تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     06-08-2025

انسان کس حال میں خوش رہے؟

اپنے پہ کبھی حیرانی ہوتی ہے کہ ہماری خواہشات تو بڑی چھوٹی قسم کی ہیں۔ بس یہی کہ کہیں جانا ہو تو آرزوئے دل یا ذریعۂ نشاط آسانی سے مل جائے‘ دو نمبری کا سامنا نہ کرنا پڑے‘ خواہ مخواہ کی دِقت نہ ہو۔ زیادہ بے چینی کبھی نہیں رہی کہ فلاں چیز ہاتھ آ جاتی تو زندگی مختلف ہوتی۔ وہ کرتے تو اتنے پیسے بن جاتے اور پیسے ہوتے تو پیرس اور روم کی سیر کرتے۔ ہاں دل کی طلب پوری نہ ہو تو آسمان پر تاروں کو دیکھ کر دل میں بے چینی ضرور پیدا ہوتی ہے لیکن ایسا غم دل کو کبھی نہ لگا کہ صبح شام پراپرٹی کی فائلوں کا سوچتے رہیں۔ یقین کیجیے تھوڑے پر خوش رہتے ہیں اسی لیے جیفری ایپسٹین (Jeffrey Epstein) جیسے شخص پر حیرانی ہوتی ہے کہ سب کچھ اس کے پاس تھا لیکن چین سے نہ بیٹھ سکا اور اس راستے پہ چل پڑا جو اس کی تباہی کا سبب بنا۔
صحیح معنوں میں اس کی دولت کتنی تھی اس کے کوئی ٹھوس شواہد کسی کے سامنے نہیں۔ کوئی تخمینہ چھ سو ملین ڈالر کا لگاتے ہیں کوئی ایک بلین ڈالر یا اس سے زیادہ کا۔ جتنا بھی تھا بہت تھا۔ نیویارک کے مہنگے ترین علاقے میں بڑا سا ٹاؤن ہاؤس‘ نیو میکسیکو یا کہیں اور ایک وسیع فارم جسے امریکہ میں رینچ کہتے ہیں‘ ورجن جزیروں میں ایک دو ذاتی جزیرے اور ان پر محل نما گھر۔ ذاتی استعمال کے لیے ایک نہیں بلکہ متعدد ہوائی جہاز۔ گیلِن میکسول جیسی تعلق اور اثر رکھنے والی خاتون پہلے اس کی گرل فرینڈ پھر اس کی دلال۔ ذہین اور خوش گفتار انسان تھا اور حلقۂ احباب بڑا وسیع جس میں بل کلنٹن‘ ڈونلڈ ٹرمپ اور پریس اینڈریو جیسے طاقتور اشخاص تھے۔ اتنا کچھ ہوتے ہوئے چین نصیب نہیں ہونا چاہیے تھا؟ لیکن نہیں ہوا کیونکہ جس تمنا سے وہ چھٹکارا نہیں پا سکتا تھا وہ کم عمر لڑکیوں کی دوستی تھی۔ ایک کا قصہ ہو پھر تو چلیں بات پردے کے پیچھے رکھی جا سکتی ہے لیکن ہوس جب ایسی ہو کہ کم سن لڑکیوں کی لائن لگی رہے اور ان کا استحصال کرنے میں آپ خود ملوث نہ ہوں بلکہ دوستوں کو بھی اس میں شامل کریں تو خطرہ تو رہے گا کہ معاملہ کہیں باہر نہ آ جائے اور لوگوں کو پتا نہ چل جائے۔ عشق معشوقی امریکہ یا مغربی دنیا میں حتیٰ کہ بیشتر دنیا میں کہاں سے جرم ہے‘ لیکن امریکہ کا قانون سخت ہے کہ کم سن لڑکیوں‘ لڑکوں سے ناجائز تعلقات باقاعدہ جرم کے دائرے میں آ تے ہیں۔
جیفری کے بھائی مارک ایپسٹین کا بی بی سی کو انٹرویو سن رہا تھا جس میں مارک کہتا ہے کہ جب جیفری ایپسٹین پر 2006ء میں پہلی قانونی گرفت ہوئی تو اس نے مارک سے کہا کہ میں بہت 'بیوقوف‘ رہا۔ بیوقوفی کیا یہ تو مجرمانہ کارروائیاں تھیں اور تب تک جیفری ایپسٹین کے حلقۂ احباب میں یہ بات عام ہو چکی تھی کہ جیفری ایپسٹین فلاں کمزوری رکھتا ہے۔ 2006ء میں پھر بھی قانون کا برتاؤ جیفری ایپسٹین کے ساتھ نرم رہا اور اسے جیل نہ جانا پڑا۔ سنبھل جاتا‘ احتیاط کرتا‘ اپنی خاص روش سے اجتناب کرتا۔ لیکن نصیب ہی کچھ ایسا ہو کہ آپ کی اپنی افتادِ طبع آپ کو تباہی کی طرف کھینچ رہی ہے تو اس کا کیا کیا جائے۔ ایپسٹین باز نہ آیا اور اس کی زندگی جوں کی توں جاری رہی۔ اس کے پرائیویٹ جیٹ ورجن جزیرے پر جاتے رہے‘ بڑے بڑے لوگ بشمول ڈونلڈ ٹرمپ جہازوں کے مسافر ہوتے اور ساتھ مخصوص قسم کی حرکتیں بھی جاری رہتیں۔ ان فلائٹوں اور ایپسٹین کے جہازوں کو لولیٹا ایکسپریس کا نام دیا جانے لگا۔ یاد رہے ''لولیٹا‘‘ مشہور روسی لکھاری ولادیمیر نابوکاف کے ناول کا نام تھا جس پر ایک بہت مشہور فلم بھی بنی جس میں جیمز میسن نے لیڈنگ ایکٹر کا رول ادا کیا۔
عرض کرنے کی مدعا یہ کہ جیفری ایپسٹین کہیں تو رک جاتا۔ لیکن بات پھر وہی ہے کہ طاقت یا دولت کے گھمنڈ میں انسان بھول جاتا ہے کہ اسے کہاں تک جانا چاہیے۔ جیفری ایپسٹین کے پاس دنیا کی ہر عیاشی کا سامان موجود تھا لیکن جرم کی دنیا میں قدم رکھنے سے خود کو روک نہ سکا۔ اور یہی پھر اس کی وجۂ بربادی بنی۔ کہاں اس کی عیاش زندگی اور کہاں وہ نیویارک پولیس کے ہتھے چڑھ جاتا ہے۔ فردِ جرم عائد ہوتی ہے اور سلاخوں کے پیچھے چلا جاتا ہے۔ اور پھر ایک رات خبر آتی ہے کہ اس حوالات کے کمرے میں اس نے اپنی جان لے لی ہے۔ پوسٹ مارٹم یا جسے وہاں اٹاپسی (autopsy) کہتے ہیں اس میں بقول ڈاکٹروں کے خودکشی کے شواہد ملتے نہیں۔ خیال پھر یہی اٹھتا ہے کہ اس کا قتل ہوا ہے۔ لیکن ہر طرف خاموشی طاری رہتی ہے۔ جس کمرے میں وہ بند تھا اس ڈیوڑھی میں گیارہ بارہ دیگر قیدی بھی بند تھے۔ ڈیوٹی پر دو گارڈ بھی تھے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان پر نیند کا غلبہ چھا گیا تھا۔ سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج ہوتی ہے لیکن اس میں ایک دو منٹ فوٹیج غائب ہوتی ہے۔
جیفری کے بھائی مارک ایپسٹین نے اپنے بھائی کے جرائم پر کبھی پردہ ڈالنے کی کوشش نہیں کی لیکن وہ کہتا ہے کہ اس کی موت خودکشی ہرگز نہیں لگتی‘ جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ کسی طریقے سے اس کا خون واقع ہوا تھا۔ مارک ایپسٹین ایک اور دلچسپ بات کہتا ہے کہ میرے بھائی نے مجھے کہا تھا کہ میرے پاس بہت سے لوگوں کے راز پنہاں ہیں۔ 2016ء کے صدارتی الیکشن‘ جس میں ڈونلڈ ٹرمپ پہلی بار صدر منتخب ہوئے تھے‘ اس سے پہلے جیفری ایپسٹین اپنے بھائی سے کہتا ہے کہ جو راز میرے سینے میں ہیں وہ میں افشا کروں تو صدارتی الیکشن ملتوی کرنے پڑیں۔ بنیادی سوال البتہ یہ ہے کہ سب کچھ ہوتے ہوئے انسان اپنی بربادی کو کیوں دعوت دیتا ہے؟
یہ تو چلیں جیفری ایپسٹین تھا‘ تاریخ میں کتنی مثالیں ملتی ہیں جہاں دیوقامت لیڈروں نے اپنے ہی فیصلوں سے اپنی تباہی کا سامان اکٹھا کیا۔ 1812ء میں نپولین اپنے عروج پر تھا‘ پورا یورپ ماسوائے برطانیہ اس کی فوجوں کے نیچے دبا ہوا تھا۔ لیکن پتا نہیں اسے کیا سوجھی اور یورپ کی تاریخ میں سب سے بڑی فوج‘ جو چھ لاکھ افراد پر مشتمل تھی‘ کو روس پر حملے کے لیے تیار کیا۔ شدید سردی اور فاصلے نے اس فوج کو تباہ کر دیا اور وہیں سے نپولین کا زوال شروع ہوا۔
دوسری جنگ عظیم میں جرمن ہائی کمان کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ بیک وقت دو محاذوں پر جنگ یعنی مغرب میں برطانیہ کے خلاف اور مشرق میں روس کے خلاف جرمنی کے لیے تباہ کن ثابت ہو گی۔ یہی سبق پہلی جنگِ عظیم کا تھا لیکن ہٹلر پر یہ خبط سوار تھا کہ جرمنی نے اپنے وجود کے لیے زمین حاصل کرنی ہے اور وہ زمین صرف مشرق یعنی روس میں مہیا ہو سکتی ہے‘ لہٰذا جون 1941ء میں روس پر جرمن حملہ ہوا۔ گو شروع میں جرمنی کو حیران کن کامیابیاں نصیب ہوئیں‘ چار سال کی مزید جنگ کے بعد روسی افواج کے ہاتھوں ہٹلر کو شکست ہوئی۔ اور جب روسی فوجوں نے برلن کا گھیرا کر لیا تھا تو ہٹلر نے پستول سے اپنی جان لے لی۔ کتنی اور مثالیں ہیں‘ شمار کریں تو کتاب بن جائے۔
نپولین اور ہٹلرکہاں اور یہ ایپسٹین کہاں لیکن بنیادی بات وہی ہے کہ انسان سمجھ نہیں پاتا کہ اسے کہاں تک جانا چاہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved