نواز شریف نے اپنی لیگ والوں سے سچ ہی کہا تھا! ''تم لوگ مجھے کہتے تھے کہ میاں صاحب قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں لیکن میں نے جب قدم بڑھائے اور پھر پیچھے مڑ کر دیکھا‘ سارے بھاگ گئے تھے‘ میرے پیچھے کوئی بھی کھڑا نہیں تھا‘‘۔ پھر یہ بھی توسچ ہے نہ کہ سیلف سروس کیلئے جو سیاست کی جاتی ہے‘ اس میں جب تک 'سروِنگ‘ کا دور چلتا رہتا ہے تب تک رِند موجود رہتے ہیں۔ ادھر چھاپہ پڑا‘ اُدھر رِند سائیڈ پاکٹ سے سفید رنگ کی ٹوپی پہن کر چھاپہ مارنے والوں کے چشم دید گواہ اور اگلی صف کے جانثار بن گئے۔ جانثار سے مجھے میرے نانکے علاقے کے سابق جنرل کیانی صاحب کے ذہن کی تخلیق وکلا تحریک یاد آرہی ہے‘ جس کو چلانے کیلئے صبح سویرے شاہراہِ دستور پہ ملک کی چھوٹی بڑی جماعتوں کو آن ڈیوٹی کال کیا جاتا۔ یہ جماعتیں اپنے اپنے جھنڈے‘ ڈھول ڈھمکے بجانے والے نعرہ بازوں کی ٹولیاں ساتھ لے کر چیف تیرے جانثار‘ بے شمار بے شمار کے نعرے لگانے کی ڈیوٹی سرانجام دینے پر مامور ہو جاتیں۔
اسی تحریک کے دوران بی بی شہید نے بلاول ہاؤس کراچی میں پی پی کی سینٹرل ایگزیکٹو اور فیڈرل کونسل کا مشترکہ اجلاس بلایا‘ جس میں اس وقت کے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نائب صدر‘ جن کا تعلق صوبۂ بلوچستان سے تھا اور صدر بارصاحب بھی شریک تھے۔ دونوں حضرات نے مجھ پر اعتراض لگایا کہ بابر صاحب پارٹی کے مرکزی عہدیدار ہیں‘ لیکن یہ اور ان کے دوست وکیلوں کا گروپ اپنی من مرضی کرتا ہے۔ وکلا تحریک میں پارٹی پالیسی کی پیروی نہیں کر رہا۔ دونوں حضرات چونکہ سینئر وکیل تھے اس لیے انہوں نے جی بھر کے دلائل دیے۔ محترمہ نے مجھ سے پوچھا: آپ اس پہ کوئی کمنٹ کرنا چاہتے ہیں؟ میں نے کہا: جی ہاں! میرے دو کمنٹ ہیں۔ پہلا یہ کہ میں پیپلز پارٹی کا عہدیدار ہوں کسی وکلا تحریک نامی پارٹی کا رکن ہر گز نہیں۔ بی بی نے حیران ہو کر مجھ سے پوچھا: وکلا تحریک پارٹی؟ میں نے جواب دیا: جی بالکل میں نے یہی کہا ہے‘ وکلا تحریک پارٹی‘ کیونکہ پیپلز پارٹی والے جیے بھٹو اور بی بی تیرے جانثار کا نعرہ لگاتے ہیں۔ آپ نے پارٹی میں اپنے رضاکار محافظوں کا نام اور امتیازی نشان جانثارانِ بے نظیر رکھا ہوا ہے۔ مجھ سے کوئی یہ توقع بالکل بھی نہ کرے کہ میں وکلا تحریک والا نعرہ چیف تیرے جانثار بے شمار بے شمار لگاؤں گا۔ میں آپ کو بھی مشورہ دیتا ہوں بی بی‘ آپ اس نئی پارٹی کے چیف کے پیچھے کھڑے اپنے جانثاروں کو یہ والا نعرہ لگانے سے منع کروا دیں۔ اس پر پھر بحث چھڑ گئی۔ محترمہ نے بحث سمیٹے ہوئے مجھ سے دوبارہ پوچھا: کوئی لاسٹ کمنٹ۔ میں نے انگریزی کے صاحبِ طرز شاعر William Ernest Henley کی شہرہ آفاق شاعری کے وہ جملے پڑھے جو ولیم نے Invictus کے عنوان سے لکھے۔ وہ جملے اور یہ انگریزی نظم نسل پرستی اور رجیم کی ناانصافیوں کے خلاف سب سے لمبی قید کاٹنے والے مزاحمت کے عظیم عالمی آئیکون نیلسن مینڈیلا کے فیورٹ تھے۔
I am the master of my fate, I am the captain of my soul.
میں نے دونوں معترضین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: یاد رکھیں! میں نے پی پی پی میں شمولیت کا فارم بھرا تھا۔ کوئی جبری مشقت کا معاہدہ نہیں کیا کہ مجھ سے پارٹی کے علاوہ کوئی جبری مشقت لینے کی کوشش کرے۔ اگلے جملے لکھتے ہوئے تکلیف دہ ہچکچاہٹ ہو رہی ہے۔ میرے گھر میں جتنی کتابیں اور مختلف اداروں کی طرف سے اندرون و بیرونِ ملک سے لٹریچر آتا ہے‘ اس پہ میرا نام اور اسلام آباد لکھا ہوتا ہے۔ اسی طرح وکیل دوست یا دوسرے احباب ملنے کیلئے آئیں تو بھی انہیں میری رہائش گاہ اور لاء آفس پہنچنے کیلئے کبھی مشکل پیش نہیں آتی۔ میں اسلام آباد کے سیکٹر F-8/2میں رہتا ہوں جبکہ /4 F-8میں شہر کے سب سے بڑے مال کے بالکل سامنے میرا لاء آفس صبح سویرے سے رات گئے تک کھلا رہتا ہے۔ پھر بے رحمانہ جبروت کی گری ہوئی ذہنیت‘ میری صاحبزادی کے گھر پر دھاوا بولنے کیوں جا پہنچی؟ میں ہوں نا! گھر میں سے صرف میں سیاست کرتا ہوں۔ یوں لگتا ہے کہ کچھ لوگوں کو پاکستان کا آئین روندنے میں لذت ملتی ہے۔ 1973ء کا دستور‘ جس میں چادر اور چار دیواری کے ساتھ ساتھ اہلِ خانہ کی حفاظت بھی ریاست کے ذمہ ہے۔ ریاستِ پاکستان کے رہنما اصولوں کے باب نمبر دو میں Principles of Policies کے ضمن میں آرٹیکل 35 کے الفاظ یہ ہیں:
Protection of family, etc. The State shall protect the marriage, the family, the mother and the child.
کچھ مشورہ خانم قسم کی شخصیات مجھے وقتاً فوقتاً ایڈوائس کرتی ہیں کہ آپ بولا مت کریں۔ خدا کے بندو! بول ہر کوئی سکتا ہے لیکن توجہ کے ساتھ کم لوگ سنے جاتے ہیں۔ میرا تو پروفیشن ہی بولنا ہے‘ لیکن بول کر نہ کبھی داد مانگی ہے اور نہ ہی صلہ۔ حالیہ پانچ اگست پاکستان میں احتجاج کے بارے میں بولنے پر مکمل پابندی تھی۔ دھمکیاں‘ چھاپے‘ گرفتاریاں‘ MPOکی نظر بندیاں۔ جتنے خوف ممکنہ تھے‘ ان سب کے بت جبر شکن عوام نے پھر سے زمین بوس کر دکھائے۔ اس وقت میرے رائٹنگ ٹیبل پر عرب نیوز‘ بلوم برگ‘ خلیج ٹائمز‘ یو ایس نیوز‘ بیرنز‘ زی ٹُو‘ ساؤتھ ایشیا انڈیکس‘ یاہو نیوز‘ ہیرالڈ سن کے ساتھ ساتھ ساری دنیا کی کوریج سٹڈی موجود ہے‘ جس میں شہر شہر نگر نگر عمران خان کی رہائی کیلئے ہونے والے احتجاج کی بھرپور خبریں شائع ہوئی ہیں۔ عقل کا کوئی اندھا اپنی آنکھوں پہ انگلی رکھ کر نہ سورج کو بے نور کر سکتا ہے اور نہ چاند کو غائب۔ اللہ کا خاص کرم یہ ہے کہ ہمارے آئیڈیل حضرتِ اقبالؒ اور ولیم ارنسٹ ہینلے جیسے فلسفی شاعر ہیں۔ اس لیے فیضؔ کے بقول صفِ دشمناں کو خبر ہو میں یہ کالم لکھنے کے بعد انسدادِ دہشت گردی عدالت کے غیر قانونی فیصلوں کے خلاف اپیلیں لکھواؤں گا۔ پھر عدالتوں میں جاکر ان پر بولوں گا بھی۔ علامہ صاحب نے فرمایا تھا:
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
ارنسٹ کا شاہکار جبروت کے منہ پر انکار کا جو فلسفہ بیان کرتا ہے اس کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہے:
رات کاگھپ اندھیرا‘ جس نے مجھے سمیٹ لیا
یہ اندھیرا کسی گہری غار کی طرح ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیلا ہوا ہے
میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں
اس روح کے لیے‘ جس پر یہ اندھیرا غالب نہیں آ سکتا
حالات کے جبر نے مجھے گھیر لیا ہے مگر نہ میں رویا اور نہ ہی سسکی لی
میرا سر زخمی ضرور ہے‘ مگر جھکا نہیں ہے
برسوں کی ان تکالیف کے بعد بھی
جب مجھے ملو گے تو مجھے خوفزدہ نہیں پاؤ گے
اس سے فرق نہیں پڑتا کہ جنت کا دروازہ سیدھا ہے یا تنگ
لوحِ محفوظ پر کیا لکھا ہے
میں خود اپنی قسمت کا مالک ہوں‘ میں خود اپنی روح کا کپتان ہوں
1857ء کے شاہکار Invictus میں ولیم نے یہ آفاقی سچ بولا:
And yet the menace of the years. Finds and shall find me unafraid.
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved