تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     07-08-2025

غزہ: قحط اور قحط الرجال

''قحط میں موت ارزاں ہوتی ہے اور قحط الرجال میں زندگی‘‘۔ یہ جملہ جناب مختار مسعود کا ہے۔ مدتوں پہلے 'آوازِ دوست‘ میں پڑھا تھا اور ذہن پر نقش ہو گیا۔ ان کو کیا اندازہ تھا کہ یہ جملہ کبھی غزہ کی منظر نگاری کرے گا۔
آج غزہ میں موت کے کئی عنوان ہیں۔ بم‘ ڈرون‘ حماقت‘ ظلم‘ دہشت گردی‘ ذہنی افلاس‘ سطحی جذباتیت۔ ان دنوں یہ بھوک کے لبادے میں رقصاں ہے۔ بم برسانے والا ہی کھانے کا ایک ٹرک بھیجتا ہے۔ ایک روٹی کے پیچھے سینکڑوں لاچار فلسطینی بچوں‘ خواتین‘ جوانوں‘ اور بوڑھوں کو بھاگتے‘ گرتے اور مرتے دیکھتا ہے اور پھر ان کی بے بسی اور بے توقیری سے حظ اٹھاتا ہے۔ غزہ میں قحط‘ اس قحط الرجال کا نتیجہ ہے‘ فلسطینی عشروں سے جس کا شکار ہیں۔ افسوس کہ ان کی صفوں میں کوئی محمد علی جناح پیدا نہ ہوا جو انہیں سمجھاتا کہ خون بہائے بغیر بھی آزادی مل سکتی ہے۔
غزہ میں مسائل تو بلاشبہ تھے مگر یہ سب کچھ نہیں تھا جو آج ہو رہا ہے۔ اسرائیلی وحشت بال کھولے ناچ رہی ہے۔ عالمی فیصلہ ساز ادارے اور قوتیں تماش بین ہیں۔ جسے عالمِ اسلام کہتے ہیں‘ اس کے ہر رکن کو اپنی پڑی ہے۔ امتِ مسلمہ کا کل اثاثہ کیا ہے؟ چند مذمتی قراردادیں‘ شاعری‘ کچھ نعرے‘ غصہ‘ مرہم پٹی‘ خود مذمتی اور دشمن پر تبرا؟ اس زادِ راہ کے ساتھ فلسطینیوں کی ہم سفری کا انہیں کوئی فائدہ نہیں۔ فلسطینی بھی ایسی قیادت سے محروم رہے جو انہیں بتاتی کہ اغوا‘ مسلح اقدام اور منتشر الخیالی کے ساتھ آزادی کا کوئی سفر طے نہیں ہو سکتا۔ نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ کچھ وقت گزرتا ہے اور فلسطین کی تاریخ میں ایک نئے المیے کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ آج کے المیے کا عنوان ہے: بھوک۔
افغانستان کی جنگ میری شعوری زندگی میں لڑی گئی۔ میں نے اپنی آنکھوں سے اس کو اثرات کو دیکھا۔ حسبِ توفیق اس کا حصہ بھی رہا۔ پھر میں نے غیرت مند افغان بچوں اور خواتین کو پاکستان کے شہروں میں بھیک مانگتے دیکھا۔ سوویت یونین کو آنجہانی ہوئے کئی برس گزر گئے۔ ان بچوں کے بچے آج بھی کوڑا چنتے اور بھیک مانگتے ہیں۔ ابھی تک کیمپوں میں رہتے ہیں۔ افغانستان آزاد ہونے کے باوجود اپنے شہریوں کی ذمہ داری اٹھانے کو آمادہ نہیں۔ ایک ملک اور قوم جب جنگ کا میدان بنتے ہیں تو فتح وشکست سے قطع نظر ان کی نسلیں اس کی قیمت ادا کرتی ہیں۔ امن اس لیے کسی قوم کی پہلی ضرورت ہے۔ کسی بڑی جنگ کی تیاری کیلئے بھی وقفۂ امن چاہیے۔
فلسطینیوں کو بدقسمتی سے مسلسل جنگ کا سامنا ہے۔ دشمن سے خیر کی کیا توقع لیکن دوست بھی وقفۂ امن نہیں آنے دیتے۔ ان نادان دوستوں نے آج فلسطینیوں کو ایسی جگہ پہنچا دیا ہے کہ وہ ایک روٹی کیلئے اسرائیلی ٹرکوں کا انتظار کرتے ہیں۔ میں جب اس کی وڈیوز دیکھتا ہوں تو اس قحط الرجال کا ماتم کرتا ہوں جس نے فلسطینیوں کو اس قحط جیسی صورتِ حال مبتلا کر ڈالا۔ اس کیفیت میں جب میں مسلم راہنمائوں کی باتیں سنتا ہوں جن کا اصرار ہے کہ انہیں دو ریاستی حل بھی قبول نہیں تو ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتا ہوں۔ حالات سے ایسی بے خبری اور ایسی لاتعلقی! الامان۔
یہ حالات کیا ہیں؟ امریکہ اور اسرائیل کی اجازت کے بغیر خوراک کا ٹرک غزہ میں داخل نہیں ہو سکتا۔ بر طانیہ اور فرانس نے فلسطینی ریاست کی بات کی تو صدر ٹرمپ نے اس کو پائے حقارت سے ٹھکرا دیا۔ گویا دو ریاستی حل بھی اب امریکہ کیلئے قابلِ قبول نہیں۔ تکبر اپنے عروج پر ہے۔ اللہ کے قانون کے تحت یہ تکبر ان شاء اللہ خاک میں مل جا ئے گا کہ زوال امریکہ کے دروازے پر دستک دے رہا ہے‘ یہ تکبر مگر اس صورتِ حال کی عطا ہے جس میں فلسطین ان قوتوں کے رحم وکرم پر ہے۔ ایران کی قیادت نے بھی اب عالمِ اسلام کے دیگر ممالک کی طرح سمجھ لیا ہے کہ 'سب سے پہلے ایران‘۔ اب سب سے پہلے فلسطین کہنے والا کوئی نہیں رہا۔ آج فیصلہ یکطرفہ طور پر امریکہ اور اسرائیل کو کرنا ہے۔ دو سال پہلے یہ صورتِ حال نہیں تھی۔ صدر ٹرمپ کی نفسیات کو سمجھنے کی کوئی شعوری کوشش نہیں کی گئی۔ اگر ایسا ہو تا تو موجودہ حالات سے بچا جا سکتا تھا۔ صدر ٹرمپ کا عرصۂ صدارت اگر 'سٹیٹس کو‘ کے ساتھ گزر جاتا تو یہ بھی غنیمت تھا۔ افسوس کہ انہیں ایسا موقع فراہم کر دیا گیا کہ اس خطے کے بارے میں اپنے منصوبوں پر عمل در آمد ان کیلئے آسان ہو گیا۔
آج اگر ہم فلسطینیوں کو اس ظلم اور قحط سے نجات دلانا چاہتے ہیں تو ہمارے پاس کیا لائحہ عمل ہے؟ اس سوال کا کوئی ایسا جواب موجود نہیں ہے جو عملاً ممکن ہو۔ جذباتی اور غیر عقلی جواب بہت سے ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان کا ایٹم بم کس دن کام آئے گا؟ عالمِ اسلام مل کر اسرائیل پر ہلہ بول دے۔ امریکہ کا تیل بندکر دیں۔ کیا کوئی عاقل آدمی اس نوعیت کے کسی حل کو قابلِ عمل قرار دے سکتا ہے؟ عالمِ اسلام کے تین ممالک ایسے ہیں جہاں ایسے حل پیش کرنے والوں کی نگاہ میں مخلص قیادت موجود ہے۔ ایران‘ افغانستان اور ترکیہ۔ کیا ان میں سے کوئی ایک ملک ایسے کسی حل کا قائل ہے؟
ہمارے پاس کیا کوئی دوسراحل موجود ہے؟ اس سوال کے جواب کیلئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں؟ اگر امن چاہتے ہیں تو اس کیلئے وہ لائحہ عمل نہیں ہو سکتا جو جنگِ آزادی کیلئے ہو گا۔ میرے نزدیک تو امن کو ہر قیمت پر خریدنا چاہیے۔ اس کیلئے لازم ہے کہ فلسطینیوں کو کسی ایک قیادت پر متفق کیا جائے۔ یہ قیادت اس وقت صرف امن کی بات کرے۔ کم از کم تین سال کیلئے 'سٹیٹس کو‘ پر متفق ہو جائے۔ اس وقفے میں وہ یہ طے کرے کہ اب اس کے پاس کون سے راستے ہیں اور اسے کیا قدم اٹھانا ہے۔ اگر اگلے تین سال پُرامن طور پر گزر جائیں تو مجھے امید ہے کہ اس کے بعد فلسطین کے بارے میں ایک بہتر حل کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ سب سے زیادہ ذمہ داری حماس کی ہے جس نے فلسطینیوں کو اس تازہ الائو میں جھونکا ہے۔ وہ اسرائیلی یرغمالیوں کے ذریعے فلسطینیوں کیلئے امن خرید سکتی ہے۔ اس طرح شاید مزید نقصان سے بچا جا سکے۔
یہ پہلا موقع ہے کہ فلسطینیوں کی عزتِ نفس بھی اس جنگ کا ایندھن بن رہی ہے۔ انہوں نے جان اور مال لٹائے۔ یہ بڑا خسارہ تھا مگر غرورِ عشق کا بانکپن پسِ مرگ بھی باقی تھا۔ یہ بانکپن مگر اب خطرات کی زد میں ہے۔ اپنی ہی سرزمین پرروٹی کے ایک ٹکڑے کیلئے بھاگتے بچوں کو دیکھنا آسان نہیں۔ ان بچوں کے مستقل کی حفاظت‘ قیادت کی ذمہ داری ہے۔ آزادی کے موہوم تصور کیلئے کئی نسلوں کو برباد کیا جا چکا۔ آج ضرورت ہے کہ آزادی کے تصور کو ابہام سے نکالا جائے اور زیاں کے اس عمل کو روکا جائے جو اب فلسطینیوں کی عزتِ نفس کے درپے ہے۔
امن کے حصول کیلئے کیا پاکستان اہلِ فلسطین کی مدد کر سکتا ہے؟ پاکستان اس وقت عالمِ اسلام میں ایک باوقار جگہ پر کھڑا ہے۔ اسے سعودی عرب اور ایران‘ دونوں کا اعتماد حاصل ہے۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات بھی بہتر ہیں۔ چین تو ہے ہی پاکستان کا دوست۔ اگر پاکستان فلسطینیوں کی قیادت کو جمع کرے‘ اسے اعتماد میں لے اور عالمی قیادت کی مشاورت سے اہلِ فلسطین کے امن کیلئے کوئی قابلِ عمل تجویز پیش کرے تو بربادی کے اس سفر کو کم از کم عارضی طور پر روکا جا سکتا ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ دنیا اس معاملے میں پاکستان کا ساتھ دے گی۔ پاکستان اس سے پہلے افغانوں کی قیادت کو سوویت یونین کے خلاف ایک محاذ پر کامیابی سے جمع کر چکا ہے۔ اس وقت فلسطینیوں کا حقیقی دوست وہی ہے جو اُن کیلئے امن کا اہتمام کرے۔ فلسطینیوں کو آج سچے دوست کے ساتھ صاحبِ بصیرت قیادت کی بھی ضرورت ہے۔ قحط میں‘ قحط الرجال کا علاج زیادہ اہم ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved