آج کے کالم کا آغازانتظار حسین کی کمال کی ایک تحریر کے اقتباس سے کرتے ہیں‘ جو پڑھ کر آپ بے اختیار کہہ اٹھیں گے: وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی۔
''بال بکھرے ہوئے۔ اچکن کے بٹن کھلے ہوئے۔ تیز تیز چلتے ہوئے۔ کرکٹ‘ کلاسیکی موسیقی اور شاعری‘ یہ (ڈاکٹر) نذیر احمد کے شوق تھے۔ عمر کے چوہترویں برس میں ہیں۔ انہیں دو افسوس ہیں۔ ایک تو یہ کہ (وہ گھٹنے میں درد کی وجہ سے) کرکٹ نہیں کھیل سکتے اور دوسرا یہ کہ اچھے گلے والے کم رہ گئے ہیں۔ سائنس میں ان کا مضمون حیاتیات (Biology) ہے۔ اس مضمون میں اُنہوں نے اردو میں دو جلدوں میں کتاب لکھی۔ حیوانات جبلیہ۔ خیر پہلی جلد تو چھپ گئی مگر دوسرا حصہ‘ جو اصلی حصہ تھا‘ اُسے اردو مرکز کی دیمک چاٹ گئی۔ وہ کہتے ہیں کہ میں تو اصل میں نظیری وعرفی‘ حافظ اور غالب کا پڑھنے والا ہوں مگر جو کام کیا وہ پنجابی شاعری پر ہے۔ وجہ یہ بتائی کہ پنجابی شاعری پڑھتے ہوئے انہیں احساس ہوا کہ پنجابی کے شاعروں کے کلام نہ تو سلیقہ سے چھپے ہیں اور نہ ان کے متن درست ہیں۔ انہوں نے شاہ حسین کا کلام پڑھا تو دیکھا کہ ہر دوسرا تیسرا حصہ وزن سے خارج ہے۔ اس ابتر نقشہ نے ڈاکٹر صاحب کو اس راہ پر لگایا کہ وہ پنجابی شاعروں کے کلام کی ترتیب و تدوین پر کمر بستہ ہو گئے۔ اس کام کے لیے اُنہوں نے ہندوستان کا سفر کیا۔ امرتسر و چندی گڑھ اور پٹیالہ گئے‘ وہاں جو مخطوطے دیکھے وہ گورمکھی میں تھے۔ ان کی خاطر گورمکھی سے آشنائی پیدا کی۔ وہ کہتے ہیں کہ ''پنجابی کی کوئی لغت نہیں‘ کوئی قواعد نہیں‘ مستند نسخے نہیں۔ جب میں کسی شاعر پر کام کرتا ہوں تو محلہ محلہ گھومتا ہوں۔ کبھی وسن پورہ میں‘ کبھی چونا منڈی میں‘ کبھی تانگہ والوں کی صحبت میں‘ کبھی چرسیوں کی محفل میں‘ اُن سے سنتا ہوں اور متن درست کرتا ہوں‘‘۔ مگر ڈاکٹر صاحب شاعری سے زیادہ موسیقی کے فن کے قائل نظر آتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ موسیقی کسی کی نقل نہیں ہے‘ مثلاً جیسے مصوری ہوتی ہے۔ وہ مصوری اور شاعری دونوں سے بڑھ کر جذبات کو حرکت میں لاتی ہے۔ زیادہ گہرائی میں اُترتی ہے اور زیادہ رخصت پر پہنچاتی ہے‘‘۔ وہ روی شنکر اور ولایت خان کے دلدداہ ہیں۔ پرانے ساتھیوں کو یاد کرتے کرتے انہیں تاثیر صاحب یاد آ گئے۔ کہنے لگے کہ بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ اس برصغیر میں ڈاکٹر تاثیر گُلی ڈنڈے کے سب سے بڑے کھلاڑی تھے‘‘۔ یہ طویل اقتباس انتظار حسین کی کتاب ''ملاقاتیں‘‘ سے لیا گیا ہے۔
میں نے میٹرک کا امتحان گورنمنٹ ہائی سکول ڈیرہ غازی خان سے پاس کیا۔ ناگی برادران (رئیس اور سرجیس) میرے ہم جماعت تھے۔ ابا جی کا تبادلہ جھنگ ہوا تو میں گورنمنٹ کالج جھنگ میں داخل ہوا۔ یہ شہر دو حصوں میں بٹا ہوا تھا۔ ایک کا نام تھا جھنگ شہر اور دوسرا (غالباً) جھنگ صدر۔ ایک خستہ حال سڑک ان دونوں کو ملاتی تھی۔ میں گھر سے کالج تک کا دو تین میل کا سفر سائیکل پر طے کیا کرتا تھا۔ ایک دن سائیکل پر جاتے ہوئے میں نے دیکھا کہ لمبے بالوں والا ایک درویش نما شخص ریسنگ سائیکل چلا رہا ہے۔ نجانے یہ کون تھا؟ ہم دونوں ایک ہی راستے سے ہوتے ہوئے جب کالج کی حدود میں داخل ہوئے تو پتا چلا کہ عجیب وغریب وضع قطع کا حامل یہ شخص کالج کا پرنسپل ہے۔ کچھ عرصہ بعد کالج میں ہونے والی ایک تقریب میں مجھے پرنسپل صاحب کی موجودگی میں تقریر کرنے کا موقع ملا۔ وہ بڑے خوش ہوئے اور مجھے اپنے دفتر میں بلا کر شاباش دی اور میرا حوصلہ بڑھایا۔ اگلے چند ماہ کے دوران کئی بار اُن سے غیر رسمی گفتگو کے مواقع ملے‘ جو میرے لیے بڑی خوشی اور نئی اور اچھی باتیں سیکھنے کا باعث بنے۔ عام طور پر ابا جی ایک ہسپتال میں دو سے تین سال گزارتے تھے مگر جھنگ میں ہمارا قیام بڑا مختصر رہا۔ بمشکل چھ ماہ گزرے ہوں گے کہ حکمِ سفر آگیا اور اب اگلا سٹیشن تھا گوجرانوالہ‘ جہاں ہم ایک سال رہے اور پھر لائل پور (آج کے فیصل آباد) جانا پڑا۔ ساٹھ کی دہائی میں گورنمنٹ کالج لاہور کی تقریبات میں شرکت کا دعوت نامہ جب بھی ملا میں اپنی بیگم کے ہمراہ بڑے ذوق وشوق سے وہاں جاتا رہا کیونکہ ڈاکٹر نذیر احمد صاحب اب گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل تھے۔ وہی لمبے بال‘ وہی سائیکل کی سواری‘ وہی کرکٹ کھیلنے کا شوق اور موسیقی سے وہی پرانا شغف۔ ڈاکٹر صاحب نے اہالیانِ پنجاب‘ ان کی ثقافت اور پنجابی شاعری پہ بہت بڑا احسان کیا (سید بابر علی صاحب کے تعاون اور سرپرستی سے)۔ انہوں نے بابا بلھے شاہ‘ شاہ حسین‘ سلطان باہو اور حضرت بابا فرید کے کلام کی تالیف‘ ترتیب اور اشاعت کے مراحل کو بطریقِ احسن طے کیا۔ یہ ایک ایسا کارنامہ ہے جو ہمیشہ تروتازہ اور زندہ وپائندہ رہے گا۔ میں اپنے پنجابی قارئین سے درخواست کروں گا کہ وہ یہ کتابیں حاصل کر کے میری طرح بار بار پڑھیں اور اپنا ایمان تازہ کرتے رہیں۔
ڈاکٹر نذیر احمد ان لوگوں اور شخصیات کی صف میں شامل ہیں جو ایک فرد نہیں بلکہ ایک ادارہ اور ایک انجمن تھے۔ یہ الفاظ ویسے بڑے روایتی سے ہیں مگر میں انہیں پوری دیانتداری اور سچائی سے لکھ رہا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب 19 دسمبر 1905ء کو محلہ بارود خانہ اندرونِ شہر لاہور میں فتح علی شاہ کے گھر پیدا ہوئے۔ اُنکے والد مشرقی پنجاب کے گائوں بازید پور میں ایک معمولی سے زمیندار تھے جن کے پاس بہت تھوڑا سا زرعی رقبہ تھا۔ اُنہوں نے ابتدائی تعلیم بارود خانہ کی مسجد میں حاصل کی۔ میٹرک کا امتحان اسلامیہ ہائی سکول شیرانوالہ گیٹ لاہور سے پاس کیا۔ ایم ایس سی کی ڈگری کلکتہ یونیورسٹی سے حاصل کی۔ مضمون تھا بائیولوجی۔ پی ایچ ڈی کی ڈگری لندن یونیورسٹی سے حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج لاہور سمیت کئی اداروں کے پرنسپل رہے۔ جنرل ایوب کے مارشل لاء کے زمانے میں جب پنجاب کے گورنر نواب آف کالا باغ تھے‘ ڈاکٹر نذیر احمد گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل تھے۔ آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ مذکورہ بالا دونوں افراد کی شخصیت ڈاکٹر صاحب جیسے درویش صفت انسان سے کتنی مختلف تھی۔ یہ ڈاکٹر صاحب کا کمال تھا کہ طلبہ کے مظاہروں اور ہنگاموں کے باوجود وہ ان دونوں کے ساتھ اچھی طرح گزارہ کر گئے‘ کسی بدمزگی کے بغیر۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بار ڈاکٹر صاحب کو طلبہ کے مظاہرے کی خبر ملی تو نامکمل شیو کی حالت میں نیکر پہنے وہ اپنی مشہورِ زمانہ سائیکل پر سوار مال روڈ پر جا پہنچے اور حکومت کے خلاف مظاہرہ کرنے والے اپنے کالج کے طلبہ کے احتجاجی جلوس کو واپس کالج میں لے آئے کہ کہیں کوئی طالب علم پولیس کی گولی اور لاٹھی سے زخمی نہ ہو جائے۔ کالج میں داخلے کے حوالے سے ان کی پالیسی بڑی غیر لچکدار تھی۔ نواب کالا باغ کی سفارش پر ایک غیر مستحق طالبعلم کو داخلہ دینے سے انکار کیا تو اصولوں پر سمجھوتا نہ کرنے کی پاداش میں ان کے تبادلے کے احکامات جاری ہو گئے مگر پھر کالج کے طلبہ کے شدید احتجاج پر سخت گیر گورنر کو اپنے احکامات واپس لینا پڑے۔ آج گورنمنٹ کالج لاہور کا جہاں نام آتا ہے تو پسندیدہ پرنسپل کی حیثیت سے ڈاکٹر نذیر احمد کا نام ہی سب سے پہلے لیا جاتا ہے۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اعلیٰ حکام کے درباروں میں کبھی نہ دیکھے گئے بلکہ جب بھی نظر آئے اپنے اساتذہ اور طلبہ کے درمیان نظر آئے۔
ایم آر شاہد کی کتاب لاہور میں مدفون مشاہیر میں ڈاکٹر نذیر احمد کی شخصیت کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔ گورنمنٹ کالج لائبریری میں ڈاکٹر صاحب نے لائبریری مسجد اور بخاری ہال (آڈیٹوریم) کی عمارت تعمیر کروائی اور کالج میں مجلس موسیقی کی بنیاد رکھی۔ ڈرامہ کلب کی (پروفیسر پیرزادہ کے اشتراکِ عمل سے) سرپرستی کی اور ہر سال دکھائے جانے والے ڈرامے کا معیار اتنا بلند کیا کہ آج بھی لوگ اسے یاد کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے چار اگست 1985ء کو وفات پائی۔ ابدی آرام گاہ بیدیاں روڈ‘ باغِ رحمت قبرستان میں ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved