تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     04-08-2025

ٹاٹ والے سکول سے سفارتی ایوانوں تک

جب میں نے ہوش سنبھالی تو گوجرہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہوا کرتا تھا۔ شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک‘ بیس پچیس منٹ میں پیدل جا سکتے تھے۔1951ء میں مجھے پرائمری سکول میں داخل کرایا گیا۔ پہلی کلاس کے ٹیچر فتح محمد سے ہماری عزیز داری تھی۔ وہ میرا خاص خیال رکھتے تھے۔ ویسے بھی سکول میونسپل کمیٹی کا تھا اور میرے والد میونسپل کمیٹی کے سیکرٹری تھے‘ لہٰذا سکول میں ایڈجسٹمنٹ کوئی مسئلہ نہ تھا۔ اس سکول میں تمام طالبعلم ٹاٹوں پر بیٹھتے تھے‘ البتہ استاد کرسی پر ہوتے تھے۔ سکول کی اولین یادوں میں سے ایک پہاڑے سیکھنے کی دلچسپ مشق ہے۔ کلاس روم میں آدھے لڑکے ایک طرف کھڑے کر دیے جاتے اور آدھے ان کے سامنے‘ دوسری جانب۔ ایک طرف سے آواز بلند ہوتی: ایک دونی دونی‘ دو دونی چار۔ دوسری طرف سے آواز آتی: تین دونی چھ‘ چار دونی آٹھ۔ اور پھر یہ کورس کوئی گھنٹہ بھر جاری رہتا۔ دوسری‘ تیسری کلاس میں داخل ہوئے تو اردو کو خوش خط انداز سے لکھنا اور کالی سلیٹ پر جمع تفریق اور تقسیم کے سوال سیکھنا شروع کیے۔ استاد تختی پر ایک جملہ خوش خط طریقے سے لکھ دیتے اور ہم اسی جملے کو بار بار لکھ کر پریکٹس کرتے تھے۔ پھر تختی کو دھو کر سفیدی مائل چکنی مٹی (گاچی) سے لیپا جاتا۔ ہوا میں لہرا کے اسے سکھاتے تاکہ اگلے روز کے لیے دوبارہ تیار ہو جائے۔ سلیٹ کا صاف کرنا نسبتاً آسان تھا۔ سکول میں شرارتی یا نکمے لڑکوں کو مرغا بنانے کی روایت تھی۔ یہ سزا مجھے تو کبھی نہ ملی لیکن چوتھی جماعت میں ہاتھ پر پڑنے والا وہ ڈنڈا ضرور یاد ہے جو ماسٹر مبارک نے چھٹیوں کا ہوم ورک مکمل نہ کرنے پر مارا تھا۔ سکول کی ماہانہ فیس آپ کو حیران کر دے گی‘ وہ تھی ایک آنہ ماہانہ۔ اسے ریڈ کراس فیس کہا جاتا تھا۔ ٹاٹ بچھانے اور اٹھانے کی ڈیوٹی باری باری لگتی تھی۔ اس پرائمری سکول کے ایک ٹیچر مجھے آج تک یاد ہیں‘ ان کا نام ماسٹر ابراہیم تھا۔ وہ فٹ بال کے بہت اچھے کھلاڑی تھے۔ 1947ء سے پہلے آل انڈیا لیول کے ٹورنامنٹ کھیل چکے تھے۔ ایک میچ میں بازو فریکچر ہو گیا جو ٹھیک طرح جڑا نہیں مگر وہ ٹوٹے ہوئے بازو کے باوجود کلب لیول پر فٹ بال کھیلتے رہے۔ اس حالت میں بھی ان کی گیم کئی دوسرے کھلاڑیوں سے بہتر تھی۔
پانچویں کلاس کے اختتام پر بورڈ کا امتحان ہوتا تھا‘ جس میں مجھے وظیفہ ملا۔ ہائی سکول ہمارے پرائمری سکول کے پاس ہی تھا۔ خاصی بڑی بلڈنگ تھی لیکن طالبعلم زیادہ ہونے کی وجہ سے ہمیں کلاس روم نہیں ملا۔ سکول میں وسیع وعریض پلے گرائونڈز تھے اور متعدد درخت۔ ہماری اکثر کلاسیں درختوں کے سائے میں ہوتی تھیں۔ بارش کی صورت میں ہم سکول کے برآمدوں میں منتقل ہو جاتے۔ اس زمانے میں انگریزی زبان کی تعلیم چھٹی کلاس سے شروع ہوتی تھی۔ ماسٹر شریف الحسن گیلانی لہک لہک کر بچوں کو اے بی سی سکھاتے تھے۔ اس سکول کی ماہانہ فیس پانچ روپے دس آنے تھی‘ جو میری سکالرشپ سے پوری ہو جاتی تھی۔
گوجرہ جیسے چھوٹے سے قصبے میں اس وقت سیاسی شعور بہت تھا۔ اس کی ایک وجہ مشرقی پنجاب سے آئے ہوئے مہاجر تھے۔ 1956ء میں برطانیہ‘ فرانس اور اسرائیل نے مل کر مصر پر ہوائی حملے شروع کر دیے تھے۔ عربی میں اسے عدوان ثلاثی کہا جاتا ہے‘ یعنی تین ممالک کی جارحیت۔ پاکستان اس وقت مغربی بلاک میں شامل تھا لہٰذا حکومت خاموش رہی مگر عوام کے جذبات بپھرے ہوئے تھے اور وہ پورے قد کے ساتھ مصر کے ساتھ کھڑے تھے۔ اس روز دن کے تقریباً دس بجے تھے۔ سکول میں تدریس کا عمل جاری تھا کہ ایک ہجوم آیا‘ جو حکومت مخالف نعرے لگا رہا تھا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ ایک مسلم ملک پر حملہ ہوا ہے اور حکومت کچھ نہیں کر رہی۔ ان کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ سکول بند کیا جائے اور طلبہ اور اساتذہ ہمارے مظاہرے میں شریک ہوں۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ سب کیوں ہو رہا ہے مگر نعرے بازی اچھی لگ رہی تھی؛ چنانچہ ہم بھی جلوس کے ساتھ ہو لیے۔ سکول کا ڈسپلن بہت سخت تھا۔ مجھ اس پر دو آنے جرمانہ ہوا‘ جو میرے تعلیمی کیریئر کا اکلوتا جرمانہ تھا۔
ہمارے ہیڈ ماسٹر میاں منظور محمد ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے۔ انگریز کے وقت میں ایم اے انگلش کیا تھا مگر اچھے اور پکے مسلمان تھے۔ باریش تھے اور بود وباش میں بہت سادہ۔ سکول میں ملیشیا کی یونیفارم تھی اور ہمارے ہیڈ ماسٹر صاحب بھی ملیشیا کی قمیص شلوار میں ملبوس ہوتے۔ ظہر کی نماز سکول میں باجماعت ہوتی تھی لیکن نماز نہ پڑھنے پر کوئی جرمانہ نہیں تھا۔ ہم انہیں بابا جی ہیڈ ماسٹر کہتے تھے۔ درویش طبیعت تھے مگر اپنے کام کے ساتھ بہت مخلص۔ تمام اساتذہ اور طالبعلم ان کا دل سے احترام کرتے تھے۔ اس سکول کی کامیابی کی بڑی وجہ بابا جی ہیڈ ماسٹر ہی تھے۔ ایک دفعہ دسمبر ٹیسٹ ہو رہے تھے‘ اساتذہ کے تیار کردہ امتحانی پرچے ہیڈ ماسٹر صاحب کے گھر پر تھے۔ بابا جی کا ایک بیٹا ہمارے سکول میں زیر تعلیم تھا۔ ایک روز انہیں شک ہوا کہ ان کے بیٹے نے سوالیہ پرچوں (Question Papers)کو آگے پیچھے کیا ہے۔ جواب طلبی ہوئی تو پتا چلا کہ بیٹے نے اپنی کلاس کا ایک سوالیہ پرچہ نکالا ہے۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے اگلے روز سکول اسمبلی میں بڑے افسوس کے ساتھ اس واقعے کا ذکر کیا اور اعلان کیا کہ میں اپنے بیٹے کو سکول سے نکال رہا ہوں۔ بابا جی بچوں کو صرف تعلیم دینے کے قائل نہیں تھے‘ وہ اچھی تربیت پر بھی اتنا ہی زور دیتے تھے۔ 1955ء کی بات ہے‘ میں ابھی پرائمری سکول میں تھا کہ ہائی سکول کے تین لڑکوں نے ایک نواحی گائوں میں ڈاکا مارا۔ یہ تینوں ساتویں جماعت کے طالبعلم تھے۔ پولیس نے اگلے ہی روز گرفتار کر لیا۔ بابا جی نے اعلان کیا کہ خواہ یہ رہا بھی ہو جائیں‘ یہ دوبارہ میرے سکول میں نہیں آئیں گے اور وہ اپنی بات پر ڈٹے رہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ''ننھے ڈاکوئوں‘‘ کا سرغنہ بعد میں فیصل آباد سے ایم این اے منتخب ہوا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب کے دل میں ایسے لوگوں کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی کیونکہ وہ حضرت عبدالقادر رائے پوری کے خلیفۂ مجاز تھے‘ البتہ اپنی اس روحانی حیثیت کا وہ اعلان نہیں کرتے تھے۔ 1959ء میں گوجرہ میں کالج بنا تو ہمارے سکول کی عمارت اور کھیلوں کے گرائونڈز کالج کو دیدیے گئے۔ سکول ایک متروکہ پراپرٹی میں منتقل ہو گیا۔ میں اس وقت نویں جماعت میں تھا۔ یہاں بھی کلاس روم کی قلت تھی۔ ہم نے ایک سال مزید ٹاٹوں پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کی۔ جس دن ہمارے انگلش کے ٹیچر چھٹی پر ہوتے اس دن بابا جی ہمیں پڑھانے آ جاتے۔ انگریزی پر ان کی گرفت شاندار تھی۔ انگلش پڑھانے کے بعد وہ اخلاقیات پر مختصر سی تقریر ضرور کرتے۔ ہیڈ ماسٹر صاحب کی قناعت ان کی شخصیت کا جھومر تھی۔ میرے والد صاحب نے ایک مرتبہ انہیں کہا کہ میاں صاحب! میونسپل کمیٹی اس بات پر غور کر رہی ہے کہ آپ کی تنخواہ بڑھا دی جائے۔ ان کا جواب حیران کن تھا۔ کہنے لگے: میرا موجودہ تنخواہ میں اچھا گزارہ ہو رہا ہے‘ تنخواہ بڑھانے کی کیا ضرورت ہے؟ بابا جی کی دینداری اور اعلیٰ شخصیت کی بدولت ان کے بچے بھی پابند شریعت اور محنتی نکلے۔ ایک پوتا لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے تک پہنچا اور چند برس قبل لاہور میں کور کمانڈر کے عہدے پر فائز تھا۔
ہمارے سکول کی اصل پہچان اس کے ہاکی کے شاندار کھلاڑی تھے۔ ایک وقت تھا کہ اولمپک کی ملکی ٹیم میں متعدد کھلاڑی گوجرہ سکول کے پڑھے ہوئے تھے۔ محمد اسلم‘ محمد اقبال‘ طارق عمران‘ طاہر زمان‘ منظور الحسن‘ رشید الحسن۔ ان سب کی تربیت ہمارے سکول میں ہوئی جہاں فزیکل ٹریننگ انسٹرکٹر یعقوب صاحب ہر وقت لڑکوں کو ٹریننگ دینے میں مصروف نظر آتے تھے۔ تمام تر مسائل کے باوجود سکول کے میٹرک کے نتائج اچھے ہوتے تھے۔ اس کی بڑی وجہ ہیڈ ماسٹر صاحب خود تھے اور چند اچھے اساتذہ‘ جو بڑی محنت سے پڑھاتے تھے۔ نو سال ٹاٹوں پر بیٹھ کر پڑھنے کے بعد 1960ء میں سکول میں نئے کمروں کا اضافہ ہوا تو ہمیں ڈیسک پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔ اب ہماری خوشی دیدنی تھی۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved