تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     04-08-2025

5 اگست کے بعد؟

کیاکل سے ایک نئے تصادم کا آغاز ہونے والا ہے؟
تحریکِ انصاف ایک سیاسی جماعت ہے تو اس کو اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کا حق ہے۔ اس کو جلسوں سے روکا جا سکتا ہے نہ تحریکیں اٹھانے سے۔ یہ سیاست میں کوئی انہونی نہیں ہے۔ پاکستان کی ہر سیاسی جماعت نے جلسے کیے ہیں اور تحریکیں اٹھائی ہیں۔ تشدد البتہ ممنوع ہے۔ کوئی حکومت اس کی اجازت نہیں دے سکتی اور دینی بھی نہیں چاہیے۔ تحریک انصاف کے دامن پر نو مئی کا داغ کچھ اس طرح نمایاں ہوا ہے کہ دامن کا اصل رنگ کسی کو یاد نہیں رہا‘ صرف داغ یاد ہے۔ یہ داغ ریاست کے دل میں ترازو ہو چکا۔ تشدد کی حکمتِ عملی نے اس جماعت کو دیوار سے لگا دیا۔ اس پر مستزاد سیاسی حرکیات سے عدم آشنائی۔ اب یہ تحریک انصاف کا امتحان ہے کہ وہ خود کو ایک سیاسی جماعت کیسے ثابت کرتی ہے۔
ریاست کو بھی سمجھنا ہے کہ جب کسی کو سیاسی عصبیت حاصل ہو جائے تو اس کا راستہ اقتدارکی طاقت سے نہیں روکا جا سکتا۔ ماضی میں بینظیر بھٹو صاحبہ کا راستہ روکا جا سکا نہ نواز شریف صاحب کا۔ عمران خان صاحب کا معاملہ دو ہاتھ آگے ہے۔ یہ عصبیت نہیں‘ ایک کلٹ ہے۔ یہاں دلیل کا کوئی کردار نہیں۔ پنجاب حکومت کی کارکردگی کو اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو غیر معمولی ہے۔ اگر اس کا موازنہ بزدار انتظامیہ سے کیا جائے تو زمین آسمان کا فرق ہے۔ لوگ لیکن اس معاملے کو انصاف نہیں‘ تحریک انصاف کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ انصاف سے متصادم زاویۂ نظر ہے۔ حسنِ کارکردگی اس سوچ کو متاثر نہیں کر سکا۔ یہ سوچ سیاسی نہیں ہے۔ اس لیے میں تحریک انصاف کو ایک سیاسی جماعت ماننے میں متردد ہوں۔ میرا یہ تردد مگر سیاسی منظرنامے کو تبدیل نہیں کر سکتا۔ یہ عقل نہیں‘ جذبات کی دنیا ہے۔ ریاست کو اسے سمجھنا‘ اور کوئی راستہ نکالنا ہوگا۔
تحریک انصاف کی قیادت کئی صفوں میں منقسم ہے۔ اس جماعت سے وابستہ عوام مگر یکسو ہیں۔ ان کو کسی گوہر سے دلچسپی ہے نہ صدف سے۔ وہ صرف مرشد کی طرف دیکھتے ہیں۔ پوری جماعت میں کوئی ایک ایسا نہیں جسے سیاسی عصبیت حاصل ہو۔ ہماری سیاسی جماعتوں کا بالعموم کوئی نظریہ ہے نہ کوئی تنظیم۔ یہ عشاق اور مریدوں کے گروہ ہیں۔ تحریک انصاف بھی ایسی ہی ہے۔ ریاست نے اس کی قیادت میں نقب لگائی لیکن عوام میں نہیں لگا سکی۔ جو وابستہ ہیں وہ وابستہ ہیں۔ مکرر عرض ہے کہ کسی دلیل کی بنیاد پر نہیں‘ عقیدت اور عصبیت کی اساس پر۔ یہ حکمتِ عملی ناکام ہو چکی کہ قیادت کو ہمنوا بنا کر عمران خان صاحب سے وابستہ عوام کو بھی ہمنوا بنایا جا سکتا ہے۔ اس لیے ریاست کو اب کوئی اور راستہ ڈھونڈنا ہوگا۔
تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت کا مزاج نہیں اپنا سکی تو یہ بات اس کی پیش رفت میں رکاوٹ بن گئی۔ ریاست جب نہیں جان پائی کہ جب کسی فرد یا گروہ کو سیاسی عصبیت حاصل ہو جائے تو اس کے ساتھ کیا معاملہ کرنا چاہیے تو معاشی استحکام کو سیاسی استحکام میں نہیں بدل سکی۔ یہی بے خبری اس کی پیش قدمی میں رکاوٹ ہے۔ دونوں کا خیال ہے کہ طاقت سے مسائل حل ہوتے ہیں۔ خان صاحب کو زعم ہے کہ وہ عوام کی قوت سے منظر بدل سکتے ہیں۔ ریاست کو اعتماد ہے کہ وہ اداروں کی طاقت سے فاتح رہے گی۔ ایسی سوچیں صرف تصادم پر منتج ہوتی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ معاملہ سیاست کا نہیں نرگسیت کا ہے۔ ایک نرگسیت کو دوسری نرگسیت کا سامنا ہے۔
اس وقت (ن) لیگ کی حکومت ہے۔ (ن) لیگ کی تاریخ یہ ہے کہ جب اسے اقتدار ملتا ہے‘ اس کی سیاست اس میں تحلیل ہو جاتی ہے۔ اس کا انتظامی کردار باقی رہتا ہے‘ سیاسی ختم ہو جاتا ہے۔ آج بھی تاریخ خود کو دہرا رہی ہے۔ شہباز شریف صاحب ایک شاندار منتظم ہیں۔ کوئی تعصب حائل نہ ہو تو ان کی کارکردگی کی صرف تحسین کی جا سکتی ہے۔ ان کی قیادت میں‘ پاکستان نے معیشت اور خارجہ پالیسی کے میدانوں میں وہ سنگ ہائے میل عبور کیے ہیں کہ دو سال پہلے ان کا صرف خواب دیکھا جا سکتا تھا۔ ایک مدت کے بعد بھارت کو نہ صرف میدانِ جنگ میں‘ بلکہ سفارت کاری کے میدان میں بھی شکست ہوئی ہے۔ پاکستان نے ایک بڑے بحران میں امریکہ اور ایران کے ساتھ جس طرح توازن قائم کیا ہے‘ وہ آنے والے دنوں میں سفارت کاری کے سکولوں میں بطور مثال پڑھایا جائے گا۔ اس کا کریڈٹ وزیراعظم اور ان کی ٹیم کو جانا چاہیے۔ سیاست کے محاذ پر مگر مکمل خاموشی ہے۔ (ن) لیگ کی اس وقت کوئی سیاست نہیں‘ یہاں تک کہ اس کی صفوں میں کوئی سیاستدان بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ رانا ثناء اللہ سیاستدان ہیں۔ وہ حکومت کو پیارے ہو گئے۔ دوسرے خواجہ سعد رفیق ہیں۔ وہ غیر فعال ہیں۔ سیاست میں وہ کیا کریں؟ کیا جماعت کی قیادت نے انہیں کوئی کردارسونپا ہے؟ کیا (ن) لیگ اپنا سیاسی پوٹینشل مجتمع کرنے میں سنجیدہ ہے؟
کاش نواز شریف صاحب متحرک ہو سکتے۔ آج ضرورت ہے کہ (ن) لیگ ملک کو سیاسی بحران سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ خواجہ سعد رفیق جیسے اہلِ سیاست کو مینڈیٹ دے کہ وہ مکالمے کا آغاز کریں۔ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کی بات تحریک انصاف میں بھی توجہ سے سنی جائے گی۔(ن)لیگ‘ پیپلز پارٹی کو بھی اس مکالمے میں رفیق بنائے۔ وہاں بھی قمر زمان کائرہ جیسے لوگ ہیں جن کا سب احترام کرتے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کو بھی مکالمے میں شریک کر سکتے ہیں کیونکہ وہ شخصی اعتبار سے ایک مذہبی آدمی ہیں اور ایسے لوگوں سے فطری قرب رکھتے ہیں۔ بیرسٹر ظفر اللہ خان کی نیک نامی سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیے جن کے علم وفضل اور انتظامی صلاحیتوں کے سب معترف ہیں۔ تمام حلقوں میں محترم شمار ہوتے ہیں۔ اسی طرح عرفان صدیقی صاحب سیاست میں دلیل اور شائستگی کی علامت ہیں۔ وہ اختلاف کے آداب سے واقف ہیں۔ اگر(ن) لیگ ایسے لوگوں کی ایک ٹیم بنا لے تو وہ مکالمے کا آغازکر سکتی ہے۔ رانا ثناء اللہ صاحب اور احسن اقبال صاحب کو اگر فرصت ہو تو وہ بھی اس عمل میں شامل ہو سکتے ہیں۔ تحریک انصاف میں اگرچہ کسی فرد کی کوئی حیثیت نہیں مگر اس کی قیادت کو یہ باور کرانا چاہیے کہ وہ اپنی جماعت کو ایک فرد کی نرگسیت کے حوالے نہ کرے اور اس بحران سے نکلے۔ اسی میں خان صاحب کا بھی بھلا ہے۔ وہ علیمہ صاحبہ کو بھی سمجھائیں کہ ان کا بھائی اس نرگسیت کے ساتھ جیل سے نہیں نکل پائے گا۔(ن) لیگ اگر حکومتی اور سیاسی امور کو الگ الگ کرتے ہوئے ایک حکمتِ عملی اپنائے تو نواز شریف صاحب کی قیادت میں‘ ایک نئی سیاسی ابتدا کرتے ہوئے ملک کو تصادم اور نرگسیت کے مضر اثرات سے بچایا جا سکتا ہے۔ تاریخ نواز شریف صاحب کو ایک بڑا کردار دینا چاہتی ہے‘ وہ اس کی آواز پر کان دھریں۔ اگر(ن) لیگ کی ٹیم جیل میں عمران خان سے ملے تو اس میں بھی خیر ہوگا۔ یہ ملاقات نواز‘ عمران ملاقات کا پیش خیمہ بھی ہو سکتی ہے۔
(ن) لیگ کی بات میں نے اس لیے کی کہ اس کی ذمہ داری زیادہ ہے۔ شہباز شریف صاحب نے ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کیلئے جو محنت کی ہے‘ اسے کسی سیاسی عدم استحکام کی نذر نہیں ہونا چاہیے۔ تحریک انصاف کے مفاد میں بھی یہ ہے کہ تحریکوں کا مشکل راستہ اختیار کرنے کے بجائے مکالمے کی طرف آئے۔ مکالمہ بھی اہلِ سیاست کیساتھ۔ اس کی تحریک کچھ اور کرے نہ کرے‘ لاکھوں لوگوں کی زندگی کو چند دن کیلئے ضرور اجیرن بنا دے گی جو روزگار اور ملازمت یا علاج اور تعلیم کیلئے گھروں سے نکلیں گے۔ عوام کواس عذاب سے بچائیں اور مکالے کی طرف لوٹیں۔ مکالمے کا مطلب یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کریں۔ پانچ اگست میں ایک دن باقی ہے۔ کیا (ن) لیگ کی قیادت ایک دن میں کچھ کر پائے گی؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved