تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     01-08-2025

ہور کوئی حکم سرکار!

ماضی کے سبھی ادوار میں اربابِ اختیار و اقتدار کے چند رَٹے رٹائے عذر اور حیلے بہانے پیشِ خدمت ہیں۔ یہ سبھی ملک کو کبھی خطرناک دور سے گزارتے رہے ہیں تو کبھی نازک موڑ سے۔ اقتدار کی ہچکولے کھاتی کشتی میں بیٹھے حکمران اس طرح بھی خود فریبی کا شکار رہے ہیں کہ حکومت اور مقتدرہ ایک پیج پر ہیں۔ جس شدت سے اس بیانیے کا پرچار ہوتا چلا آیا ہے اس سے کہیں بڑھ کر یہ پرچار اُلٹ ثابت ہوتا رہا ہے۔ ویسے بھی حکومت میں جس امر کو اَنہونی اور خارج از امکان قرار دینے کیلئے سرکاری مشینری اور وسائل استعمال کیے جائیں وہ اَنہونی اکثر ہونی ہو ہی جاتی ہے۔ گویا: ہونی روکیاں رُکدی نئیں۔ ماضی کے کچھ ڈھکوسلے بھی ہونی بن کر آج پھر سامنے آن کھڑے ہیں۔ سچ مچ کے نازک موڑ اور خطرناک دور کئی ڈراؤنی شکلوں اور بدلتے روپ بہروپ میں ملک و قوم کے سامنے ہیں۔ جیسے کہہ رہے ہوں ''ہور کوئی حکم سرکار!‘‘۔
ملک بھر میں ایک اُدھم سا مچا ہوا ہے۔ کہیں وزیراعظم اور وزیر داخلہ کی ملاقات خاموش وڈیو بوجوہ وائرل ہونے کا گمان ہوتا ہے تو کہیں حکومت میں گروہ بندی کا عندیہ بھی برابر مل رہا ہے۔ آنے والے دنوں میں سنگین چارج شیٹس جاری ہونے کی خبریں بھی خوب گرم ہیں۔ ایسی اَنہونیاں بھی کھلی آنکھ سے دیکھی جا رہی ہیں جن کا گمان بھی ممکن نہ تھا۔ ایک کاروباری شخصیت کے گرد گھیرا تنگ ہوتے ہوتے شکنجہ بن چکا ہے۔ ان کے بھائی‘ سبھی قریبی اور واقفانِ حال گرفتاریوں اور عتاب کا شکار ہیں جبکہ موصوف خود بھی کہیں نہ کہیں پناہ گزین ہی ہوں گے۔ یہ شکنجہ یونہی اور جوں کا توں رہا تو آنے والے دنوں میں ملکی تاریخ کا ایسا میگا سکینڈل منظرِعام پر آنے کو تیار ہے جس میں شریک اور سہولت کار پردہ نشین سات پردوں میں بھی بے نقاب ہی رہیں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس کاروباری شخصیت کی لامحدود خواہشات اور توسیع پسندانہ عزائم کو دوام بخشنے والے بڑے بینی فشری شکنجے میں آتے ہیں یا نہیں؟ اس شکنجے کا کریڈٹ سیاسی حکومت کو تو ہرگز اسلئے نہیں جاتا کہ برسر اقتدار اتحاد کے اکثر کرتے دھرتے بھی دھرے جا سکتے ہیں۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ یہ آہنی شکنجہ مقتدرہ کے تاریخ ساز فیصلے کا مرہونِ منت ہے۔ کئی دن سے جاری پکڑ دھکڑ میں ریٹائرڈ افسران کے گھروں پر چھاپے اور گرفتاریوں سے یہ عقدہ بھی کھلتا چلا جا رہا ہے کہ یہ شکنجہ اپنے اہداف تک پہنچنے کا راستہ خوب جانتا ہے۔
دوسری جانب جہاں گندم اُگانے والے رُل رہے ہیں وہیں چینی بنانے والوں کے بارے تین سو ارب روپے کمانے کا انکشاف آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ میں ہنرمندانِ ریاست و سیاست کا منہ چڑا رہا ہے۔ چینی کی برآمد کے بعد درآمد کرنے والی جادوگری کوئی نئی تھوڑی ہے‘ یہ بدعت تو نجانے کب سے جاری و ساری ہے۔ نہ کسی کو شرمندگی ہے‘ نہ کوئی احساسِ ندامت‘ تجوریوں اور بینک اکاؤنٹس میں اربوں بھرے ہوں تو شرمندگی اور ندامت کے بجائے ڈھٹائی غالب رہتی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت میں چینی کی اسی واردات پر لتے لینے والے آج برسرِ اقتدار آکر کس قدر نازاں اور شاداں ہیں۔ یہ ہماری جمہوریت کا حسن ہے کہ اپوزیشن بینچوں پر بیٹھ کر جن حکومتی اقدامات اور پالیسیوں پر تنقید کے نشتر برسائے جاتے ہیں‘ برسرِ اقتدار آکر انہی بدعتوں کو صبح شام بڑھاوا دیا جاتا ہے۔ پٹرول اور بجلی کی قیمتوں سمیت بذریعہ چینی عوام کی جیبوں پر ڈکیتی جیسی وارداتوں پر شعلہ بیانی اور عوام سے ہمدردی جتانے والے آج اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھے ان سبھی اقدامات کو اضافوں کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عوام کے درد میں ان کے خیالاتِ عالیہ وڈیو کلپس میں محفوظ اور اخباری سرخیوں میں آج بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ سوشل میڈیا پر یہ وڈیو کلپس اور تراشے وائرل دیکھ کر یقین مانیں‘ یقیں نہیں آتا۔
اُدھر دور کی کوڑی لانے والے مقتدرہ کے نیوٹرل ہونے کی تھیوری کا پرچار کر رہے ہیں‘ جو بلاشبہ حکومتی اتحاد کے لیے اچھا شگون نہیں ہے۔ یاد رہے! عمران خان کی اقتدار سے رخصتی بھی ''نیوٹرل‘‘ ہونے کے بعد ہی عمل میں آئی تھی اور عمران خان نے مقتدرہ کی سیاست سے علیحدگی کے اعلامیے پر ہرزہ سرائی سمیت دیگر بلنڈرز کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ مسلسل جاری رکھا جو اِن کے اقتدار کے لیے ہر منٹ خطرہ ہی بنتا چلا گیا اور زبانوں سے کھودی ہوئی خندق بالآخر اقتدار اور سیاست کی قبر بن گئی۔ مقبولیت کے پہاڑ پر کھڑے عمران خان افتادِ طبع کے ہاتھوں اسی خندق میں جا پہنچے جو اپنے ہمنواؤں سمیت زبانوں سے کھودتے رہے ہیں۔
جہاں گروہ بندی اور شخصی عناد کی خبروں کو پَر لگ رہے ہیں وہاں سسٹم بھی اس طرزِ حکمرانی کا بوجھ اٹھانے سے معذرت خواہ دکھائی دے رہا ہے۔ سسٹم حکومتی اتحاد کے وزن کو یونہی بوجھ سمجھتا رہا تو خطرہ لاحق ہے کہ کہیں بوجھ سر سے اتارنے کا سمے نہ آجائے۔ راج نیتی میں شریک سبھی سٹیک ہولڈرز ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور وضع داری کی اداکاری سے تھکتے چلے جا رہے ہیں۔ ان کے رویوں اور طرزِ عمل سے بیزاری کا عنصر بھی نمایاں ہے۔ ایک دوسرے کے ازلی سیاسی حریف فقط حصولِ اقتدار کیلئے حلیف بن کر اقتدار اور وسائل کے بٹوارے کے بعد دوبارہ اپنی پرانی پوزیشن پر آتے جاتے رہتے ہیں لیکن اب کسی کا کوئی پتا پوشیدہ نہیں رہا۔ سب کے بھید بھاؤ کھلتے اور بے نقاب ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ کالم کی ابتدا میں ایک ملاقات کی خاموش وائرل وڈیو کا ذکر کر چکا ہوں جس میں خاصے کی بات یہ ہے کہ آواز کے بغیر جاری کی جانے والی یہ وڈیو صرف باڈی لینگوئج سے سمجھی اور سنی جا سکتی ہے۔
شٹر پاور مسلم لیگ(ن) کا مضبوط سیاسی ہتھیار رہی ہے‘ جسے وہ حکومتِ وقت کے خلاف ہڑتالوں اور مظاہروں میں بھی استعمال کرتی رہی ہے لیکن آج وہی شٹرپاور حکومتی پالیسیوں پر سخت نالاں اور بھرپور مزاحمت پر آمادہ ہے۔ لاہور چیمبر کے صدر نے حکومتی وزرا سے لے کر پالیسی سازوں تک کے وہ لتے لیے ہیں کہ بڑے بڑے نامی گرامی بھی کونے جھانکتے اور بغلیں بجاتے پھرتے ہیں۔ ایف بی آر کی ہینڈلنگ کو ظالمانہ اور توہین آمیز قرار دیتی تاجر برادری کو حکومت کی طرف سے تو کوئی رِسپانس نہ ملا لیکن فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے معاملے کی نزاکت بھانپتے ہوئے تاجروں کے نمائندگان سے ملاقات کرکے ان کے سبھی مسائل سمیت تحفظات اور خدشات کو سنجیدگی اور توجہ سے سنا ‘ جس کے بعد تاجر برادری اب پُرامید اور سکون میں نظر آتی ہے۔ جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت سمیت خارجی محاذ اور اندرونی انتشار کے علاوہ اب معاشی استحکام کے لیے بھی مقتدرہ حرکت میں آچکی ہے۔ طرزِ حکمرانی سے لے کر حکومت سے جڑی ریشہ دوانیوں سمیت غلام گردشوں اور محلاتی سازشوں کے ساتھ حکومتی اتحاد کا بوجھ سسٹم کب تک اور کیسے جھیلتا ہے‘ یہ سبھی عقدے بڑی تیزی سے حل ہوتے نظر آرہے ہیں۔ ایف بی آر کی ستائی ہوئی تاجر برادری فیلڈ مارشل سے ملاقات کے بعد جہاں پُرسکون ہے وہاں وفاقی ٹیکس محتسب کے ازخود نوٹسز اور فیصلوں کو ڈھال بھی سمجھتی ہے لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز آخر کب تک؟ ایف بی آر محتسب کے ادارے کو جب وِلن ہی سمجھ لے تو اس سے ریلیف کے فیصلوں پر عملدرآمد کون کروا سکتا ہے۔ تاہم گھپ اندھیرے میں وفاقی ٹیکس محتسب ایک جگنو کی مانند دکھائی دیتا ہے لیکن یہ جگنو بھی چند دنوں کا مہمان ہے‘ اس کے بعد نئے صاحب کہاں سے اور کس کی فرمائش پر آتے ہیں‘ ایف بی آر کو ان کا انتظار ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved