میں انسان ہوں ، کرّہ ارض کا سب سے ذہین جاندار۔ میری کامیابیوں کا کسی سے موازنہ تک ممکن نہیں ۔ دوسرے بنیادی ضروریات سے آگے نہ بڑھ سکے اور میں ؟ میں نے پہیہ اور انجن بنایا، زمین سے تیل نکالا اور خلا میں پہنچ گیا۔ میں کائنات میں جھانکنے لگا۔ میںنے فون ایجاد کیا، کیمرے میں وقت کو قید کر ڈالا، کمپیوٹر بنایا۔ کرّہ ارض پہ میری نسل کے 7ارب باشندے آپس میں جڑے ہوئے ہیں ۔ میں سب سے زیادہ فصیح و بلیغ ہوں ۔میں واحد ہوں ، جو لکھ کر اپنا مافی الضمیر بیان کرنے پہ قادر ہوں ۔ دوسرے جانور بقا کے لوازمات سے آگے نہ بڑھ سکے ۔ میں نے کتابیں لکھیںاور چالیس ہزار برس کے اپنے تجربات آنے والی نسلوں کو منتقل کیے ۔ کلوننگ سے میں نے اپنا ہمزاد تخلیق کیا۔ اب میں اپنے ضائع ہو جانے والے اعضا لیبارٹری میں خود اگائوں گا۔ پانچ سات برس کا میرا بچہ ایک پورا ریوڑ ہانک لاتاہے ۔ قوی الجثہ جانور اس کی چھڑی کی ضرب برداشت کرتے ہیں اور گردن اٹھانے کی ہمت نہیں پاتے ۔ میں دو پائوں پر سیدھا کھڑا ہوں ، باقی چار ٹانگوں پر جھکے ہوئے ۔کبھی کبھی میں خود کو اور دوسرے جانوروں کو دیکھتا ہوں اور ایک عجیب سوچ مجھے آلیتی ہے ۔ پھیپھڑوں کے ذریعے آکسیجن کا حصول، معدے کے ذریعے خوراک کا انہضام اوردل کے ذریعے خون کا بہائو، بنیادی طور پر میں اور دوسرے جانور ایک جیسے ہیں ۔ دماغ میں ایک ذرا سے فرق نے انہیں میرے سامنے پست و پامال کر دیا ہے لیکن پھر سر جھٹک کر میں آگے بڑھ جاتا ہوں …میں عظیم ہوں ۔ خوفناک درندوں کی کھال سے میں نے اپنا لباس بنایا اور یہ مجسمہ ہاتھی دانت سے بنا ہے ۔ کائنات میں صرف میں ہوں ،جس نے دکھائی نہ دینے والے ذرات میں چھپی طاقت دریافت کی ۔ میرے ایٹمی ہتھیار چند منٹ میں کرّہ ارض کی تمام حیات مٹا سکتے ہیں۔ کائنات کی تاریخ میں پہلی بار اب میں ایک چھوٹے سے سیارے پر وہ عمل دہرائوں گا، اس سے پہلے جو صرف ستاروں سے مخصوص تھا۔ ہائیڈروجن کے دو ننھے ذرات کو کئی ملین ڈگری تک حرارت پہنچا کر میں انہیں فیوژن کے عمل سے بھاری عناصر میں بدلنے کی کوشش کروں گا۔صرف چند صدیوں میں ، ڈارک میٹر (Dark Matter)اور کائنات کے باقی ماندہ خفیہ راز میرے سامنے افشاہونے کو ہیں ۔ اپنی کامیابیوں کا ایک نشہ مجھ پر طاری ہو جاتا ہے۔ ایسے میں غرور اور تکبّر سے میں چاروں طرف دیکھتا ہوں ۔’’ میرے دبدبے اور اختیار کو چیلنج کرنے والا کون ہے ؟‘‘ دھاڑ کر زمانے سے میں پوچھتا ہوں ۔ ’’کوئی نہیں ، کوئی نہیں ، بجز خدا…‘‘ ایک آواز میرے اطراف میں گونجنے لگتی ہے ۔ ’’خدا ؟‘‘حیرت سے میں چاروں طرف دیکھتا ہوں ۔ ’’ہاں خدا‘‘اب ایک عجیب آدمی مجھ سے ہم کلام ہوتا ہے ۔’’وہ خدا، جس کے تخلیق کردہ پہلے خلیے سے تو کلوننگ کا آغاز کرے گا۔ ‘‘ ’’پہلا خلیہ ؟‘‘میں دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیتا ہوں ۔یہ چیختا ہوا سوال میرے سامنے ناچنے لگتا ہے کہ پہلا خلیہ کہاں سے آیا۔ تکبّر اور خدائی کے میرے بت ٹوٹنے لگتے ہیں لیکن دفعتاً میں سنبھل جاتا ہوں ۔ ’’خدا کون ہے ؟ میں کسی ان دیکھے خدا کو نہیں مانتا۔‘‘ ’’اوران دیکھے ایٹم سے توانائی کشید کرتے ہو؟‘‘وہ ہنس پڑتا ہے ’’چودہ سو سال قبل خدا نے یہ بتا دیا تھا کہ دجّال ہمزاد تخلیق کرے گا۔ کیا تو مکھی کے منہ سے اپنی خوراک کا وہ ذرہ چھین سکتا ہے ، جو اس نے تجھ سے چرا لیا؟ تو نے کائنات تسخیر کر لی ؟ ذرا اپنے پڑوسی ستارے الفا سینٹوری کے سیارے پہ اتر کے دکھا ۔ ڈارک میٹر کا پتہ چلانے میں تو نے بہت دیر کردی۔ بہت پہلے اس نے یہ بتا دیا تھا کہ وہ ظلمات اور نور کا خالق ہے ۔چالیس ہزار برس کے بعد تو Big Bangتک پہنچا۔ وہ کب کا اپنے پیمبر ؑ کو بتا چکا کہ کائنات کی ابتدا میں زمین و آسمان یکجا تھے اور اس نے انہیں پھاڑ کر جدا کیا۔ تو اپنے گمشدہ ماضی کے اوراق چنتا پھرتا ہے ،وہ اختتام کی خبر دیتا ہے ۔ سورج پھیلتا ہوا عطارد، زہرہ ، حتیٰ کہ ہمارے چاند کو نگل لے گا۔ و جمع الشمس و القمر… آج تجھے پتہ چلا کہ ستارے اپنی موت سے پہلے پھیلتے ہیں ۔ کیمرے پہ تو نازاں ہے ، ذرا اپنی آنکھ پہ غور کر۔ تو انگوٹھوں کے نشان سے جعلی ووٹ پکڑتا ہے ، تیرے اپنے اعضا تیرے خلاف گواہی دیں گے ۔ اے متکبر اور جاہل آدمی ،خدا نے ہر ذی روح کے لیے موت لکھی ہے ، ذرا اپنے علم اور ذہانت کے بل پر اسے روک کے دکھا۔ لا محدود ڈیٹا محفوظ کرنے والی چِپ اور یہ موبائل فون؟ ذرادماغ پر غور کر اور روح پر ، جسے جب وہ چاہے ، ایک بدن سے دوسرے میں منتقل کر سکتا ہے ۔اور سن ، جس عقل پہ تو اتراتاپھرتا ہے ، جس سے تو نے اپنی زندگی سہل بنا ئی ،اس کا خالق بھی خدا ہے اور اس نعمت کے بدلے تجھ سے زمین پر گزرے ایک ایک پل کا حساب لیا جائے گا۔ ‘‘ یہ سب سن کر میں خوفزدہ ہو جاتا ہوں ۔’’ کس چیز کا حساب؟ ‘‘ اب وہ رحم بھری نظروں سے میری طرف دیکھتاہے۔ ’’جس عقل کی بنیاد پر تو نے ایجادات کیں ، دراصل وہ خدا کی تلاش کے لیے عطا کی گئی تھی ۔ اس کے بتائے ہوئے طریق پر زندگی گزارنے کے لیے اورجبلّتوں سے جنگ کے لیے ۔ ابھی کچھ دیر پہلے جس کیمرے پہ تو اترا رہا تھا، اس سے بہت اعلیٰ درجے کے ہائی ڈیفی نیشن کیمرے ہر زاویے سے ہماری ویڈیو بنا رہے ہیں ۔ We are under observation۔‘‘ سر جھکا کر اب میں بیٹھ جاتا ہوں ۔ گزرے لمحات کو میں یاد کرتاہوں اور میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ ندامت ، احساسِ زیاں اور خوف۔بے بسی کی شدّت میں ، میں رونے لگتا ہوں لیکن اب وہ میرے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر مجھے تسلّی دیتا ہے ۔ ’’خدا اپنی طرف پلٹنے والوں کو نہ صر ف معاف کر دیتا ہے بلکہ ان سے محبت کرتا ہے ۔ وہ گناہوں کو نیکیوں سے بدل ڈالتا ہے ۔ اس کے جو بندے اپنی زندگیاں خسارے کی نذر کر چکے ، وہ انہیں اپنی رحمت سے مایوس نہ ہونے کا حکم دیتا ہے ۔ ‘‘ اب ایک سکون میرے رگ و پے میں اترنے لگتاہے۔’’تمہاری نظر میں خداکے وجود پر سب سے بڑی دلیل کیا ہے ؟ ‘‘میں اس دور جاتے اجنبی سے آخری سوال کرتا ہوں ۔ ’’یہ کہ زمین پر موجودلاکھوں مخلوقات میں سے فقط ایک ذہین ہے ۔‘‘ وہ جواب دیتا ہے اور تاریکی میں گم ہو جاتا ہے ۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved