تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     07-08-2025

تنے کے درپے ہونے والے

بات صرف اتنی تھی کہ باتھ روم کا نلکا کام نہیں کر رہا تھا۔
دوسر ے بھائی نے کہا بھی کہ دفتر جا کر پلمبر کو بھیجتا ہے مگر چھوٹے بھائی کا غصہ کم ہی نہیں ہو رہا تھا۔ جب بھی مکان میں کوئی چھوٹا موٹا مسئلہ پیدا ہوتا‘ وہ گھر کو کوسنے لگتا۔ ''یہ گھر ہی منحوس ہے۔ اس گھر کو بیچ ڈالنا چاہیے۔ اس گھر کو چھوڑ دینا چاہیے۔ یہ گھر اچھا نہیں ہے۔ لوگوں کے گھروں میں کوئی چیز کبھی خراب نہیں ہوئی‘ یہاں آئے دن سیاپا پڑا رہتا ہے۔ کب جان چھوٹے گی اس گھر سے؟‘‘۔ بھائی نے سمجھایا کہ دنیا میں کوئی گھر ایسا نہیں جس میں کوئی خرابی نہ ہو۔ شکست و ریخت‘ ٹوٹ پھوٹ‘ مرمت‘ تعمیرِ نو‘ یہ ایک مسلسل عمل ہے جو جاری رہتا ہے۔ بڑے بڑے عالی شان محلات میں نقائص پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ محل ہی کی مذمت شروع کر دی جائے۔ گھر ہی کو برا بھلا کہنے لگیں۔ گھر کی چیزیں خراب ہوں تو درست ہو سکتی ہیں‘ لیکن گھر چلا جائے تو پھر نہیں ملتا۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے گھر کا ایک فرد بیمار رہنے لگے‘ کبھی اسے بخار ہو جائے‘ کبھی کھانسی ہونے لگے‘ کبھی سر درد میں مبتلا ہو‘ تو کیا اس کے علاج اور اس کی کفالت سے دستبردار ہو جائیں گے‘ کیا اسے گھر سے نکال دیں گے؟ کیا اسے اس کے حال پر چھوڑ کر گھر سے نکل جائیں گے؟
پاکستان کو بنے ہوئے اٹھہتر سال ہو چکے ہیں۔ یہ کئی امتحانوں سے گزر کر بھی الحمدللہ زندہ و سلامت ہے۔ ہر ملک میں بحران جنم لیتے ہیں۔ کبھی معاشی‘ کبھی سیاسی! کتنے ہی ملک ہیں جن کی معیشت پاکستان سے کہیں زیادہ خراب ہے‘ کئی ملکوں میں سیاسی صورتحال بدتر اور ابتر ہے۔ مگر کہیں بھی ملک کے وجود پر‘ ملک کی سالمیت پر سوال نہیں اٹھایا جاتا۔ سری لنکا میں خانہ جنگی 1983ء سے لے کر 2009ء تک جاری رہی‘ یعنی چھبیس سال! مگر وہاں کے عوام نے ہمت ہاری نہ حکومتوں نے! برطانیہ میں وزرائے اعظم اتنی جلدی جلدی تبدیل ہوتے رہے ہیں کہ وہاں کا سسٹم مذاق لگنے لگتا ہے۔ اٹھارہ وزیراعظم ایسے گزرے ہیں جن کی حکومت ایک سال سے بھی کم رہی۔ لِز ٹروس 50دن وزیراعظم رہیں۔ رمزے میکڈانلڈ 288 دن‘ سٹینلے بالڈ وِن 246دن‘ بونر لا 210دن‘ جان رسل 241 دن‘ اور آرتھر ویلزلے صرف 23دن وزیراعظم رہا۔ فہرست اس سے زیادہ طویل ہے۔ کسی انگریز نے کبھی نہیں کہا کہ یہ کیسا ملک ہے جہاں وزیراعظم اتنی تیزی سے بدلتے ہیں جتنی تیزی سے لباس بھی نہیں بدلا جاتا۔ صرف پاکستان ایسا ملک ہے جہاں ادھر کوئی بحران ظاہر ہوا‘ ادھر ملک کی سالمیت پر شکوک و شبہات اٹھنے شروع ہو گئے۔ کبھی شور مچتا ہے کہ ملک کے حالات اتنے خراب ہیں کہ لوگ ہجرت کرکے دوسرے ملکوں کو جا رہے ہیں۔ حالانکہ بین الاقوامی ہجرت کی وجوہ میں بے شمار عوامل شامل ہیں۔ کھاتے پیتے‘ خوشحال پاکستانیوں کی اچھی خاصی تعداد صرف اس لیے ملک چھوڑ کر جاتی ہے کہ وہ یورپ یا امریکہ کے شہری بنیں۔ ایسے ایسے افراد بھی گئے ہیں جو آٹھ آٹھ لاکھ مہینہ تنخواہ لے رہے تھے۔ کئی کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ کئی ایسے افراد سے ملاقات ہوئی جو پاکستان چھوڑ کر ناخوش ہیں اور پچھتا رہے ہیں۔ اس کے باوجود منفی پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔
ملک کی سالمیت اور مستقبل پر سوال اٹھانے والے لوگ دو طرح کے ہیں۔ ایک وہ سادہ لوح ہیں جو سوشل میڈیا پر یوں ایمان لاتے ہیں جس طرح آسمانی صحیفوں پر ایمان لایا جاتا ہے۔ جو پیغام وَٹس ایپ پر ملا‘ اس پر نہ صرف یقین کر لیا بلکہ اسے بیس اور افراد کو بھیج دیا۔ فیس بک پر ملک کے خلاف جھوٹی من گھڑت خبریں دیکھ کر پریشان ہو گئے۔ پھر ایسی خبریں پھیلانا شروع کر دیتے ہیں۔ ان سادہ لوح لوگوں میں تارکین وطن کی بھی اچھی خاصی تعداد شامل ہے۔ میں نے‘ ملک سے باہر‘ ایک صاحب سے پوچھا کہ پاکستان کب آ رہے ہیں؟ ان کے چہرے پر پریشانی کا سایہ منڈلانے لگا۔ فرمانے لگے: پروگرام تو تھا مگر وہاں کے حالات بہت خراب ہیں۔ پوچھا: کیا خراب ہیں اور کیسے؟ کیا ہوائی اڈے بند ہیں؟ کیا شاہراہوں پر بمباری ہو رہی ہے؟ مزید عرض کیا کہ آپ جہاز سے اتریں گے‘ ایئر پورٹ سے گھر جائیں گے‘ دوسرے دن باہر نکل کر دیکھ لیجیے گا کہ زندگی معمول کے مطابق چل رہی ہو گی۔ بازار کھلے ہوں گے‘ گاڑیاں شاہراہوں پر رواں دواں ہوں گی۔ یہ درست ہے کہ پاکستان امریکہ یا سوئٹزر لینڈ یا ڈنمارک کی طرح نہیں‘ مگر ایسا بھی نہیں کہ آپ جا ہی نہ سکیں۔
ملک کی سالمیت اور مستقبل پر شک کی چادر تاننے والوں کی دوسری قسم ان بدنیت اور بدطینت لوگوں کی ہے جو تحریک پاکستان کی مخالفت کرنے والوں کی نظریاتی ذریت ہیں۔ 78 سال بعد بھی بحث کرنے کیلئے اس حاطب اللیل گروہ کے پاس ایک ہی موضوع ہے کہ پاکستان کیوں بنا؟ نہیں بننا چاہیے تھا! یہ رجعتِ قہقری کی بد ترین نشانیاں ہیں۔ غیظ و غضب‘ غصہ‘ تلملاہٹ‘ جھنجھلاہٹ انہیں اپنے نظریاتی آقاؤں سے وراثت میں ملا ہے۔ آج تک یہ قائداعظم کی زندگی کو‘ زندگی کے ایک ایک برس کو‘ برس کے ایک ایک مہینے کو‘ مہینے کے ایک ایک دن کو‘ دن کے ایک ایک لمحے کو خورد بین سے دیکھ رہے ہیں کہ کچھ مل جائے تو ہا ہا کار مچا دیں۔ افسوس ملتا کچھ نہیں! دشمن بھی قائداعظم کی دیانت‘ سچائی‘ اصول پسندی اور بے غرضی کے گواہ ہیں! جھوٹ گھڑنے کا یہ طائفہ ماہر ہے۔ شورش کاشمیری نے نہ جانے کس کیلئے کہا تھا کہ مادرفطرت نے اس سے بڑا کذاب نہیں پیدا کیا۔ مگر جھوٹ گھڑنے میں پاکستان کے وجود کے ان دشمنوں کا بھی ثانی کوئی نہیں۔ ان کے کچھ رہنما مغربی ملکوں کی یونیورسٹیوں میں بیٹھے ہیں جو مسلسل پاکستان کے وجود کے خلاف نام نہاد تحقیق کر رہے ہیں۔ اگر یہ لوگ بھارت میں رہ کر بتاتے کہ پاکستان غلط بنا تھا اور بھارت میں رہ جانے والے مسلمان‘ پاکستانیوں سے بہتر زندگی گزار رہے ہیں تو ہم ان کی تحقیق اور مؤقف کے سامنے سرِ تسلیم خم کر لیتے۔ لیکن یہ پاکستان میں ہیں نہ بھارت میں! شہریتیں مغربی ملکوں کی ہیں۔ پاکستان کے زمینی حقائق کا علم ہے نہ بھارت کے زمینی حقائق کا ادراک! مگر دل پسند موضوع ان کا پاکستان کی تحقیر اور قائد اعظم کی تنقیص ہے۔ یہ اور بات کہ مردم خور پرندوں کی دعاؤں سے انسان مرتے نہیں۔ مشرقی پاکستان الگ ہوا تو تب کچھ باچھیں کھلیں اور مسکراہٹیں کان کی ایک لو سے دوسری لو تک پھیل گئیں۔ اگر خدا نخواستہ مشرقی پاکستان الگ ہو کر بھارت میں ضم ہو جاتا تب تو اس خوشی کا جواز ہوتا مگر بنگلہ دیش کے الگ وجود نے ثابت کر دیا کہ ہندو اکثریت سے الگ ہونے کا فیصلہ درست تھا۔ آج‘ لِلہ الحمد ! ایک نہیں دو پاکستان بھارت کو گھیرے ہوئے ہیں۔
ملکوں پر بحران آتے ہیں۔ اقتصادی اونچ نیچ ملکوں کی زندگی کا حصہ ہے۔ سیاسی اتھل پتھل جمہوریت کا خاصہ ہے۔ برآمدات اور درآمدات اوپر نیچے ہوتی رہتی ہیں۔ مہنگائی پوری دنیا کو لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ ہمارے ملک کو بھی کئی مسائل درپیش ہیں مگر بہت سے پہلو‘ پہلے سے زیادہ روشن بھی ہیں۔ عام انسان کی زندگی میں آسانیاں بھی ہیں۔ یوں بھی پت جھڑ آتی ہے تو اس کے بعد کونپلیں پھوٹنے کی رُت نے بھی اترنا ہوتا ہے۔ پتوں کو زرد دیکھ کر تنے کے درپے ہو جانے والا بالغ ہو تو ہو‘ عاقل نہیں ہو سکتا! ناصر کاظمی یاد آگیا:
یاس کی چھاؤں میں سونے والے!
جاگ اور شورِ درا غور سے سُن

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved