اس وقت ملک میںجو اشتعال‘ کشیدگی اور بے یقینی پائی جاتی تھی‘ اس کی وجہ سے اندیشہ تھا کہ دہشت گردی کے بڑے واقعات رونما ہو سکتے ہیں۔ خصوصاً پاکستانی طالبان اور ان کے ہمدردوں میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کی وجہ سے پیدا شدہ اشتعال موجود تھا اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے انتقامی کارروائی کی دھمکیاں دی جا رہی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ صوبائی اور وفاقی حکومتیں بھی انتہائی فکرمند تھیں اور ان کے پاس جتنے وسائل دستیاب تھے‘ انہوں نے پوری طرح دہشت گردی روکنے کے لئے انہیں تیارکر رکھا تھا اور سچی بات ہے ‘ جب سورج ڈھلنے کے بعد ملک میں عاشورہ کے بیشتر ماتمی جلوس اختتام کو پہنچ رہے تھے‘ تو ہم سب نے سکھ کا سانس لے کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ امتحان کا دن خون بہائے بغیر‘ بخیروعافیت گزر گیا۔ شومئی قسمت کہ راولپنڈی میں اچانک ایک سانحہ رونما ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے شہر بدنظمی اور فساد کی لپیٹ میں آ گیا۔ یہ سب کچھ کسی منصوبے کے تحت نہیں ہوا۔ دانشور جتنی کہانیاں چاہیں تراشتے رہیں۔ لیکن واقعات اور حقائق کو جاننے کے بعد میری ذاتی رائے یہی ہے کہ یہ فساد اتفاقیہ تھا۔ اگر شہری انتظامیہ کے اندر کوئی بھی تجربہ کار افسر موجود ہوتا‘ تو راولپنڈی بھی پاکستان کے باقی شہروں کی طرح پرامن رہ سکتا تھا۔ ہر وہ افسر‘ جو کسی بھی دور میں ڈپٹی کمشنر یا ایس پی رہ چکا ہو اور اسے سپیشل برانچ کی اہلیت سے فائدہ اٹھانے کا طریقہ آتا ہو‘ وہ ایسے معاملات کو چٹکیوں میں حل کر سکتا ہے۔ مختلف تہواروں اور مذہبی اہمیت رکھنے والے دنوں میں‘ جب جلوسوں اور جلسوں کے اہتمام کئے جاتے ہوں‘ ہر شہر میں چند ایک مقامات ایسے ہوتے ہیں‘ جنہیں حساس قرار دے دیا جاتا ہے۔ وہاں پر خصوصی احتیاطی تدابیر کی جاتی ہیں۔ راولپنڈی میں جہاں فسادات کی ابتدا ہوئی‘ اس مقام کو ہمیشہ سے حساس تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں پر دیوبندیوںکی ایک مسجد ہے اور اس کے قریب اسی مسلک سے تعلق رکھنے والوں کا ایک مدرسہ جامعہ تعلیم القرآن واقع ہے۔ اس مرتبہ عاشورہ اس لحاظ سے بھی زیادہ احتیاط کا متقاضی تھا کہ محرم کے جلوس بھی نکلنا تھے اور جمعتہ المبارک کے خطبات بھی ہونا تھے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ جمعہ کے روز نمازیوں کی تعداد عام نمازوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔ مساجد میں زیادہ ہجوم ہوتا ہے اور خطیبان کرام‘ خطبہ دینے کے لئے خاص تیاریاں کر کے آتے ہیں۔ تجربہ کار افسر مختلف ذرائع سے یہ انتظامات قبل ازوقت کر لیتے ہیں کہ جلوس اور خطبے کو حساس مقامات پر‘ ایک ہی وقت میں یکجا نہ ہونے دیا جائے۔ ایسا کرنے کے لئے متعدد طریقے اختیار کئے جاتے ہیں۔ رائج طریقہ یہ ہوتا ہے کہ دونوں فرقوں کے معززین سے ملاقات کر کے اوقات کا تعین کر دیا جاتا ہے۔ یا تو جلوس کے منتظمین کو خطبے کا وقت بتا کر کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ خطبہ شروع ہونے سے پہلے‘ متعلقہ مسجد سے آگے نکل جائیں یاامام صاحب سے کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ اپنا خطبہ جلوس‘ مسجد کے قریب آنے سے پہلے مکمل کر لیں۔اگر دونوں فریق محسوس کرتے ہوں کہ ان کے لئے وقت کی تبدیلی مشکل ہے‘ تو پھر طے کر لیا جاتا ہے کہ جب جلوس‘ مسجد کے سامنے ہو‘ لائوڈ سپیکر بند کر دیا جائے اور اگر دونوں میں سمجھوتہ نہ ہو سکے‘ تو پھر انتظامیہ کے پاس اور کئی طریقے ہوتے ہیں۔ مثلاً وہ مسجد سے کچھ فاصلہ پہلے جلوس کی رفتار سست کر دیتے ہیں تاکہ اس کے آنے سے پہلے خطبہ مکمل ہو جائے اور گنجائش ہو تو جلوس کو تیزی سے نکال دیتے ہیں تاکہ خطبہ بعد میں شروع ہو۔ غرض تجربہ کار افسروں کو بے شمار طریقے معلوم ہوتے ہیں‘ جنہیںاستعمال کر کے‘ وہ اس طرح کے اتفاقی سانحوں سے شہر کو بچا لیتے ہیں۔ راولپنڈی کی موجودہ شہری انتظامیہ میںغالباً کوئی بھی تجربہ کارافسر موجود نہیں ہے۔ یاد رہے‘ ہر شہر کا اپنا ایک مزاج اور اپنے مخصوص حالات‘ مقامات اور معاملات ہوتے ہیں۔ سپیشل برانچ ایسے موضوعات پر ہر وقت ریکارڈ تیار رکھتی ہے۔ تجربہ کار افسروں کو معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی قسم کے روایتی جلسوں‘ جلوسوں اور مظاہروں سے پہلے یہ ریکارڈ کب دیکھا جائے؟ اور کب متعلقہ افسروں سے تاریخ اور اہم افراد کے بارے میں بریفنگ لی جائے؟ لگتا ہے کہ راولپنڈی میں ایسا بھی نہیں ہوا۔ جلوس خصوصی احتیاطی تدابیر کے بغیر اپنے راستے پر مرضی کی رفتار سے چلتا ہوا‘ مسجد کے پاس آ گیا۔ ایسے مواقع پر بعض امام حضرات کا بھی جذبہ ایمانی جوش میں آ جاتا ہے۔ سنا ہے راولپنڈی میں ایسا ہی ہوا۔ جب خطیب صاحب کو پتہ چلا کہ سامنے اہل تشیع کا جلوس آ گیا ہے‘ تو انہوں نے بھی شعلہ افشانی شروع کر دی۔ جس سے عزاداروں کے جذبات بھڑک اٹھے اور انہوں نے مسجد میں جا کر ‘ امام صاحب پر جھپٹنے کی کوشش کی۔ اس طرح عزاداروں اور نمازیوں کے درمیان تصادم شروع ہو گیا۔ ایسی بدنظمی میں کسی کو کچھ پتہ نہیں چلتا کہ کون‘ کیا کر رہا ہے؟ لیکن شہر کا جو ماحول بگڑا‘ اس کی وجہ بے بنیاد افواہیں تھیں۔ کسی نے کہا کہ اہلحدیث کی مسجد پر حملہ ہو گیا ہے۔ کسی نے کہا امام صاحب کو شہید کر دیا گیا ہے۔ ایک افواہ یہ چلی کہ امام صاحب کے اہل خاندان پر حملہ کر دیا گیا۔ غرض ہر افواہ ‘ فسادات کی بھڑکتی ہوئی آگ میں تیل ڈالنے کے مترادف تھی۔ ہر نئی افواہ کے ساتھ‘ اشتعال کی نئی لہر اٹھتی اور مشتعل لوگ‘ جو بھی ان کے سامنے آتا‘ اس کی توڑپھوڑ کرتے ہوئے آگ لگا دیتے۔ ایک سو سے زیادہ دکانیں آتش زنی کی نذر ہو گئیں۔ 10 کے قریب افراد جاں بحق ہوئے اور زخمیوں کا صحیح شمار نہیں۔ سرکاری گنتی انہی کی ہو سکی‘ جو ہسپتالوں میں چلے گئے۔ میڈیا نے جس قدر احتیاط اور ذمہ داری کا مظاہرہ کیا‘ اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ اگر یہ خبر شام سے پہلے نشر ہو جاتی اور کسی چینل پر اشارہ تک بھی آ جاتا کہ اصل فساد کی وجہ کیا ہے؟ تو پورے ملک میں آگ بھڑک سکتی تھی۔ ہر شہر اور قصبے میں عزاداروں کے جلوس سڑکوں پر تھے۔ 10ویں محرم ہی اہل بیت کی بیشتر شہادتوں کا دن ہے۔ مومنین کا جذبہ شہادت پورے عروج پر ہوتا ہے۔ اجتماعی نفسیات کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں۔ معمولی سی چنگاری بھی اشتعال کے شعلے بھڑکا سکتی ہے۔ خوش نصیبی سے اس روز موبائل ٹیلیفون کی سروسز معطل کی جا چکی تھیں۔ اس طرح یہ ذریعہ بھی دستیاب نہ رہا اور یوں باقی ملک میں عاشورہ کا دن امن و امان سے گزر گیا۔ جس پر ہم سب کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ 10ویں محرم کا دن ایک اور اعتبار سے بڑے امتحان کا دن تھا۔ سب سے بڑا خطرہ طالبان کی طرف سے انتقامی دہشت گردی کا تھا۔ سچی بات ہے ‘ حکومت کی طرف سے تمام احتیاطی کارروائیاں اسی خطرے کی روشنی میں کی گئی تھیں۔ جس طرح کراچی اور خیبرپختونخوا کے حساس ترین علاقوں میں بھی محرم کے 10دن امن و امان سے گزرے‘ اس پر تمام وفاقی اور صوبائی ایجنسیوں‘ ضلعی انتظامیہ خصوصاً پولیس‘ میڈیا‘ اہل تشیع کی رضاکار تنظیمیں‘ سیاسی جماعتوں کے رضاکار‘ شہری تنظیموں کے رضاکار‘ سب کے سب بلا امتیاز خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ میری رائے میں راولپنڈی کے سانحے کو کسی سازش یا منصوبے کا حصہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ ایک اتفاقیہ اشتعال انگیزی کے نتیجے میں ہوا۔ ورنہ انتظامیہ اور ایجنسیوں نے اپنے فرائض نبھانے میں ذرا بھی کسر نہیں چھوڑی۔ زیادہ اہمیت دہشت گردی کو حاصل تھی اور ہماری تمام احتیاطی تدابیر اسی خطرے کو سامنے رکھتے ہوئے اختیار کی گئی تھیں۔ اس میں ہم سوفیصد کامیاب رہے۔ آج مختلف ذرائع ابلاغ سے حقائق سامنے آ چکے ہیں۔ بہت سے شہروں میں 11ویں محرم کو بھی عزاداروں کے اجتماع اور جلوس ہوتے ہیں۔ دعا کرنا چاہیے کہ آج کا دن بھی بخیروعافیت گزر جائے اور فریقین کے رہنما باہمی اشتعال انگیزی کو روکنے کے لئے غیرمعمولی مستعدی اور مہارت سے کام لیں۔ انتظامیہ اور ایجنسیاں 11محرم کے روز گزشتہ دن کی طرح احتیاط سے کام لے کر‘آج کا دن بھی امن و امان سے گزار دیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved