تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     06-08-2025

تعلیم: تقلید سے آزادیٔ فکر تک

تعلیم کا بنیادی مقصد تبدیلی ہے۔ انفرادی اور سماجی سطح پر تبدیلی۔ تعلیم کا ایک اور اہم مقصد آزادیوں کا حصول ہے۔ سوچ کی آزادی‘ اظہار کی آزادی اور انتخاب کی آزادی‘ لیکن بعض اوقات تعلیم جب محض تقلید کا سبق دیتی ہے تو یہ لوگوں کی سوچ کو سلانے کے کام آتی ہے۔ تعلیم کی اس قسم میں طالب علم کو صرف اندھی تقلید سکھائی جاتی ہے اور انفرادیت‘ جدت پسندی اور تخلیق کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ سترکی دہائی میں Ivan Illich کی ایک کتاب Deschooling Societyنے تعلیم سے وابستہ افراد کو چونکا دیا۔ یہ کتاب تعلیم کے روایتی تصورات کو چیلنج کرتی اور سکولنگ کے نظام پر دوبارہ غور کرنے پر مجبور کرتی ہے۔
Ivan Illich صرف موجودہ نظام پر تنقید نہیں کرتا بلکہ وہ یہ دکھاتا ہے کہ کس طرح یہ نظام افراد کو اس بات پر قائل کرتا ہے کہ سیکھنے کا عمل صرف اطاعت‘ اسناد اور ضابطوں سے جڑا ہوا ہے۔ وہ ایسی تعلیم کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے جس کے نتیجے میں ادارہ جاتی سطح پر ایک ہی قسم کی سوچ پروان چڑھائی جاتی ہے اور جس میں انفرادیت کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ اسی طرح Paulo Freire بھی اپنی کتاب Pedagogy of the Oppressed میں تعلیم کے اس دقیانوسی تصور پر شدید تنقید کرتا ہے جس میں طلبہ صرف امتحان پاس کرنے کیلئے رٹا لگاتے ہیں لیکن ان میں سوچنے اور سوال کرنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہوتی۔ فریرے تعلیم کے اس دقیانوسی تصور کو Banking Concept of Educationکہتا ہے جس میں استاد شاگرد کے خالی ذہن میں علم انڈیلتا ہے۔ اس ماڈل میں سب سے بڑا مفروضہ یہ ہے کہ شاگرد کا ذہن خالی برتن کی طرح ہوتا ہے۔ یہی تعلیم کا وہ رجعت پسندانہ تصور ہے جس میں طلبہ کو ایک سادہ تختی سے تشبیہ دی جاتی ہے اور استاد کو علم کا واحد ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ جدید تحقیق سے ان دونوں مفروضوں کی نفی ہوتی ہے۔ ایک تیسرا مفروضہ علم کا دقیا نوسی تصور ہے جس میں علم کو ایک جامد (Static) چیز سمجھا جاتا ہے جبکہ علم ایک متحرک (Vibrant) تصور ہے جس میں جمود نہیں۔
ہمارے زیادہ تر سکولوں میں طالب علموں کو کلاس میں سوال کرنے پر اساتذہ کے غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یوں ابتدائی جماعتوں ہی میں طلبہ اس بات کو اچھی طرح جان لیتے ہیں کہ عافیت اسی میں ہے کہ کلاس میں خاموش بیٹھا جائے اور استاد کی کسی بات سے اختلاف نہ کیا جائے۔ ہمارا نظامِ امتحان بھی طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو جانچنے کے بجائے ان کی یادداشت کو پرکھتا ہے۔ امتحانی سوالات کی اکثریت ''کیا‘‘ پر مبنی سولات ہوتی ہے۔ ''کیوں‘‘ اور''کیسے‘‘ قسم کے سوالات کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔ یوں ہمارا نظامِ امتحان طالب علموں کی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے بجائے صرف ان کی یادداشت کا پیمانہ بن جاتا ہے۔ یوں ہمارے زیادہ تر سکولوں میں طلبہ کو محض تقلید سکھائی جاتی ہے۔ اگرکوئی طالب علم گھڑے گھڑائے جواب سے ہٹ کر چیزوں کی تفہیم کرے تو امتحان میں اس کی کامیابی مشکوک ہو جاتی ہے۔ کسی خیال کو چیلنج کرنا خوبی کے بجائے ایک جرم تصور کیا جاتا ہے۔
جدید تحقیق نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ بچوں کا ذہن خالی سلیٹ کی طرح نہیں ہوتا بلکہ ابتدائی عمر ہی سے ان کے ذہن کے پردے پر تصورات اور عقائد کا ظہور ہوتا ہے۔ تعلیمی ادارے جن کا فرضِ منصبی طلبہ کے خیالات کو جلا بخشنا ہوتا ہے‘ ان کی تحقیقی صلاحیتوں کی آبیاری کرنا ہوتا ہے اور ان کے کردار کو اجالنا ہوتا ہے۔ وہی تحقیقی ادارے ان کو ایک خاص ڈگر کے تابع کر دیتے ہیں جس میں انفرادی سوچ‘ انفرادی تصور اور انفرادی افتادِ طبع کو نہ صرف نظر انداز کیا جاتا ہے بلکہ اس کی سزا بھی دی جاتی ہے۔
مجھے ایک فلم Dead Poets Society (Weir, 1989) یاد آرہی ہے جس میں انگریزی ادب کااستاد ایک سکول میں جدید طریقہ تدریس متعارف کراتا ہے‘ جس کامقصد طلبہ میں تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ وہ طلبہ کی شخصیت کی ہمہ گیر نشوونما (Holistic development) کیلئے کلاس میں یا باہر ہم نصابی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے لیکن یہی تخلیقی اندازِ تدریس آخر میں اس کے سکول کے اخراج کا باعث بن جاتا ہے۔
تعلیم کا ایک اہم مقصد تخلیقی اذہان کی تشکیل ہے تاکہ طلبہ فکر کے نئے زاویوں سے آشنا ہوں اور گھسے پٹے راستوں کی آرام طلبی کو چھوڑ کر سوچ کی نئی پگڈنڈیاں تلاش کریں۔ یہی جدتِ فکر معاشرے میں بوسیدہ مسائل کے تازہ حل تلاش کرنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک کا المیہ یہ ہے کہ ان کے تعلیمی نظام میں تنقیدی سوچ (Critical thinking) کی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ طلبہ کو لکیرکا فقیر بنا دیا جاتا ہے‘ اگرکوئی طالب علم استاد کے خیالات سے اختلاف کی جسارت کرے تو اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ استاد کا کردار طلبہ کے ذہنوں پر اَن مٹ نقوش چھوڑتا ہے۔ استاد کا قول اور فعل طلبہ کیلئے ایک مخفی نصاب ہوتا ہے جو روایتی نصاب سے زیادہ مؤثر ہوتا ہے‘ مثلاً اگر ایک استاد کلاس میں خود دیر سے آتا ہے تو اس کے شاگرد کیلئے وقت کی پابندی نہ کرنا ایک عام اور قابلِ قبول بات ہو گی۔ اساتذہ کے قول اور فعل کا یہی تضاد طلبہ کے ذہنوں میں انتشار کا باعث بنتا ہے۔ قول اور فعل کا یہ تضاد تعلیمی اداروں کی سطح پر بھی پایا جاتا ہے۔ یہ ادارے کچھ اقدار کے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں‘ ان اقدار میں ایک ڈسپلن بھی ہے جس کی خاطر انفرادی سوچ اور تخلیقی فکر کو بے رحمی سے کچل دیا جاتا ہے۔
مجھے ایک اورخوبصورت فلم Scent of a Woman (Arpino, 2011) یاد آ رہی ہے۔ اس فلم کی کہانی Baird School سے متعلق ہے جہاں ڈسپلن کے نام پر انفرادی Integrity کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ فلم میں خاصے کی چیز وہ تقریر ہے جو معروف اداکار Al Pacino ڈسپلن کمیٹی کے سامنے کرتا ہے اور سکول کی منافقانہ پالیسی کا پردہ چاک کرتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں رواداری‘ اختلافِ رائے اور برداشت کی ابتدائی تربیت گھر اور سکول سے ہوتی ہے۔ اسی طرح جدتِ فکر اور ندرتِ خیال کی کونپلیں بھی ابتدائی سالوں میں ہی پھوٹتی ہیں؛ اگر ہمارے تعلیمی اداروں میں طلبہ کو سوال کرنے کی اجازت نہیں ہو گی اور نہ ہی اختلافِ رائے کی تو انفرادی سوچ اور تخلیق کے سوتے خشک ہوتے جائیں گے۔ معاشرے میں یک رخی سوچ اور عدم برداشت کے مظاہرے عام ہوں گے۔ تبدیلی کے اس عمل میں اساتذہ بنیادی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ انہیں تربیتِ اساتذہ کے خصوصی کورس کرائے جائیں۔ ان کورسز میں Critical thinkingاور Reflective practiceکے ماڈیولز ہوں تاکہ اساتذہ کو انفرادی سوچ اور تخلیق کی اہمیت کے ساتھ ساتھ وہ مہارتیں بھی سکھائی جائیں جن کی مدد سے وہ طلبہ میں اعتماد پیدا کر سکیں‘ جو آزادیٔ افکار اور آزادیٔ اظہار کیلئے ضروری ہے۔ اگر ہمیں اپنے طلبا کو اکیسویں صدی کے چیلنجز سے نپٹے کیلئے تیار کرنا ہے تو اپنے تعلیمی نظام کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہو گا اور اپنے مختلف درجوں کے نصاب‘ تدریسی حکمتِ عملی اور امتحانی نظام میں بنیادی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved