تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     09-08-2025

چادر اور چار دیواری

پولیس اب ہماری بیٹیوں کے گھروں پر دستک دینے لگی ہے۔ سیاست کے اس زوال پر کالم نہیں‘ نوحہ لکھنا چاہیے۔
ڈاکٹر بابر اعوان میرے بھائی ہیں۔ 'بھائیوں جیسا‘ لکھتا تو اس میں تکلف ہوتا‘ جس کا ہمارے تعلق میں گزر نہیں۔ عزیز داری اپنی جگہ مگر ذاتی محبت کارشتہ اس سے بڑھ کر ہے۔ ان کی اہلیہ کے ساتھ میرا دُہرا رشتہ ہے۔ یوں بابر اعوان کی بیٹیاں میری بھانجیاں بھی ہیں۔ پولیس ان کی بیٹی کے گھر تک پہنچی تو یہ میری بیٹی کے دروازے پر دستک تھی۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سیاسی وابستگی اور نظری اختلاف ایک طرف رہ جاتے اور جذبات ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔ مجھے دیر سے معلوم ہوا کہ میں ملک میں نہیں تھا۔ صدمہ بھی ہے اور غصہ بھی۔ چادر اور چار دیواری کا سیاست کی نذر ہو جانا ہر حکومت کیلئے باعثِ شرمندگی ہے۔
بابر اعوان سیاستدان ہیں اور قانون دان بھی۔ ان کو معلوم ہے کہ احتجاج کی سرحد کہاں سے شروع ہوتی اور کہاں پہ ختم ہوتی ہے۔ تشدد کو وہ خوب جانتے ہیں اور اس سے دور رہتے ہیں۔ ان پر نو مئی کے واقعات کا سایہ تک نہیں۔ اسی لیے ان پر الزام بھی نہیں دھرا جا سکا۔ محض سیاسی اختلاف پر قانون اور اخلاق کی حدود کی یہ پامالی ناقابلِ فہم ہے۔ بابر اعوان کی دوستی کھلی ہے اور مخالفت بھی۔ دوست دشمن‘ کسی کو ان کے بارے میں کبھی ابہام نہیں ہوا۔ دوست ان سے دھوکا کھاتا ہے نہ مخالف۔ بابر اعوان کی ایک اور خوبی بھی ہے۔ وہ روایت کے آدمی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ہماری روایت بیٹیوں کے بارے میں کیا کہتی ہے۔ وہ ایک بااثر وزیر رہ چکے ہیں۔ اسلام آباد کی انتظامیہ ان کے اشارے کی منتظر رہتی تھی۔ کوئی ایک واقعہ مگر ایسا نہیں ہے کہ پولیس نے ان کے کہنے پر بیٹی تو دور کی بات‘ کسی کے اپنے گھر کے دروازے پر دستک دی ہو۔ ایسا انسان کیا اس سلوک کا مستحق ہے؟
یہاں مجھے ایک اعتراف کرنا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں۔ چادر اور چار دیواری اس سے پہلے بھی سیاست کی بھینٹ چڑھتی رہی ہیں۔ مجھے اس کا افسوس رہا لیکن اس کی تکلیف کو میں نے اس شدت کے ساتھ شاید ہی کبھی محسوس کیا ہو‘ جیسے اب کیا ہے۔ سچ یہ ہے کہ ہم دوسروں کے گھروں میں لگی آگ کو آگ نہیں سمجھتے‘ جو بلاامتیاز سب کو جلاتی ہے۔ اس کی حدت اسی وقت ہمارے وجود کو جھلساتی ہے جب ہمارے جسم کو چھوتی ہے۔ اگر ہم محلے میں اٹھنے وا لے شعلوں پر شور مچائیں اور پانی کی بالٹی لے کر دوڑیں تو یہ شعلے ہمارے گھروں تک کبھی نہ پہنچیں۔
ہمارے چاروں اطراف دیواریں ہیں۔ مفاد کی‘ تعصب کی‘ سیاسی وابستگی کی‘ مذہبی عصبیت کی۔ یہ فصیلیں باہر اٹھنے والی آوازوں کو ہم تک پہنچنے نہیں دیتیں۔ یہ دیواریں دوسروں کے دکھوں کو ہم سے دور رکھتی ہیں۔ مظلوموں کی چیخ وپکار ان سے سر ٹکراتے ٹکراتے دم توڑ دیتی ہے۔ ہم اپنے آسائش کدے میں مطمئن رہتے ہیں کہ اس قلعے سے باہر سب امن ہے‘ اطمینان ہے‘ آسودگی ہے۔ خبر اگرہم تک پہنچتی بھی ہے تو دیر سے۔
مرے باہر فصیلیں تھیں غبارِ خاک وباراں کی
ملی مجھ کو ترے غم کی خبر‘ آہستہ آہستہ
آج ہمیں ایک ضابطۂ اخلاق کی اشد ضرورت ہے۔ سیاست کی زبوں حالی اب اس درجے تک آ پہنچی ہے کہ سیاست اور اخلاق میں طلاق ہو گئی ہے۔ چادر اور چار دیواری کو بھی سیاست نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ہماری تاریخ یہ ہے کہ سیاسی مخالفین کے ساتھ سلوک کے معاملے میں کسی حکومت کا رویہ قابلِ رشک نہیں رہا۔ اس باب میں سیاسی اور غیر سیاسی حکومتوں میں کوئی فرق نہیں۔ بھٹو صاحب جیسے عوامی راہنما کے عہدِ اقتدار میں‘ سیاسی مخالفین کو جس طرح جسمانی اور ذہنی اذیت سے گزارا گیا‘ وہ ہماری تاریخ کا ایک تلخ باب ہے۔ ان کے ناوک نے تو اُن کو بھی نہیں چھوڑا جنہوں نے پیپلز پارٹی کو خونِ جگر دیا اور ایک مرحلے پر فروعات میں اختلاف کی جسارت کر بیٹھے۔ بدقسمتی سے یہ روایت ہر دور میں باقی رہی۔ پھر یہ وبا اقتدار کے ایوانوں سے نکلی اور پورے سماج میں پھیل گئی۔ سیاسی مخالفین کے گھروں کے باہر آوازے کسنے اور ریستورانوں میں انہیں بے آبرو کرنے کو سیاسی شعور کا نام دیا گیا۔ گھر گھر فساد ہونے لگا۔ رشتوں کا تقدس بازیچہ اطفال بن گیا۔ چادر اور چار دیواری کو آج باہر سے خطرہ ہے اور اندر سے بھی۔
اخلاق اور سیاست میں تعلق کا بحال ہونا لازم ہے‘ اس سے پہلے کہ ان میں ہونے والی طلاقِ بائن‘ طلاقِ مغلظہ بن جائے اور حلالے کے سوا کوئی راستہ باقی نہ رہے۔ ابھی وقت ہے کہ دونوں کو ملا کر اس گھر کو پھر سے آباد کیا جائے۔ حکومتیں ہوش کے ناخن لیں اور سیاسی اختلافات کو‘ سیاسی میدانوں میں حل کریں۔ سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں کو مہذب بنائیں اور اس سیاسی شعور سے خدا کی پناہ مانگیں جس کا ہاتھ دوسروں کے گریبان تک جا پہنچا ہے۔ حکومت پہل کرے۔ پولیس کسی کے گھر کے دروازے پر دستک نہ دے۔ ہر اقدام قانون کے دائرے میں ہو۔ قانون کے احترام کا کلچراسی وقت پیدا ہو گا جب حکومت پہلے اپنی مثال پیش کرے گی۔
ہماری سیاست میں ایسے لوگ رہے ہیں جنہوں نے مخالفت کے باوصف اخلاقی قدروں کی حفاظت کی۔ میرے مرحوم دوست خلیل ملک کی روایت ہے کہ مشرف عہد میں‘ پولیس نواز شریف صاحب کے گھر جا پہنچی جب وہ جیل میں تھے اور کلثوم نواز صاحبہ کو گرفتار کرنا چاہا۔ بیگم صاحبہ نے مجید نظامی صاحب کو فون کیا۔ نظامی صاحب نے یہ بات چودھری شجاعت حسین صاحب کو بتائی جو اُس وقت مشرف صاحب کے ساتھ تھے۔ وہ کسی تاخیر کے بغیر گھر سے نکلے۔ ان کے ساتھ ان کے محافظوں کی گاڑیاں تھیں۔ انہوں نے نواز شریف صاحب کے گھر پہرہ لگا دیا کہ ہمارے ہوتے ہوئے پولیس اس گھر میں داخل نہیں ہو سکتی۔ اہلِ سیاست اور سیاسی جماعتیں اگر زندہ ہوں تو سماجی روایات بھی زندہ رہتی ہیں۔
سیاسی ہم آہنگی اور باہمی احترام کے فروغ کے لیے آج سیاسی جماعتوں کا احیا ضروری ہے۔ باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کے ساتھ‘ ایسے واقعات کی مشترکہ طور پر مذمت کرنی چاہیے۔ سیاست میں شیطان اور دیوتا نہیں ہوتے۔ ہم سب اسی معاشرے کی اجتماعی اخلاقیات کی نمائندگی کرتے ہیں‘ قطع نظر کہ ہمارا تعلق کس سیاسی جماعت کے ساتھ ہے۔ ڈاکٹر بابر اعوان کے ساتھ یہ واقعہ ہوا تو ڈاکٹر طارق فضل اور انجم عقیل صاحب کو ان کے گھر جا کر ان سے اظہارِ یکجہتی کرنا چاہیے تھا۔ حکومتوں کے زخم پر اگر سیاسی راہنما مرہم رکھیں گے تو اس سے سیاسی تلخی میں کمی آئے گی۔ سیاست میں اختلافِ رائے کا احترام لازم ہے۔ اختلافِ رائے سیاست کی رونق ہے‘ اگر قانون کے دائرے میں ہے۔ اگر حزبِ اختلاف نہ ہو تو سیاست ایک جامد اور بے معنی عمل بن جائے۔
ڈاکٹر بابر اعوان کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ میرے لیے ذاتی صدمے کا باعث بنا۔ غمِ جاناں‘ غمِ دوراں تک لے جاتا ہے۔ ذاتی غم کا احساس شعور کا وہ دروازہ کھولتا ہے جس سے انسان دوسروں کے غم کو سمجھنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ پھر ہر چادر اور ہر چار دیواری پر اپنا ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ پھر ہر دکھ ذاتی دکھ بن جاتا ہے۔ ہمیں اس شعور کو عام کرنا ہے۔ بے حسی دھیرے دھیرے قدم جماتی ہے۔ یہاں تک کہ انسان ہر احساس سے عاری ہو جاتا ہے۔ یہ انسانیت کی موت ہے۔ ہمیں متنبہ رہنا چاہیے کہ یہ عمل آہستہ آہستہ سرایت کرتا ہے اور پھر شہر کی عمارتیں زندگی سے خالی ہو جاتی ہیں۔ ہم نے اس عمل کو روکنا ہے۔
اُگا سبزہ در و دیوار پر آہستہ آہستہ
ہوا خالی صداؤں سے نگر آہستہ آہستہ

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved