تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     02-08-2025

علم پا بہ زنجیر؟

علم وتحقیق پر پابندی کسی سماج کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔ یہ معاشرے کو فکری افلاس کی نذر کرنا ہے۔
اختلاف سے فساد پیدا نہیں ہوتا۔ فساد کا تعلق مؤقف سے نہیں‘ رویے سے ہے۔ رائے کی آزادی کا حق اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا ہے۔ انسان اس پر کیسے پابندی لگا سکتے ہیں؟ یہ دلیل ان کے لیے ہے جو اللہ کو مانتے ہیں۔ جو نہیں مانتے‘ ان کو کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔ یہ اس لیے کہ ان کا وجود ہی اس آزادی کی دلیل ہے۔ اگر انہیں یہ حق حاصل نہ ہوتا تو وہ خدا کا انکارکیسے کرتے؟
اختلاف پر پابندی کا ایک ہی سبب ہو سکتا ہے۔ آ پ دوسرے مؤقف کی طاقت سے خوفزدہ ہیں۔ آ پ کو اندیشہ ہے کہ آ پ دلیل کے میدان میں شکست کھا جائیں گے۔ اب آ پ کے پاس دو راستے ہیں۔ ایک یہ کہ آپ طاقتور ہیں تو اس کی آواز کو ہمیشہ کے لیے بند کر دیں۔ اگر اس حد تک نہیں جا سکتے‘ یا نہیں جانا چاہتے اور اختیار رکھتے ہیں تو دوسرا راستہ‘ اس کے اظہار پر پابندی ہے۔ اس سے صر ف عارضی فائدہ مل سکتا ہے۔ اگر دوسرے مؤقف میں جان ہے تو آج نہیں تو کل اس کی صدائے باز گشت سنائی دے گی۔ تاریخ اس کی مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔
1960ء کی دہائی میں پاکستان میں تاریخ کی چند کتابوں پر پابندی لگی۔ آج سوشل میڈیا پر ان میں بیان کیے گئے مؤقف کی گونج سب کو سنائی دے رہی ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ دعوے پر کوئی پابندی نہیں مگر جوابِ دعویٰ پر پابندی ہے۔ اس امتیاز سے اضطراب پیدا ہوتا ہے اور اس اضطراب میں فساد بننے کی بھرپور صلاحیت ہوتی ہے‘ اگر ایک مؤقف کے حاملین کو سماج میں قابلِ ذکر عصبیت حاصل ہے۔ حکومتوں کو اس باب میں بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک موضوع پر اگر ایک مؤقف کے اظہار کی آزادی ہے تو لازم ہے کہ دوسرے مؤقف کو بھی یہ آزادی میسر ہو۔ دوسری صورت یہ ہے کہ دونوں پر پابندی لگائی جائے‘ میں جس کے حق میں نہیں ہوں۔
ہمارے ہاں یہ پابندی مذہبی فساد سے بچنے کے لیے عائد کی جاتی ہے۔ کچھ اہلِ شر ہوتے ہیں جن کا قلم اور زبان‘ دونوں بے لگام ہو جاتے ہیں۔ وہ علم اور جہالت کے فرق سے واقف نہیں ہوتے۔ اپنے تعصبات کا اظہار ایسے اسلوب میں کرتے ہیں جو دوسروں کی دل آزاری کا سبب بنتا ہے۔ ایسے قلم اور ایسی زبان کو روکنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ فیصلہ ساز چونکہ علم اور جہالت کے اس فرق سے واقف نہیں ہوتے‘ اس لیے ان کی عائد پابندی کی زد میں ہر وہ کتاب آ جاتی ہے جو کسی اختلافی مسئلے پر لکھی گئی ہو۔ پھر مذہبی تعصب رکھنے والے گروہ بھی بعض کتابوں پر پابندی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ وہ اگر طاقتور ہوں تو حکومت سے من پسند فیصلے کروا لیتے ہیں۔ یہ امتیازی رویہ ہیجان پیدا کرتا ہے جو تصادم پر منتج ہوتا ہے۔
جن کتابوں یا خطیبوں پر پابندی لگائی جاتی ہے‘ وہ عام طور پر وہی باتیں دہراتے ہیں جو تاریخ کی کتابوں میں پہلے سے موجود ہیں۔ اگر ان روایات کو نقل کرنا جرم ہے تو بدرجہ اولیٰ‘ وہ کتب پابندی کی مستحق ہیں جن میں یہ روایات بیان کی گئیں۔ پہلے راویوں یا مؤرخین کو ہم امامت کے درجے پر فائز کرتے ہیں اور اگر کوئی ان کی بات کو نقل کر دے تو اسے قابلِ تعزیر ٹھیراتے ہیں۔ اگر وہ باتیں درست نہیں ہیں تو اولین ماخذ پر پابندی لگائی جائے۔ ورنہ نقل کی آزادی کو باقی رکھا جائے۔ بحیثیت طالب علم‘ میرا تاثر ہے کہ اگر ایسا ہوا تو ہمیں مسلم علمی روایت کے ایک بڑے حصے سے محروم ہونا پڑے گا۔ بڑے بڑے نام اس کی زد میں آئیں گے۔ اس لیے خیر اسی میں ہے کہ پابندی سے گریز کرتے ہوئے‘ اصل مسئلے پر توجہ مرتکز کی جائے۔
اصل مسئلہ کوئی خاص مؤقف نہیں‘ اس کے اظہار کا اسلوب ہے۔ ہمارے مذہبی طبقات میں ایسے لوگ موجود ہیں جو دوسروں کو گالی دیتے ہیں۔ اختلاف کی بنیاد پر تکفیر کرتے ہیں۔ قتل کے فتوے صادر کرتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ جو آدمی ملک کے جج کو قتل کی دھمکی دیتا ہے‘ اس کے خلاف اقدام نہیں ہوتا اور اگر کوئی علمی زبان میں اختلاف کرے تو قانون اس کے خلاف متحرک ہو جاتا ہے۔ حکومت کو اہلِ علم کے مشورے سے کسی ضابطۂ اخلاق کا نفاذ کرنا چاہیے۔ ایسے ضابطے پہلے بھی بن چکے۔ ان کی تجدید کرتے ہوئے معاصر اہلِ علم کی مدد سے ان حدود کا تعین کر دیا جائے جو اختلاف کے علمی اور جاہلانہ رویوں میں فرق کو نمایاں کریں۔ یہ معلوم ہو جائے کہ کون سی کتاب یا خطیب پابندی کے مستحق ٹھیرے اور کیوں؟ اگر علمی اختلاف سے کسی کے جذبات مجروح ہوتے ہیں تو اسے کسی ماہرِ نفسیات کے پاس بھیجنا چاہیے نہ کہ کسی علمی کتاب پر پابندی لگا دی جا ئے۔
مسلم تاریخ صرف اہلِ اسلام نے نہیں‘ دوسروں نے بھی پڑھ رکھی ہے۔ مغرب میں اسلامی علوم پر تحقیق کی ایک مستحکم روایت موجود ہے۔ گزشتہ چند صدیوں کی تاریخ کو سامنے رکھیے تو مغرب میں ہونے والا علمی کام کم وقیع نہیں ہے۔ ہمارے اہلِ علم ڈیڑھ دو سو سال سے اس پر نقد کر رہے ہیں یا اس کے زیرِ اثر ہیں۔ اگر ہم تحقیق کا دروازہ بند کر دیں گے تو یہ تحقیق کہیں اور ہو گی اور ظاہر ہے کہ ایک مختلف زاویۂ نظر کے ساتھ۔ اس لیے علم پر پابندی کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ ہمیں رویوں پر توجہ دینا چاہیے اور ہمارے مسئلے کی بنیاد یہی رویے ہیں۔ میرا خیال تھا کہ مناظرے کی روایت دم توڑ چکی۔ سوشل میڈیا سے مگر معلوم ہوا کہ ایسا نہیں ہے۔ اگر آپ کسی ایک مناظرے کو چند منٹ کے لیے دیکھ لیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ہمارامسئلہ کیا ہے؟ ہم اظہارِ اختلاف کے اسالیب سے واقف نہیں۔ اختلاف کے آداب ہماری معاصر دینی تعلیم کا حصہ نہیں۔ ہماری ضرورت یہ نہیں کہ ہم کتابوں پر پابندی لگائیں۔ ہماری ضرورت لوگوں کو یہ سکھانا ہے کہ اختلاف کیسے کیا جائے؟
اختلاف کے آداب پر چند اچھی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر طہٰ جابر العلوانی کی کتاب ہے جس کے اردو میں ایک سے زیادہ تراجم ہو چکے ہیں۔ ہمیں لوگوں کو سب سے پہلے سکھانا ہے کہ دینی ادب میں حفظِ مراتب کا مفہوم کیا ہے؟ اللہ کی کتاب اور تفسیر میں کیا فرق ہے؟ قولِ رسول اور روایت کا فرق کیا ہے؟ تاریخ سے کیا مراد ہے؟ کیا اسے تقدس کا درجہ حاصل ہے؟ جب تک اس نوعیت کے سوالات جواب طلب رہیں گے‘ تنقید کا عمل افراط وتفریط کا شکار رہے گا اور وہ لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جن کا رویہ مذہبی اختلاف کو فرقہ واریت میں بدل دیتا اور فساد کو جنم دیتا ہے۔ وہ خطیب جو عوامی جذبات سے کھیلتے ہیں‘ وہ مصنف جو غیر محتاط زبان استعمال کرتے ہیں‘ سب اسی رویے اور لاعلمی کے مظاہر ہیں۔
علم کا راستہ روکنا‘ جہالت کو عام کرنا ہے۔ ہمیں اختلاف کے آداب سیکھنے ہیں‘ اختلاف کا دروازہ بند نہیں کرنا۔ ہمارے اسلاف جو اس فرق سے واقف تھے‘ ان کے اختلاف نے علومِ اسلامی کی شاندار روایت کو جنم دیا۔ علمی مباحث اور کتابوں پر پابندی سے اس روایت کو نقصان پہنچے گا۔ تاہم جو لوگ بدتہذیبی اور بدتمیزی کا مظاہرہ کریں‘ ان کو طاقت سے روکنا حکومت کا کام ہے کہ یہ رویے ہیں‘ جو فساد کا باعث بنتے ہیں۔ اس میں بھی امتیاز کو روا نہیں رکھنا چاہیے۔ برسرِ منبر سب وشتم کو اس امت نے ہمیشہ ناپسندیدہ سمجھا ہے‘ چاہے کسی کے خلاف ہو اور اس کی نسبت کسی بڑی ہستی کی طرف ہی کیوں نہ ہو۔ ہمیں اسلاف کی یہ تعلیم سامنے رکھنی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved