آپ کا کیا خیال ہے میرا دل نہیں چاہتا کہ اس ملک میں قانون کی حکمرانی ہو‘ یہ جرائم سے پاک ہو‘ مجرموں کو قرار واقعی سزا ملے‘ عوام کے جان و مال محفوظ ہوں اور ہم لوگ چین سے دن کو باہر نکل سکیں اور رات کو سکون سے سو سکیں۔ لیکن جو کچھ ہو رہا ہے اس طرح نہیں ہونا چاہیے۔ ہر چیز کا ایک طریقہ ہوتا ہے‘ ریاستیں اور معاشرے اسی طریقے سے چلتے ہیں۔ مستقل بہتری قواعد و ضوابط پر عمل کرنے سے آتی ہے اور یہی تسلسل معاشروں کو استحکام بخشتا ہے۔ معاشرے قانون کی حکمرانی اور عدل و انصاف سے پروان چڑھتے ہیں لیکن ہمارے ہاں آج اکیسویں صدی میں وہ کچھ ہو رہا ہے جو دو صدیاں پہلے 'وائلڈ ویسٹ‘ میں ہوتا تھا۔ آپ پرانی یا نئی ویسٹرن فلمیں دیکھیں تو آج سے ڈیڑھ دو سو سال قبل ''ٹیکساس رینجرز‘‘ جو کچھ کر رہی تھیں‘ ہماری سی سی ڈی وہی کچھ آج دو سو سال بعد کر رہی ہے۔ زمانہ کہاں کا کہاں پہنچ گیا ہے اور ہم دو سو سال پیچھے جانے کی دوڑ میں مصروف ہیں۔
دو اڑھائی سو سال پہلے وسطی اور مغربی امریکی ریاستوں خصوصاً ٹیکساس‘ اوکلاہوما‘ نیو میکسیکو‘ ایریزونا‘ کولوراڈو‘ کنساس‘ ٹینیسی‘ آرکنساس اور اس کے ارد گرد کی ریاستوں میں کاؤ بوائے کلچر رائج تھا۔ لوٹ مار‘ قتل وغارت گری اور لاقانونیت اپنے عروج پر تھی۔ پولیس موجود تھی مگر حالات اس کے بس سے باہر تھے۔ ایسے میں ٹیکساس میں پولیس کے ہوتے ہوئے ٹیکساس رینجرز کا قیام عمل میں لایا گیا۔ یہ کام 1835ء میں‘ یعنی آج سے 190سال قبل سر انجام دیا گیا۔ یوں سمجھیں کہ یہ ٹیکساس میں جاری لاقانونیت‘ امن و امان کی ناگفتہ بہ صورتحال‘ قتل وغارت گری اور لوٹ مار قابو سے باہر ہو جانے کی وجہ سے ایک خصوصی فورس قائم کی گئی جس کا کام خصوصی قوانین کی چھتری تلے جرائم کی بیخ کنی تھا۔ تاہم ایک بات دھیان میں رہے کہ اس کیلئے اس فورس کو روایتی پولیس سے ماورا خصوصی اختیارات اور اسلحے سے مسلح کیا گیا تھا اور اس کے اختیارات کو قانونی تحفظ اور ریاست کی نہ صرف مکمل پشت پناہی حاصل تھی بلکہ ان سارے اختیارات اور ان پر عملدرآمد جیسے اقدامات کو ریاستی اسمبلی سے باقاعدہ منظوری حاصل تھی۔ ٹیکساس میں آج سے دو سو برس قبل اس خاص فورس کا قیام کس صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے عمل میں آیا اور یہ فورس کس طرح کام کرتی تھی‘ اگر اسے سمجھنا ہو تو اس کیلئے ہالی وڈ میں 2019ء میں ایک فلم بنی تھی جس کا نام The Highwaymen ہے‘ یہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ فلم 1934ء میں ٹیکساس رینجرز کے ہاتھوں انجام پذیر ہونیوالے ایک واقعے سے متعلق ہے جس میں ٹیکساس کے گورنر کی اجازت سے رینجرز کے ایک سابقہ آفیسر اور اپنے کام کے ماہر فرینک ہیمر اور اسکے پرانے ساتھی کو انتہائی خطرناک اور مطلوب مجرم کلائیڈ بیرو اور اس کی محبوبہ جونی پارکر کو زندہ یا مردہ گرفتار کرنے پر مامور کیا جاتا ہے۔ اسے وسطی اور جنوبی مغربی ریاستوں خصوصاً ٹیکساس میں ''گریٹ ڈپریشن‘‘ کا دور کہا جاتا ہے۔ امریکی اخبارات 1931ء سے 1934ء کے درمیانی دور کو Public Enemy Era لکھتے تھے۔ یہ سب تفصیلات میں اسلئے لکھ رہا ہوں تاکہ آپ کو اُس دور کی معروضی صورتحال کا اندازہ ہو سکے اور آپ کو ٹیکساس رینجرز کے قیام‘ اسے حاصل اختیارات اور خصوصی قوانین کا منطقی جواز سمجھ میں آ سکے۔ تاہم جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ جب ٹیکساس رینجرز کا قیام عمل میں آیا تب تک ریاست ٹیکساس امریکہ کا حصہ نہ تھی بلکہ یہ خودمختار ملک تھا جو چند سال قبل سپین سے آزادی حاصل کرکے میکسیکو میں شامل ہوا تھا اور پھر میکسیکو سے علیحدہ ہو کر ایک خود مختار ملک کی حیثیت سے قریب 15سال تک دنیا کے نقشے پر موجود رہا۔ ٹیکساس کے پہلے اور امریکہ کے تیسرے بڑے شہر ہیوسٹن کا نام ٹیکساس کے پہلے صدر اور امریکہ کا حصہ بننے کے بعد اس کے پہلے گورنر جنرل سام ہیوسٹن کے نام پر ہے۔
ہماری قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے قیام کا آخر کیا جواز ہے؟ یہ اسمبلیاں صرف اس لیے وجود میں نہیں آئیں کہ ان کے ارکان موج میلہ کریں‘ پروٹوکول سے لطف اندوز ہوں اور ان اسمبلیوں میں اپنا استحقاق مجروح ہونے پر واویلا کریں ۔ یہ اسمبلیاں دراصل قانون ساز پلیٹ فارم ہیں۔ آپ انہیں ریاست کا ایک ستون سمجھ کر بات کریں تو یہ دراصل اسمبلیاں نہیں بلکہ مقننہ‘ یعنی قانون ساز ادارے ہیں اور ان کا بنیادی اور اصل کام صرف اور صرف قانون سازی ہے۔ اپنے لیے نہیں عوام کیلئے‘ ملک کیلئے‘ صوبے کیلئے اور ریاست کیلئے۔ لیکن ہو کیا رہا ہے! یہ قانون ساز ادارے اگر قانون بناتے ہیں تو اپنی تنخواہ میں اضافے کیلئے‘ سپیکرز اور وزرا کی تنخواہ کو زمین سے اٹھا کر آسمان پر لے جانے کیلئے۔ اپنی سہولتوں اور مراعات میں اضافے کیلئے۔ اگر یہ اسمبلیاں کوئی کام نہیں کرتیں تو وہ عوام کی سہولت پر مشتمل قانون سازی ہے۔ اس ملک کا ضابطہ فوجداری آج سے 164سال قبل یعنی 1861ء میں بنا‘ اسے مکمل طور پر 1888ء میں مرتب کیا گیا اور 1898ء میں موجودہ شکل میں نافذ ہوا۔ یعنی انگریز دور میں بننے والا ہمارا قانون جس پر سارے عدالتی نظام انصاف کی بنیاد ہے‘ وہ آج سے 127سال پہلے بنا اور یہ متروک‘ ازکارِ رفتہ اور ناکام قانون آج بھی اس ملک کے عوام کے گلے کا طوق ہے۔اگر ہمارا نظام انصاف ان سڑے بُسے اور ناقابلِ استعمال قسم کے قوانین کی وجہ سے ناقابلِ عمل ہو چکا ہے تو ان قوانین کو آج کی ضروریات اور انصاف کے قابل بنانے کی ضرورت ہے جو ہماری اسمبلیاں یعنی مقننہ نہیں کر رہی۔ اوپر سے عدالتی نظام اس حد تک گل سڑ چکا ہے کہ لوگوں کو عدالتوں سے انصاف کے حصول کی توقع ہی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ریاست میں حکومت کا کام مزے کرنا نہیں بلکہ آئین‘ قانون‘ انسانی حقوق‘ انصاف اور اداروں پر مشتمل ڈھانچے کو چلانا ہے۔ اس کیلئے پہلی ضرورت تو یہ ہے کہ حکومتیں بلند بانگ دعوے کرنے اور ڈینگیں مارنے کے بجائے اپنی ناکامی کا اعتراف کریں‘ قوانین میں ضروری تبدیلیاں لائیں اور نظام انصاف کی اوور ہالنگ کرتے ہوئے ایک نئے معاشرتی اور سماجی دور کا آغاز کریں۔ قانون کی نئے سرے سے تشریح‘ عدالتی ذمہ داریوں کا تعین‘ انصاف کی جلد از جلد فراہمی‘ عدلیہ کی از سر نو تشکیل اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا اعتبار قائم کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونا ہی اس ملک کی سلامتی اور معاشرے میں بہتری لانے کا باعث بنے گا۔ ریاست‘ خاص طور پر صوبہ پنجاب کو یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ اس ملک کے عوام کا اپنی عدالتوں‘ قانون‘ انصاف اور اپنے تحفظ پر اعتبار ختم ہو چکا ہے تو دوسری طرف حکومت کا بھی ان چیزوں پر بھروسہ رخصت ہو چکا ہے۔ چلیں عوام کی بات تو سمجھ آتی ہے لیکن جب خود حکومت کو ہی اس ملک کے آئین‘ قانون اور نظام عدل پر اعتبار نہ رہے تو لوگ کدھر جائیں اور کیا کریں؟ آج لوگ اپنے جرگے‘ عدالتیں اور فتوے لگا رہے ہیں تو حیرانی کی کیا بات ہے؟ جب ریاستی نظام جواب دے جائے‘ ریاست طاقتوروں کے ہاتھوں یرغمال بن جائے اور قانون طاقت کی باندی بن جائے تو اسی طرح ہوتا ہے جیسا ہمارے ہاں ہو رہا ہے۔
اکیسویں صدی میں ملزموں کا ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیاں ریاست کا یہ اعتراف ہے کہ رائج الوقت قانون صرف بے بس نہیں بلکہ ناکام ہو چکا ہے۔ اس سے دو نقصان ہو رہے ہیں‘ ایک یہ کہ خود حکومتی رِٹ ختم ہو رہی ہے اور دوسرا عوام اب یہ نتیجہ اخذ کر رہے ہیں کہ انہیں بھی حکومت‘ قانون اور نظام انصاف کے سامنے سوالی بننے کے بجائے اپنے معاملات کو ماورائے عدالت طے کرنا چاہیے۔ جرگے‘ فتوے اور پنچایتیں اسی ریاستی رویے کا نتیجہ ہیں۔ پنجاب سرکار سی سی ڈی کو ٹیکساس رینجرز یا جس بھی طرز پر چلانا چاہتی ہے‘ اس کی مرضی لیکن اس کیلئے بھی اسے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ مگر یاد رہے کہ یہ بہرحال 1835ء نہیں 2025ء ہے اور خود ٹیکساس میں ٹیکساس رینجرز کا کردار تبدیل ہو چکا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved