پاکستانی ریاست کا سر اونچا اور قد لمبا ہوتا جا رہا ہے‘ وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے زیر قیادت فتوحات کا سلسلہ جاری ہے۔ امریکہ سے تعلقات نئی کروٹ لے چکے ہیں‘ صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان پر مہربان کیا قربان ہو رہے ہیں۔ امریکہ سے تجارتی معاملات بھی طے پا چکے ہیں اور پاکستانی برآمدات پر لگایا جانے والا ٹیرف 29فیصد سے کم کر کے 19فیصد کر دیا گیا ہے۔ تیل اور گیس کی دریافت کے لیے امریکہ کے ساتھ مشترکہ کاوش کا آغاز کرنے کا اعلان صدر ٹرمپ کی زبانی دنیا تک پہنچ گیا ہے۔ جنابِ صدر یہ بات دہراتے چلے جا رہے ہیں کہ انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کرا کر دنیا کو بڑی تباہی سے بچا لیا ہے۔ پاکستان ''احسان مندی‘‘ سے ان کی طرف دیکھ رہا ہے تو بھارت کے تن بدن میں آگ لگی ہوئی ہے۔ پردھان منتری نریندر مودی (جنہیں اب ''سرینڈر‘‘ مودی کہا جانے لگا ہے) منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے دعوے کی تردید نہیں کر پا رہے اور تصدیق کرنا بھی مشکل ہے کہ اس سے ان کا گھمنڈ پاش پاش ہو جاتا ہے۔ بھارت کے اپوزیشن رہنما راہول گاندھی ان سے بار بار مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ صدر ٹرمپ کو جھوٹا قرار دے دیں‘ لوک سبھا میں آ کر کہہ دیں کہ امریکی صدر دروغ گوئی سے کام لے رہے ہیں‘ ان کی مداخلت سے جنگ بندی نہیں ہوئی لیکن مودی کی زبان کو تالہ لگا ہوا ہے‘ وہ کچھ بول نہیں پا رہے۔ یوں ان کی قلعی کھلتی جا رہی ہے۔ ٹرمپ کو جھوٹا کہنے کے لیے انہیں خود جھوٹ بولنا پڑے گا۔ ان کی سیاست ہچکیاں لے رہی ہے۔ انہوں نے بھارت میں جو افراتفری مچائی ہے اور وہاں کے باسیوں کو جس طرح ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کیا ہے‘ اپنے ہاتھ اقلیتوں کے خون سے جس طرح رنگے ہیں‘اس نے بھارت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا دیا ہے‘ اس کا سیکولر اور جمہوری چہرہ تار تار ہو چکا ہے‘ دنیا بھر میں وہ ایک انتہا پسند اور متشدد ملک کے طور پر جانا جا رہا ہے۔ بھارت سے امریکہ کے ٹیرف کے معاملات بھی طے نہیں ہو پائے۔ صدر ٹرمپ دباؤ بڑھائے ہوئے ہیں۔ اس پر روس سے تیل اور اسلحہ خرید کر یوکرین کی جنگ کو ''فنانس‘‘ کرنے کا الزام دھر رہے ہیں۔ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کھینچا تانی کب تک جاری رہے گی۔ عین ممکن ہے کہ ٹرمپ صاحب ان پر دباؤ بڑھا کر مرضی کی ڈیل حاصل کر لیں اور دونوں ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والی دوری کچھ سمٹ جائے‘ لیکن پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات میں جو بہتری آئی ہے‘ اس کے اثرات باآسانی کم نہیں ہوں گے۔ چار روزہ جنگ نے پاکستانی ریاست کی صلاحیت اور اہمیت کو جس طرح منوایا ہے‘ ایک اٹل حقیقت کے طور پر عالمی سیاست اس سے متاثر ہوتی رہے گی۔
پاکستانی حکومت نے چین‘ امریکہ‘ ایران‘ سعودی عرب‘ ترکیہ اور آذربائیجان کے ساتھ جس طرح سفارت کاری کی ہے اور کسی بھی ملک کو کسی دوسرے ملک کی عینک سے نہ دیکھنے کی جو حکمت عملی اپنائی ہے‘ اب وہ اس کا پھل کھا رہی ہے۔ پاکستان نے ہر ایک کو قائل کیا ہے کہ وہ دوطرفہ مفادات کو مدِنظر رکھتے ہوئے معاملہ سازی کرے۔ امریکہ کو چین کی اور چین کو امریکہ کی عینک سے دیکھنا کسی طور مناسب نہیں۔ ہم ہر ایک کو اپنی آنکھ سے دیکھیں گے اور کسی ایک کے لیے دوسرے کو قربان نہیں کریں گے۔ ہمیں بھی ہر ملک اپنی اپنی آنکھ سے دیکھے۔ یہ سفارت کاری پل صراط پر چلنے کا نام ہے لیکن پاکستان نے گزشتہ کچھ عرصے میں بڑی کامیابی سے اسے برت کر دکھایا ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ اس سے پاکستان کو اپنی داخلی مشکلات پر قابو پانے میں بھی مدد ملے گی۔ دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہو گا اور بیرونی سرمایہ کاری کے امکانات بھی بڑھیں گے۔
عالمی طاقتوں اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ معاملات کو بہتر سے بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ داخلی تضادات اور اختلافات کو سمیٹا جائے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ابھی تک جیل میں ہیں‘ وہ اپنی رہائی کے لیے تحریک چلانے کے ارادے باندھے ہوئے ہیں جبکہ ان کی جماعت کے کئی رہنماؤں اور کارکنوں کو فوجی اور قومی تنصیبات پر حملہ کرنے کے الزام میں سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔ دس دس سال قید کی سزا سنا کر ارکانِ اسمبلی کو نااہل قرار دینے کا عمل بھی شروع کر دیا گیا ہے۔ ان کی نشستیں خالی قرار دے کرانتخابات کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ الیکشن کمیشن برق رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے۔ انسدادِ دہشت گردی کی جو عدالتیں سزائیں سنا رہی ہیں‘ ان کی حیثیت ابتدائی ہے۔ ان کے فیصلوں کے خلاف ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیلیں ہوں گی‘ گویا ہر ملزم کو دو اعلیٰ عدالتوں میں اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع ملے گا۔ اس حقیقت کو مدِنظر رکھا جائے تو ضمنی انتخابات کے لیے تیزگامی سمجھ سے بالاتر ہے۔ جن بھی رہنماؤں اور کارکنوں کو سزائیں سنائی گئی ہیں انہیں دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک وہ جو براہِ راست ہنگاموں یا حملوں میں شریک تھے اور ان کی وڈیوز موجود ہیں یا عینی شہادتیں ان کے خلاف دستیاب ہیں۔ دوسری طرف وہ جو موقعِ واردات پر موجود نہیں تھے۔ انہیں ''سازش‘‘ میں شریک ہونے یا ''اکسانے‘‘ یا ''منصوبہ سازی‘‘ کرنے کا مجرم ٹھہرایا گیا ہے۔ وکلائے صفائی کا کہنا ہے کہ مشکوک گواہیوں اور شواہد کی بنیاد پر ان لوگوں کو لپیٹ میں لیا گیا ہے۔ ایسا ہے تو اپیل کی عدالت میں یہ دلیل ملزموں کے حق میں کارآمد ہو گی کہ فوجداری مقدمات میں شک کا فائدہ ملزم کو ملتا ہے‘ مدعی کو نہیں۔ قتل تک کے مقدمات میں اگر شک پیدا ہو جائے تو ملزم بری ہو جاتا ہے۔ مشکوک اور غیر معتبر گواہیوں کی بنیاد پر سزا کا برقرار رہنا ممکن نہیں‘ لیکن یہ تو وہ معاملہ ہے جو عدالتوں میں طے ہو گا۔ حکومت اگر چاہے تو وزارتِ قانون مقدمات کے فیصلوں کا جائزہ لے کر ملزمان کو ریلیف فراہم کرنے کا انتظامی اقدام کر سکتی ہے۔ خارجی محاذ پر کامیابیوں کا تقاضا ہے کہ داخلی محاذ پر بھی پیش قدمی کی جائے۔ یہاں الجھاؤ اور تصادم کے خطرات کو کم کیا جائے۔ اگر داخلی سیاست کی گتھیاں نہ سلجھائی گئیں تو خارجی محاذ کی پیش قدمی ماند پڑ سکتی ہے۔ داخلی بدنظمی ماضی میں بھی ہماری ریاست کو مشکلات میں مبتلا کرتی رہی ہے‘ آج بھی یہ خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے‘ اسے نظر انداز کرنا شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپانے کے مترادف ہو گا۔ اہلِ سیاست اور اہلِ ریاست کو‘ خواہ وہ اقتدار میں ہوں یا حزبِ اختلاف میں‘ سرحدوں پر ہوں یا سرحدوں کے اندر‘ برسرِ زمین ہوں یا زیر زمین‘ ایک دوسرے کو زیر کرتے کرتے اپنے آپ کو ادھ موا نہیں کر لینا چاہیے۔ ''ادھ موئے‘‘ افراد یا ادارے کسی بھی ریاست کی طاقت یا عظمت کے ضامن نہیں بن سکتے۔ ریاست اور سیاست کو بہت کچھ بھولنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات معافی مانگنا پڑتی ہے اور معاف کرنا بھی پڑتا ہے ؎
ایک‘ دو‘ تین‘ چار نہیں
سب خطائیں میری معاف کرو
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved