چند روز قبل میں نے شوکت گجر کے مرشد سید یوسف رضا گیلانی کی بریت پر ایک عدد کالم لکھا جس میں میں نے پلے سے تو کچھ لکھا ہی نہیں تھا‘ صرف ان کی بریت کے عدالتی فیصلوں کی تعداد لکھی تھی جو ظاہر ہے میری اختراع ہرگز نہ تھی۔ ماہِ جولائی میں ان کی بریت والے فیصلوں کی تعداد چھبیس عدد تھی جو میں نے من وعن لکھ دی۔ باقی رہ گئی ان کی جائیداد کی تفصیل‘ یعنی ان کو وراثت میں ملنے والے ستاون ایکڑ کا ذکر‘ تو یہ بات آپ محکمہ مال کے جادوگر یعنی پٹواری سے معلوم کر سکتے ہیں۔ رہی بات مخدوم حامد شاہ گیلانی کی دختر کے ساتھ جہیز میں آنے والی زمین‘ جو بعد ازاں خان بہادر مخدوم الحاج شیخ محمد غوث رابع المعروف پیر سید صدر الدین کے چار بیٹوں میں تقسیم ہوئی اور تقسیم در تقسیم ہوتے ہوئے ستاون ایکڑ کی شکل میں ان کے پڑپوتے سید یوسف رضا گیلانی کے حصے میں آئی‘ تو یہ بات اس موضع کے پٹوار رجسٹر میں موجود ہے۔ ان کے دادا مخدوم غلام مصطفی شاہ کی ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنری کا ذکر 1921ء کے ملتان گزٹیئر کے صفحہ نمبر 105 کی سطر نمبر 13 پر موجود ہے۔ اب بندہ پوچھے کہ میں نے نہ تو کچھ پلے سے لکھا ہے اور نہ ہی کچھ بڑھا چڑھا کر یا خلاف از واقعہ لکھا ہے لیکن شوکت گجر جو اندر سے ایک کھٹا ٹیٹ جیالا ہے‘ میری اس حرکت پر بڑا ناراض تھا اور مجھ پر طنز کے تیر چلاتے ہوئے بار بار یہی کہے جا رہا تھا کہ تم پیپلز پارٹی اور اس کے قائدین کے بارے میں دل میں بغض رکھتے ہو اور ان کے چھوٹے چھوٹے معاملات کو بڑھا چڑھا کر اور مبالغہ آرائی کرکے رائی کا پہاڑ بنا دیتے ہو جبکہ تمہیں صوبہ پنجاب میں 1988ء سے لے کر اب تک 37 سال کے دوران 25 سال حکمرانی کرنے والے خاندان کے بارے میں اول تو کچھ کہنے کی توفیق نہیں ہوتی اور اگر کبھی حوصلہ کر بھی لو تو ایسا پولا پولا کالم لکھتے ہو کہ پڑھ کر فوراً پتا چل جاتا ہے کہ تم نے یہ نرم نرم باتیں بھی بادل نخواستہ لکھی ہیں۔ جب تم پیپلز پارٹی‘ آصف علی زرداری اور مخدوم یوسف رضا گیلانی کے بارے میں لکھتے ہو تو قلم کو تلوار اور الفاظ کو خنجر بنا لیتے ہو اور جب شریف خاندان کے بارے لکھتے ہو تو تمہارا قلم کند اور الفاظ زنگ آلود ہو جاتے ہیں۔ میں نے اس کی ساری تقریر دل پذیر نہ صرف خاموشی سے سنی بلکہ اس دوران مسلسل مسکراتا بھی رہا۔ میرے اس ردِعمل پر وہ اور گرم ہو گیا اور کہنے لگا: اب تم اپنی بے ایمانی اور قلمی خیانت پر مسکرا بھی رہے ہو؟ میں نے کہا: شوکت صاحب! آپ دراصل اپنی محبوب پارٹی اور ان کے لیڈروں کے بارے میں بالکل اسی طرح جذباتی ہیں جس طرح اس ملک میں ہر سیاسی پارٹی کا بے لوث ورکر جہالت کی حد تک اپنی پارٹی اور اس کے قائدین کو نہ صرف نیک ‘پاک‘ بے گناہ اور ایماندار سمجھتا ہے بلکہ معصوم عن الخطا کے درجے پر فائز کرتا ہے۔ دوسری طرف وہ اپنی ناپسندیدہ پارٹی اور اس کے قائدین کو سو فیصد بے ایمان‘ کرپٹ‘ گنہگار اور دنیا کی ہر برائی کا منبع ومحور سمجھتا ہے۔ اپنے لیڈر پر ہونے والی معمولی سی بات اسے توپ کا گولا جبکہ اپنے ناپسندیدہ لیڈر پر گرنے والا ایٹم بم بھی پھول لگتا ہے۔ تمہارے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے اور تم صرف اس بات سے راضی ہو سکتے ہو کہ میں صرف تمہاری دلی خواہش کے عین مطابق کالم لکھوں اور تمہاری دلی خواہش ہے کہ میں تمہارے ناپسندیدہ اور معتوب قائدین کو اس قسم کا رگڑا لگائوں کہ اخلاقیات کی حدود وقیود کے پرخچے اڑ جائیں‘ بدزبانی اور بدکلامی کا ریکارڈ ٹوٹ جائے‘ دشنام طرازی اور گالیوں کا ذخیرہ ختم ہو جائے اور جھوٹ سچ کے درمیان کوئی حد فاصل نہ بچے۔ یہ صرف سوشل میڈیا پر ہی ممکن ہے۔ اخبار بہرحال اس گئے گزرے دور میں بھی خبر کی سچائی‘ نقطہ نظر کی معقولیت اور دلیل کی طاقت کے داعی ہیں۔ یہ تو ممکن ہے کہ اخبارات میں کوئی چیز سرے سے ہی نہ چھپ سکے لیکن جو کچھ‘ برا بھلا اور بچا کھچا چھپ رہا ہے کم از کم اس کی کوئی ساکھ ہے‘ ثقاہت ہے‘ صداقت ہے اور اعتبار ہے۔ تم کہتے ہو کہ میں تمہارے قائدین کے بارے میں لکھتے ہوئے مبالغہ آرائی کرتے ہوئے رائی کا پہاڑ بنا دیتا ہوں۔ ابھی تو میں نے اس کالم میں کئی ایسے واقعات کا ذکر نہیں کیا جن کے گواہ ابھی اس دھرتی کے سینے پر موجود ہیں۔ میں نے تو مخدوم حامد رضا گیلانی کی کوٹھی کے ایک بہت بڑے ٹھیکیدار کی جانب سے غتربود کرنے کا واقعہ نہیں لکھا۔ حتیٰ کہ میں نے اس چھ مربع اراضی کا بھی ذکر نہیں کیا جو مرشد پاک نے اپنے نہایت اعتباری بندے اور ہمارے دوست کے نام پر لگا کر مناسب وقت تک محفوظ رکھے اور بعد ازاں اپنے نام پر چڑھوا لیے۔ اس شریف آدمی کو بہت سے لوگوں نے بہکانے اور پھسلانے کی کوشش کی۔ مگر وہ شریف آدمی اس قسم کے ہر مشورے پر صرف مسکراتا رہا اور وقت آنے پر اس نے یہ چھ مربع اراضی اس کے اصلی مالکوں کو واپس کرکے اپنی خاندانی نجابت کا ثبوت دیا۔
اب رہ گئی بات تمہارے معتوب اور ناپسندیدہ ترین لیڈر کی‘ تو برادرم بندہ آج کل ان کے خلاف کیا لکھے؟ وہ تقریباً گمنامی کے دن گزار رہے ہیں اور زیادہ سے زیادہ کبھی ان کے مری جانے سے متعلق ایک کالمی خبر دکھائی دے جاتی ہے۔ انہیں بڑے شوق اور اہتمام سے واپس بلوایا‘ مستقبل کے وعدے کیے اور مسندِ اقتدار کا سبز باغ دکھایا۔ مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک جتنا بھی ہے ان سے جڑا ہوا ہے اور اسے کیش کروانے کیلئے ان کو خوب گھمایا گیا۔ ان کی پارٹی کی ساری الیکشن کمپین ان کی آئندہ کی وزارتِ عظمیٰ سے جوڑ کر چلائی گئی۔ ان کو وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے پر پیشگی مبارکبادوں کے بڑے بڑے اشتہار چھاپ دیے گئے۔ وہ شیروانی بھی استری کروا چکے تھے مگر پھر ان کو مکھن میں سے بال کی طرح نکال دیا گیا۔ یہ کس نے کیا؟ مجھے تو خیر علم نہیں شاید تمہیں معلوم ہو۔ بہرحال ایک پنجابی محاورے 'نہاتی دھوتی رہ گئی منہ تے مکھی بہہ گئی‘ کے مطابق عین آخر میں وہ اقتدار کی بس پر نہ صرف سوار ہونے سے رہ گئے بلکہ نہ چاہتے ہوئے بھی ان سے اس بس کی سواریوں کی فہرست بنوا کر ان کے دل پر چھریاں چلائی گئیں۔ ان دنوں پاکستان میں پردۂ سکرین سے غائب ہیں اور یہ کوئی چھوٹی اذیت نہیں۔ ادھر وہ پاکستان میں گمنام ہیں اور لندن جاتے ہیں تو بدنام ہیں۔ شغلیہ شرپسند ان کے دفتر کے باہر روزانہ کی بنیاد پر نعرے بازی کرتے ہیں۔ نہ ادھر رہنے کے ہیں اور نہ اُدھر جانے کے ہیں۔ اب بندہ اس سے زیادہ ان کے ساتھ کیا کر سکتا ہے جو ان کے ساتھ ہو رہی ہے؟
ایک ٹریفک والے نے کسی کار ڈرائیور کو روکا اور اس سے ڈرائیونگ لائسنس طلب کیا۔ گھبراہٹ میں ڈرائیور کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ اس نے گاڑی کے ڈیش بورڈ پر تلاش کیا مگر لائسنس نہ ملا۔ پھر اس کو Glove کمپارٹمنٹ میں بھی دیکھا مگر ندارد۔ اسی اثنا میں اس کی بیوی نے اس کے کندھے پر دو ہتھڑ مارتے ہوئے اس کے بھلکڑ پن پر صلواتیں سنائیں۔ اس افتاد سے گھبرا کر اس نے اپنی پتلون اور کوٹ کی جیبوں کی تلاشی لینا شروع کر دی۔ ٹریفک سارجنٹ یہ منظر خاموشی سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی بیوی نے دوسری بار اس کی کمر پر مکا مارا اور اس کی خراب یادداشت‘ بھلکڑ پن اور غیر ذمہ داری پر اسے لتاڑنا شروع کر دیا۔ یہ دیکھ کر ٹریفک سارجنٹ نے ڈرائیور سے کہا کہ جناب آپ تشریف لے جائیں‘ آپ کے ساتھ تو پہلے ہی بہت برُی ہو رہی ہے۔ تو شوکت صاحب! میں کیا لکھوں؟ ان کے ساتھ تو پہلے ہی بہت بری ہو رہی ہے اور میں بھی ٹریفک سارجنٹ کی طرح نرم دل کا آدمی ہوں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved