افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد ایک نئی اور پیچیدہ صورتحال نے جنم لیا جس نے پاکستان کی سکیورٹی کو مزید چیلنجز سے دوچار کر دیا۔ افغانستان میں امریکی موجودگی کے دوران جو مسلح گروہ افغان طالبان کے ساتھ مل کر لڑ رہے تھے‘ اب ان کی وہاں مصروفیت ختم ہو چکی۔ چونکہ افغان طالبان کی بڑی تعداد اپنی حکومت اور ملک کی تعمیر وترقی میں مصروف ہے اس لیے ان عسکریت پسندوں کو اب وہ حمایت حاصل نہیں رہی جو انہیں ماضی میں حاصل تھی۔ نہ ہی افغان حکومت ہزاروں مسلح افراد کا خرچہ اٹھانے کی پوزیشن میں ہے۔ اس صورتحال کا فائدہ اٹھا کر یہ گروہ پاکستان اور افغانستان سے متصل پہاڑی علاقوں میں دوبارہ آ بسے ہیں۔ ان گروہوں میں کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ کچھ افغان باشندے بھی شامل ہیں جنہوں نے ایک خطرناک گٹھ جوڑ بنا رکھا ہے۔ یہ گٹھ جوڑ انہیں دونوں ممالک کے سرحدی علاقوں میں چھپنے کے لیے آسان ٹھکانے فراہم کرتا ہے۔ جب پاکستان افغانستان سے ان گروہوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتا ہے تو یہ سرحد پار کر کے پاکستان آ جاتے ہیں اور جب پاکستان کی سکیورٹی فورسز ان کے خلاف آپریشن کرتی ہیں تو یہ اپنے افغان حواریوں کی مدد سے افغانستان کے محفوظ ٹھکانوں میں پناہ لے لیتے ہیں۔ اس مسلسل آمد ورفت کی وجہ سے پاکستان کی سکیورٹی فورسز کو اب صرف ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں سے ہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ موجود افغان جنگجوئوں سے بھی نمٹنا پڑ رہا ہے جو اس خطے کے استحکام کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔
گزشتہ کچھ عرصے سے باجوڑ میں مسلح گروہوں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا تو مقامی لوگوں کو تشویش لاحق ہوئی اور شدت پسند عناصر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ مقامی لوگوں کی طرف سے مسلح گروہوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ یا ان کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم تبدیلی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ماضی میں کالعدم ٹی ٹی پی اور ان جیسے گروہوں نے اسلام کے نفاذ جیسے نعروں کا سہارا لے کر سادہ لوح مقامی لوگوں کو فریب دیا۔ یہ گروہ لوگوں کی سادگی کا فائدہ اٹھا کر چندہ جمع کرتے تھے۔ اس وقت صورتحال یہ تھی کہ کچھ خواتین تو ان کی باتوں سے متاثر ہو کر اپنے زیورات تک انہیں دے دیتی تھیں۔ مقامی لوگ سمجھتے تھے کہ یہ لوگ واقعی اسلام کی خدمت کر رہے ہیں‘ تاہم جب ان دہشت گردوں نے مقامی لوگوں کے پیاروں کو بے دردی سے قتل کیا اور ان کی لاشیں چوکوں‘ چوراہوں پر لٹکتی نظر آئیں تو حقیقت آشکار ہو گئی۔ باجوڑ کے عوام کو معلوم ہو گیا کہ یہ گروہ اسلام کا نام لے کر دہشت گردی اور تباہی پھیلا رہا ہے۔ آج باجوڑ کے لوگ دہشت گردوں کے خلاف متحد ہو کر اپنے علاقوں میں پائیدار امن چاہتے ہیں۔ مقامی آبادی کا یہ بدلا ہوا رویہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک فیصلہ کن موڑ ہے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ دہشت گردی کا بیانیہ چاہے کتنا بھی پُرکشش ہو‘ وقت کے ساتھ اس کا جھوٹ بے نقاب ہو کر رہتا ہے۔
باجوڑ میں شدت پسند عناصر کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے سکیورٹی فورسز نے آپریشن کا فیصلہ کیا اور آپریشن کی تمام تر تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں لیکن مقامی آبادی اور صوبائی حکومت نے درخواست کی کہ حتمی اقدام سے پہلے مذاکرات کو ایک موقع دیا جائے‘ جس کے لیے ایک 50 رکنی قومی جرگہ تشکیل دیا گیا جس میں علاقے کے بااثر افراد‘ سیاسی رہنما‘ علما کرام اور مختلف طبقات کے نمائندے شامل ہیں۔ اس جرگے نے کالعدم ٹی ٹی پی کے نمائندوں سے براہِ راست مذاکرات میں دوٹوک اور واضح مؤقف اختیار کیا کہ اب مقامی لوگ دہشت گردی کے خلاف متحد ہو چکے ہیں۔ عسکریت پسندوں کو تین واضح آپشنز دیے گئے ہیں؛ یا تو وہ ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہو جائیں یا پھر افغانستان واپس چلے جائیں۔ اگر وہ لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو انہیں مقامی آبادی سے نکل کر پہاڑی علاقوں کا رخ کرنا ہو گا۔ جرگے کا یہ سخت اور دوٹوک مؤقف اس بات کی علامت ہے کہ ریاست اور عوام‘ دونوں اب دہشت گردوں کے سامنے کسی قسم کی نرمی دکھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ حکمت عملی ایک طرف طاقت کے استعمال کا عندیہ دیتی ہے تو دوسری طرف پُرامن حل کی راہ بھی ہموار کرتی ہے۔ جرگے کے اس انتباہ کے بعد مذاکرات میں شامل کالعدم ٹی ٹی پی کے نمائندوں نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ اپنی قیادت سے مشورہ کر کے جواب دیں گے۔ اس مقصد کیلئے انہیں وقت دیا گیا ہے۔ ہماری اطلاعات کے مطابق شدت پسند عناصر نے اپنی قیادت سے مشورے کے بعد جرگے کے سامنے مؤقف اختیار کیا کہ وہ فی الوقت شہری علاقے خالی کر دیں گے مگر وہ باجوڑ کے علاقے کو مکمل طور پر خالی نہیں کریں گے اور یہ کہ وہ پُرامن طریقے سے رہنا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے ریاست مسلح گروہوں کی شرائط پر ان کے ساتھ مذاکرات نہیں کرے گی کیونکہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ کل کلاں کوئی بھی گروہ اُٹھ کھڑا ہو اور اسلحے کے زور پر اپنے مطالبات پیش کر سکتا ہے۔ ریاست صرف یہ چاہتی ہے کہ مقامی آبادی کو نقصان نہ پہنچے اور مقامی لوگوں کو نقل مکانی کی صعوبت نہ اٹھانی پڑے۔
افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد کالعدم ٹی ٹی پی اور اس کے ساتھ موجود گروہوں کو مقامی سطح پر کوئی حمایت حاصل نہیں۔ یہ گروہ آج بھی ''گمنام عقیدت مندوں‘‘ کی جانب سے ملنے والی مالی امداد کے سہارے زندہ ہے۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ اسلام کے نفاذ کا دعویٰ کرنے والے یہ دہشت گرد اپنی قیادت سے یہ بھی نہیں پوچھتے کہ یہ پیسہ کہاں سے آ رہا ہے۔ یہ صورتحال اس امر کی طرف واضح اشارہ ہے کہ بھارت جیسے دشمن ملک اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے ان دہشت گردوں کی مالی معاونت کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کو اکثر علاقائی طاقتیں پراکسی وار کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔
تین دن تک جاری رہنے والے باجوڑ امن جرگے کو پیر شام چھ بجے تک بات چیت کی مہلت دی گئی ہے۔ تادم تحریر قومی جرگہ اگرچہ کسی حتمی معاہدے پر نہیں پہنچا تاہم فریقین کی رضامندی سے مکمل فائر بندی پر اتفاق ہو چکا ہے۔ شدت پسند عناصر اگر جرگے کی پیشکش کو قبول کرتے ہیں تو اس میں انہی کا فائدہ ہے‘ ورنہ صورتحال یہ ہے کہ آج کوئی بھی مکتبہ فکر ٹی ٹی پی کا حامی نہیں ہے۔ شدت پسند عناصر ہر محاذ پر مکمل طور پر تنہا ہیں اور ریاست ہر لحاظ سے طاقتور ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کے پاس دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے کی مکمل صلاحیت موجود ہے‘ تاہم مذاکرات کے ذریعے مقامی آبادی کو نقصان پہنچائے بغیر اس مسئلے کا حل تلاش کرنا ایک دانشمندانہ فیصلہ ہے۔ اس سے نہ صرف قیمتی جانوں کا ضیاع روکا جا سکے گا بلکہ ریاست کے اس عزم کا بھی اظہار ہو گا کہ وہ ہر مسئلے کو پُرامن طریقے سے حل کرنے کی خواہاں ہے۔ یہ حکمت عملی پاکستان کو عالمی سطح پر ایک ذمہ دار اور امن پسند ریاست کے طور پر پیش کرتی ہے۔ باجوڑ میں پیش آنے والے واقعات اور ان کا حل عالمی برادری کے لیے ایک مثال بن سکتا ہے کہ کس طرح دہشت گردی کے عفریت کا مقابلہ مقامی آبادی کی حمایت اور ایک جامع ریاستی حکمت عملی کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved