تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     06-08-2025

دفاعِ شعائر اللہ سیمینار

پاکستان ایک نظریاتی اسلامی ریاست ہے جس کی بنیاد کلمۂ طیبہ ہے۔ تحریک پاکستان کے قائدین نے برصغیر کے طول وعرض میں ایک ہی نعرہ لگایا تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا: لا الٰہ الا اللہ۔ قیام پاکستان کیلئے لاکھوں لوگوں نے ہجرتیں کیں‘ اپنے گھربار کو خیرباد کہا‘ مائوں بہنوں اور بیٹیوں کی عزتوں پر حملہ ہوا‘ کثیر تعداد میں نوجوانوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں دیں پھر جاکر پاکستان کا قیام ممکن ہوا۔ قیا م پاکستان کے بعد ملک کے اسلامی تشخص کو واضح کرنے کیلئے آئینی سطح پر بھرپور جدوجہد کی گئی اور بالآخر پاکستان کا آئین اسلام کے سانچے میں ڈھالا گیا۔ اس وقت پاکستان کا آئین کتاب وسنت کی عملداری کی ضمانت دیتا ہے۔ قراردادِ مقاصد میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی غیر مشروط حاکمیت کو تسلیم کیا گیا ہے اورعوام کی حکمرانی کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے احکامات کے تابع قرار دیا گیا۔ آئین پاکستان کی بعض شقیں ایسی ہیں جن کا تعلق نبی کریمﷺ کی حرمت اور ختم نبوت کے ساتھ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مقدسات اور شعائر اسلامیہ کی ناموس کے تحفظ کیلئے بھی پاکستان میں قانون سازی کی گئی ہے۔ چنانچہ پاکستان کے قوانین میں 295 سے لے کر 298 تک کئی وہ شقیں ہیں جو مقدسات کی ناموس کے تحفظ کی ضمانت دیتی ہیں۔ پاکستان کے آئین میں 295 سی کی شق ایک ایسا قانون ہے جس میں ناموسِ رسالت کے تقدس کو تحفظ دیا گیا ہے۔ اسی طرح ستمبر 1974ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ جو نبی کریمﷺ کی ختم نبوت کو تسلیم نہیں کرتا‘ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ سابقہ انبیاء کرام علیہم السلام اور مقدسات کی ناموس کے تحفظ کیلئے بھی پاکستان میں قانون سازی کی جا چکی ہے۔ تاہم ''ناموس صحابہ و اہلِ بیتؓ بل‘‘ جس کے مطابق صحابہ کرام و اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ناموس پر حملہ کرنے والے کی سزا 10سال ہونی چاہیے‘ کو ملک کے قانون کا حصہ بنانے کیلئے جدوجہد تاحال جاری وساری ہے۔
عالمی ضمیر انسانوں اور اداروں کی حرمت کو تسلیم کر چکا ہے۔ چنانچہ ہتکِ عزت اور توہین عدالت کے قوانین بنائے گئے کہ بعض لوگ جو ضابطے اور اخلاق کی پابندی کو قبول نہیں کرتے‘ ان کو ان قوانین کے ذریعے پابند بنایا جا سکے؛ چنانچہ مشرق ومغرب میں اگر کوئی شخص کسی بھی انسان کی کردار کشی کرتا ہے تو اس کو اپنے دفاع کی جنگ لڑنے کا مکمل حق حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح عدالتوں کی توہین کے حوالے سے بھی احتسابی عمل جاری وساری رہتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب عالمی ضمیر نے انسانوں اور اداروں کی ناموس کی اہمیت کو تسلیم کیا تو نبی کریمﷺ کی حرمت کو تسلیم کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ موجودہ دنیا میں تہذیبوں کے تصادم کو روکنے کیلئے نبی کریم حضرت محمدﷺ کی حرمت اور ناموس کو تسلیم کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے اور اس پر کسی بھی قسم کے سمجھوتے کی کوئی گنجائش نہیں۔ بین الاقوامی سطح پر بعض عاقبت نااندیش عناصر نبی کریمﷺ کی ناموس کے بارے میں جس نامناسب رویے کا اظہار کرتے ہیں وہ کسی بھی طور پر قابلِ قبول نہیں۔ اس طرح کے واقعات سے جہاں مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں وہیں ماورائے عدالت اقدامات کے امکانات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ بدنصیبی سے پاکستان میں وقفے وقفے سے ایسی باتیں اور مؤقف سننے کو ملتے رہتے ہیں جن کا مقصد حرمتِ رسالت اور ختم نبوت سے متعلقہ قوانین کو مجروح کرنا ہوتا ہے لیکن اہلِ اسلام کی مشترکہ کاوشوں کے نتیجے میں یہ سازشیں کبھی بھی پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکیں۔ دینی تحریکوں‘ اداروں اور جماعتوں نے ان سازشوں کے تانے بانے بُننے والوں کو ہمیشہ ناکام اور نامراد کیا ہے۔اسی مناسبت سے مرکز قرآن وسنہ لارنس روڈ‘ لاہور پر قرآن سنہ موومنٹ کے زیر اہتمام کل جماعتی دفاعِ شعائر اللہ سیمینارکا انعقاد کیا گیا جس میں تمام جماعتوں کے مقتدر رہنمائوں نے شرکت کی۔ اس موقع پر مقررین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ 295C ہماری ریڈ لائن ہے اور حرمت رسول‘ ناموس صحابہ اور ناموس شعائر اللہ پر کسی بھی قسم کے سمجھوتے کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ مقررین نے اس موقع پر نبی کریمﷺ سے وابستگی اور آپﷺ کی ناموس اور حرمت کیلئے ہر قسم کی قربانی دینے کا عزم صمیم کیا۔ مختلف مکاتب فکر کے جید علما نے سیمینار میں جن سفارشات پر اتفاق کیا وہ درج ذیل ہیں:
تحفظ ناموسِ رسالت‘ دفاعِ صحابہ واہل بیت اور تعظیم شعائر اسلام کی جدوجہد واجباتِ شرعیہ میں سے ہے اور ہمارے ایمان کا تقاضا ہے۔ شانِ رسالت میں توہین‘ تنقیص اور تعریض کرنا ملت اسلامیہ سے خارج ہونے کا سبب ہے۔ یہ مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے اور وطن عزیز کے امن کو خراب کرنے کے مترادف ہے۔ صحابہ کرام واہلِ بیت عظام اور شعائر اسلام کی توہین‘ تنقیص اور تعریض صریح گمراہی اور بین المسالک فساد پیدا کرنے کی ناپاک سازش ہے۔ کتاب وسنت کے مسلمات اور اجماعِ اُمت کے خلاف محاذ آرائی سراسرگمراہی ہے۔ ایمان اور اسلام کا تقاضا ہے کہ نبی کریمﷺ کے ہر فرمان اور حدیث کے سامنے سر تسلیم خم کیا جائے۔ توہین ناموسِ رسالت کو روکنے کے لیے عالمی سطح پر اسے جرم تسلیم کروانے کیلئے حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ بلاسفیمی کیسوں میں جن مجرموں کو عدالتوں کی جانب سے سزا سنائی جا چکی ہے‘ اس پر فوری عمل کیا جائے اور جو مقدمات زیر سماعت ہیں ان کا فوری فیصلہ کیا جائے۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ سوشل میڈیا وغیرہ پر توہین آمیز مواد اور اس کو پھیلانے والے عناصر کے خلاف فوری ایکشن لیا جائے اور مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ قانونِ توہین رسالت کو غیر مؤثر بنانے اور اس میں ترمیم کے لیے فعال عناصر کون ہیں اور ان کی فنڈنگ کہاں سے ہو رہی ہے‘ یہ معاملہ بھی اعلیٰ سطح پر چھان بین کا متقاضی ہے۔ حساس معاملات اور ان کی غیر معمولی اہمیت کے پیش نظر بین المسالک ''تحفظ شعائر اللہ فورم‘‘ قائم کر کے متحرک کیا جائے۔ حکومت سے اپیل کی جاتی ہے کہ اس مسئلے کی حساسیت کے پیش نظر اسی قدر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جائے تاکہ شعائر اللہ کی تعظیم و تقدیس کو یقینی بنایا جا سکے۔
اس موقع پر تین اہم قراردادیں بھی پیش کی گئیں: عدالتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ ناموس رسالت قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو آئین و قانون کے مطابق کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے۔ تمام پرائیویٹ یا سرکاری تعلیمی اداروں میں طلبہ پر تشدد ناقابل برداشت ہے۔ جرگے اور پنچایت کے حکم پر غیرت کے نام پر قتل کرنا ظلم وزیادتی ہے‘ ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔
سیمینار میں اکابر علما اور دینی جماعتوں کے رہنمائوں کے خطابات کو سامعین نے بڑی توجہ کے ساتھ سنا اورہر شخص نے پختہ ارادہ کیا کہ زندگی کے آخری سانس تک دفاع شعائر اللہ کیلئے کی جانے والی کوششوں کی تائید جاری رکھی جائے گی۔ یوں یہ سیمینار اپنے جلو میں بہت سی اہم یادوں کو لیے اختتام پذیر ہوا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved