘ خود مختار اور بااختیار ریاست میں تبدیل کرنے کیلئے فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے مابین 2000ء اور 2001ء میں مذاکرات ہوئے مگر یہ بے نتیجہ رہے۔ بعد میں اسرائیل میں انتہا پسند دائیں بازو کے عناصر کے سب سے بڑے نمائندہ‘ موجودہ وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کی وجہ سے مذاکرات کا سلسلہ منقطع ہو گیا کیونکہ اوسلو معاہدات کے تحت مفاہمت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دریائے اردن کے مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس کے اردگرد فلسطینی علاقوں کو زبردستی خالی کروا کے باہر سے یہودی آباد کاروں کیلئے بستیاں تعمیر کرنا شروع کر دی گئیں۔ یہ اقدام دراصل فلسطین کے دو ریاستی حل کو ناکام بنانے کی کوششوں کا حصہ تھا۔ اسرائیل نے مقبوضہ عرب علاقوں میں نئی یہودی بستیوں کی تعمیر کا سلسلہ گزشتہ کئی برسوں سے شروع کر رکھا ہے اور اب تک ان بستیوں‘ جن کو اقوام متحدہ اور بین الاقوامی عدالت انصاف غیر قانونی اور ناجائز قرار دے چکی ہے‘ میں رہنے والے یہودی آباد کاروں کی تعداد پانچ سے سات لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔
دریائے اردن کے مغربی کنارے میں آباد فلسطینیوں کی تعداد 30لاکھ سے زیادہ ہے مگر اسرائیلی فوج اور اس کی براہ راست مدد سے یہودی آباد کاروں نے فلسطینیو ں کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔ آئے دن یہودی آباد کار ان پر حملہ کرتے رہتے ہیں‘ ان کے مکانوں کو آگ لگاتے ہیں‘ ان کی بھیڑ بکریاں چراتے ہیں اور ان کے زیتون کے باغات کو برباد کر دیتے ہیں۔ ان حرکتوں کا واحد مقصد فلسطینیوں کیلئے مقبوضہ علاقوں میں رہنا ناممکن بنانا ہے تاکہ وہ اپنے گھر بار اور زمین چھوڑ کر ہمسایہ عرب ممالک یا کسی اور جگہ چلے جائیں اوران کی جگہ پر نئی یہودی بستیاں تعمیر کی جا سکیں۔ اس طرح فلسطینی ریاست کے قیام کے منصوبے کو ناکام بنا دیا جائے۔ لیکن فلسطین میں فلسطینیوں کی ایک علیحدہ اور آزاد ریاست کا منصوبہ ختم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اب تک 193 رکن ممالک میں سے 147 ممالک فلسطین کو تسلیم کر چکے ہیں۔ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے والے ممالک کا تعلق ایشیا‘ افریقہ‘ لاطینی امریکہ اور مشرق وسطیٰ کے عرب علاقوں سے ہے تاہم اب یورپی ممالک بھی اس صف میں شامل ہو رہے ہیں۔ سویڈن پہلا یورپی ملک ہے جس نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا۔ ناروے‘ سپین اور آئر لینڈ نے بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ اب فرانس‘ برطانیہ اور کینیڈا نے بھی ستمبر میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ حال ہی میں نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ایک قرار داد‘ جسے گزشتہ برس منظورکیا گیا تھا‘ کے تحت فرانس اور سعودی عرب کے زیراہتمام ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں اقوام متحدہ پر ایک متفقہ اعلامیہ کے تحت اسرائیل سے ایک علیحدہ‘ آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست‘ جس میں دریائے اردن کا مغربی کنارہ‘ غزہ اور مشرقی بیت المقدس کے علاقے شامل ہوں‘ کے قیام کیلئے اپنے وعدے کو عملی جامہ پہنانے پر زور دیا گیا۔ اس کے ساتھ کانفرنس میں دنیا کے دیگر ممالک جنہوں نے ابھی تک فلسطینی ریاست کو تسلیم نہیں کیا‘ سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کریں تاکہ دنیا کے اجتماعی دباؤ سے مجبور ہو کر اسرائیل نہ صرف غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام کو روکے بلکہ ایک علیحدہ‘ آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام پر راضی ہو جائے۔ اس کے علاوہ جیسا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کانفرنس سے اپنے خطاب میں کہا کہ پورے خطے میں مستقل امن اور سلامتی کے قیام کیلئے فلسطینی ریاست کا قیام یعنی دو ریاستی حل ہی واحد آپشن ہے۔ اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کیلئے دو ریاستی حل کا اگر کوئی متبادل ہو سکتا ہے تو وہ واحد اور یہودی ریاست ہے جو اس وقت اسرائیل کی شکل میں موجود ہے‘ جس کا مطلب مقبوضہ عرب علاقوں اور اسرائیل میں رہنے والے فلسطینیوں کو ہر قسم کے قانونی‘ سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی حقوق سے محروم کرنا ہے۔ سیکرٹری جنرل کے بیان کے مطابق یہ انصاف نہیں بلکہ حق تلفی ہے‘ اس سے فلسطین میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اگر امن قائم کرنا ہے اور عربوں اور یہودیوں کو باہمی طور پر پُرامن اور خوشحال زندگی بسر کرنے کا موقع دینا ہے تو اس کیلئے واحد راستہ فلسطینی ریاست کا قیام ہے۔ مگر اسرائیل اور امریکہ نے کانفرنس کے اس اعلان کی مخالفت کی کرتے ہوئے دو ریاستی حل کو مسترد کر دیا ہے۔ لیکن اس کانفرنس میں نہ صرف برطانیہ اور فرانس بلکہ یورپی یونین کے دیگر رکن ممالک کی شرکت اور ان کی طرف سے دو ریاستی حل کی بھرپور حمایت ایک نئی اور اہم حقیقت ہے‘ جس کے پیش نظر امریکہ اور اسرائیل کو آج نہیں تو کچھ عرصہ بعد ضرور اپنے مؤقف پر نظرثانی کرنا پڑے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved