عنوان پڑھ کر ہی پتا چل گیا ہوگا کہ آج کی سطور کس عالمی شہرت یافتہ گلوکار کے بارے میں لکھی جائیں گی۔ جی ہاں! نصرت فتح علی خان۔ وہ 13 اکتوبر 1948ء کو لائل پور (ابھی اُس کا نام بدلنے میں اٹھارہ برس باقی تھے) میں پیدا ہوئے اور 48 برس عمر پائی۔ 16 اگست 1996ء کو لندن کے کرامویل ہسپتال میں وفات پائی۔ وفات سے کئی سال پہلے ہی اُن کی صحت خراب رہنے لگی تھی۔ خرابیٔ صحت کی وجہ اُنکے گردے تھے۔ پاکستان سے برطانیہ تک وہ جہاں بھی طبعی مشورے یا علاج کیلئے گئے‘ اُنہیں ایک مشورہ ہر جگہ دیا گیا اور وہ تھا وزن گھٹانے کا مشورہ۔ غنیمت یہ ہے کہ وہ نامور افراد والی دیگر علتوں حتیٰ کہ سگریٹ نوشی سے بھی یکسر محفوظ رہے۔ گلوکاروں میں کندن لال سگل‘ شاعروں میں اختر شیرانی‘ افسانہ نگاروں میں سعادت حسن منٹو اور دیگر بہت سے ادیبوں اور فنکاروں کے معاملے میں کیا ہوا۔ بہرکیف نصرت فتح علی خان اپنی مختصر سی زندگی کی آخری رُبع صدی میں شہرت اور مقبولیت کی جس بلندی تک پہنچے وہ اُن کے کسی بھی ہم عصر کو نصیب نہ ہو سکا۔ اُنہوں نے قوالی کی شکل میں صوفیانہ کلام گانے کے فن کو بامِ عروج تک پہنچا دیا۔ وہ قوالی کو روایتی اور نستعلیقی طرز پر پیش کرنے کے مانے ہوئے اساتذہ‘ صابری برادران کے ہم عصر تھے مگر اس کے باوجود انہوں نے اپنا الگ مقام بنایا اور دنیا پر اپنے فن کی گہری چھاپ چھوڑی۔ یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ لائل پور میں اُگنے والا یہ گلاب اپنے جسمانی وزن کے بوجھ سے سُوکھ کر اور کروڑوں دلوں کو اُداس کر کے اتنی جلد چلا جائے گا۔ بلاشبہ خان صاحب کی موت اتفاقیہ تھی۔
1980ء کے عشرے میں امیر عثمان لندن میں پاکستان کے نائب (اور قائم مقام) ہائی کمشنر تھے۔ حنیف رامے صاحب ہمارے مشترکہ دُوست تھے اور انہی کی نسبت سے امیر عثمان صاحب سے میرے دوستانہ تعلق کا آغاز ہوا۔ ایک دن اُن کی طرف سے لندن ہائی کمیشن میں ایک گلوکار کے فن کا مظاہرہ دیکھنے کا دعوت نامہ ملا۔ دعوت نامہ اگر میاں بیوی کے لیے نہ ہوتا تو شاید میں اکیلا نہ جاتا۔ یہ دعوت نامہ بڑے تذبذب کے عالم میں قبول کیا گیا کیونکہ ہم کسی عامیانہ گلوکار کی شمع خراشی سے اپنی شام برباد نہ کرنا چاہتے تھے۔ ایک گھنٹہ طویل سفر کے دوران ہم اپنے آپ کو تسلی دیتے رہے کہ گلوکار اچھا نہ بھی ہوا تو کم از کم کئی پرانے واقف کاروں اور دوستوں سے تجدیدِ ملاقات کا موقع مل جائے گا۔ ہائی کمیشن پہنچے تو گلوکار کا نام پتا چلا۔ اُسے دیکھا تو بہت اچھا لگا۔ چہرے پر بچوں کی معصومیت۔ نہ ناز نہ نخرہ۔ انکساری‘ وقار اور متانت۔ اگر گوتم بدھ سچائی کی تلاش میں شاہی محل سے نہ نکلتے اور ساری عمر درختوں کے نیچے بیٹھ کر گیان دھیان نہ کرتے اور شاہی گھرانے کے دوسرے افراد کی طرح پانچ (کم از کم تین) وقت بہترین کھانا کھاتا تو وہ بالکل ایسے ہی لگتے جس طرح ہمارے بالکل سامنے چاندنی پر بیٹھے ہوئے نصرت فتح علی خان۔ جونہی محفل موسیقی شروع ہوئی اور اس نابغہ روزگار گلوکار نے پہلی تان بلند کی تو سامعین کو اپنی خوش قسمتی کا احساس ہو گیا کہ وہ اُن بہت تھوڑے سے لوگوں میں شامل ہیں‘ جنہیں پہلی بار ایک ایسی کمال کی آواز سننے کا اعزاز ملا جو آنے والے چند سالوں میں مشرق و مغرب میں سنی جانی اور بے انتہا پسند کی جانی تھی۔ صف اوّل سفارتکاروں کیلئے مختص تھی۔ ہم میاں بیوی دوسری صف میں بٹھائے گئے تھے مگر یہ نشستی انتظام ہمارے میزبان کو مہنگا پڑا۔ میری اہلیہ یاسمین نہ جانتی تھیں کہ امیر عثمان قائم مقام سفیر ہیں۔ وہ بڑی سادگی سے ہر تھوڑے وقفے کے بعد اُنہیں پانچ پائونڈ کا نوٹ تھما کر اشارہ کرتیں کہ وہ گلوکار کے آگے رکھ دیں۔ بیچارے امیر عثمان سارا وقت یہی کرتے رہے‘ پیشانی پر ایک شکن ڈالے بغیر۔ ہم گھر لوٹے تو دنوں کی جیب خالی تھی مگر کانوں میں نصرت فتح علی خان کی جادو جگانے والی اعلیٰ ترین گائیکی کی آواز گونج رہی تھی۔ اس سے بڑی دولت اور کیا ہوتی۔ اس یادگار محفل کے بعد مجھے کسی کنسرٹ میں ان کے فن کا مظاہرہ لائیو دیکھنے کا دوبارہ موقع نہ ملا۔ بدقسمتی سے ایک بار بھی نہیں۔ ذاتی ملاقاتوں کی صورت یوں نکل آئی کہ وہ ہمیشہ لندن کے مغربی مضافات میں Slough نامی شہر میں اپنے ایک لائل پوری دوست (احمد دین) کے پاس ٹھہرتے تھے۔ میں بھی اسی شہر کا مکین اور اُن کے میزبان کا اچھا واقف کار تھا۔ اسی نے ذاتی ملاقاتوں کا اہتمام کیا جس کے لیے میں ان کا احسان مند ہوں۔
نصرت فتح علی خان ہر لحاظ سے ایک پسندیدہ شخص تھے۔ کھانا فرش پر بیٹھ کر کھاتے اور چاول کھانے کیلئے چمچہ استعمال نہ کرتے۔ روزمرہ کی دلچسپیوں کی باتیں کرتے اور وہ بھی فصیح وبلیغ مادری زبان (پنجابی) میں۔ مجھے جب بھی ملتے تو ہنستے ہوئے کہتے: آپ وہی ہیں جس نے لائل پور (گورنمنٹ کالج) میں دو سال پڑھا اور پھر ایک اور کالج (میونسپل عرف خالصہ) میں دوسال پڑھایا۔ کالم نگار خوش ہوتا کہ اتنا بڑا فنکار ساری دنیا کا چکر لگا کر واپس آیا ہے مگر اُسے میں نہیں بھولا اور اس نے پہچان لیا۔ افسوس کہ مجھے کبھی خیال نہ آیا کہ اُن سے کسی تصویر پردستخط کروا کر بطور یادگار سنبھال لوں۔ اگر آپ تالاب کے ایک کنارے پر پتھر پھینکیں تو سطحِ آب پر دائرے نمودار ہوتے ہیں اور وہ آہستہ آہستہ بڑے ہوتے ہوئے سارے تالاب میں پھیل جاتے ہیں۔ نصرت صاحب کا بھی یہی حال تھا۔ لائل پور سے شہرت پھیل کر لاہور‘ کراچی اور اسلام آباد تک پہنچی اور پھر وہاں سے مشرق وسطیٰ اور پھر یورپی ممالک اور امریکہ کے ایک ساحل سے دوسرے ساحل تک۔ وہاں جہاں بھی گاتے‘ فرش پر بیٹھ کر اور ننگے پائوں۔ اُن کی بنائی گئی ایک دُھن کو ایک بڑے مغربی فنکار نے اپنی موسیقی کے ساتھ ملا کر پیش کیا تو اُن کی شہرت جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ غالب نے اپنے بارے میں کہا تھا کہ سو پشت سے سپہ گری اُن کا پیشہ ہے مگر نصرت صاحب کی سو پشتوں تو نہیں مگر وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اُن کے آبائو اجداد چھ صدیوں سے پیشہ ورانہ طور پر کلاسیکی موسیقی سے وابستہ تھے۔ اُن کے والد کا اُستاد فتح علی خان اور ان کے دو بھائی بھی اچھے قوال تھے۔
نصرت کی گائیکی کا سرچشمہ صدیوں پر پھیلا ہوا شاعرانہ سرمایہ تھا‘ جس کے کئی رنگ تھے۔ صوفیانہ‘ رومانوی‘ خالقِ حقیقی کی عبادت‘ درویشوں‘ سادھوئوں اور دُنیا کو تج دینے والوں سے عقیدت‘ صحرائوں میں ننگے پائوں اور آبلہ پا بھٹکنے والوں کیلئے احترام کا جذبہ‘ بے خطر آتشِ نمرود میں کود جانے والوں کیلئے چشم پُرنم۔ ان سب پھولوں کو ایک گلدستہ کی شکل میں گوندھا جائے اور پھر اسے نصرت فتح علی خان کے حوالے کر دیا جائے تو وہ اپنے زرخیز دماغ سے اس شاعری کو گائیکی کے ایسے رنگ اور آہنگ میں پیش کریں کہ چاہے آپ مشرق و مغرب میں کہیں بھی رہتے ہوں‘ آنکھیں بند کر کے سر دھنیں گے اور دھنتے چلے جائیں گے۔ وہ الفاظ کی تکرار سے جادو جگانے کا فن اتنی اچھی طرح جانتے تھے۔ ان سے پہلے نہ ان کے بعد‘ اُن کا کوئی ثانی پیدا نہیں ہوا۔ اُن کا گائیکی میں وہی بلند مقام تھا جو مصوری میں اُستاد اللہ بخش‘ عبدالرحمن چغتائی اور صادقین کا۔ اُنہوں نے اپنی گائیکی کے پہلے دور میں پاکستان میں سو سے زیادہ کیسٹس ریکارڈ کروائے۔ موسیقی کے عالمی اُفق پر وہ اُس وقت اُبھرے جب اُنہوں نے برطانوی کلوگار Peter Gabriel کے ساتھ اشتراکِ عمل کے معاہدے پر دستخط کیے اور پھر 1985ء میں ٹوکیو میں ورلڈ میوزک فیسٹیول میں حصہ لیا تو مشرق سے مغرب تک دھوم مچ گئی۔ اُن کی بے وقت وفات کے بعد اُن کی یاد میں اُسی سال جو البم دنیا بھر میں ہاتھوں ہاتھوں لیا گیا وہ مشرقی اور مغربی موسیقی کا امتزاج تھا‘ تاہم ہمت کر کے ہمیں یہ بھی مان لینا چاہیے کہ نصرت فتح علی خان کی گائیکی کا دوسرا دور اُن کیلئے بڑی ذہنی تکلیف کا باعث بنا۔ جس طرح چاندنی کو برفانی طوفان اور خاک اُڑاتی آندھی سے نہیں ملایا جا سکتا‘ اسی طرح ''اللہ ہو‘‘ اور ''علی مولا‘‘ جیسی صوفیانہ قوالیوں میں مغربی موسیقی کے شور وغل کے امتزاج کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ رعایت خود نصرت فتح علی خان جیسے کمال کے گلوکار کو بھی نہیں دی جا سکتی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved