تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     09-08-2025

یومِ آزادی‘ حکمرانوں کا یومِ احتساب

آزادی کیا ہے؟ آزادی کی قدر و قیمت قحط زدہ مظلوم فلسطینیوں سے پوچھئے۔ اہلِ فلسطین کی زمینیں اپنی‘ فضائیں اپنی‘ ہوائیں اپنی‘ کھیت و کھلیان اپنے مگر وہ گزشتہ ایک سو سال سے زیادہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ سب کچھ اپنا ہونے کے باوجود کچھ بھی ان کا اپنا نہیں۔ اس غلامی کا نقطۂ عروج آج کل ہم غزہ کے بچوں‘ بوڑھوں‘ مردوں اور خواتین کی نسل کشی کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ گزشتہ پونے دو سال سے اسرائیل نہتے اہلِ غزہ پر بمباری کر رہا ہے۔ رفح کی سرحد پر ہزاروں ٹرک سامانِ خورو نوش اور ادویات لیے کھڑے ہیں مگر اسرائیل ان کے راستے میں دیوار بن کر کھڑا ہے اور غزہ میں قحط ہے‘ بہت سے بچے بڑے روزانہ مر رہے ہیں۔ سات اکتوبر 2023ء سے اب تک اس بے لگام‘ غاصب ریاست نے 60ہزار سے زائد اہلِ غزہ کو شہید‘ ڈیڑھ لاکھ کے قریب کو شدید زخمی کر دیا اور سارے ملک کو کھنڈرات بنا دیا ہے۔
خدانخواستہ اگرہم غلام ہوتے تو ہمارا انجام اس سے مختلف نہ ہوتا۔ ہم اگرکسی حد تک محفوظ زندگی گزار رہے ہیں تو یہ آزادی کا ثمر ہے۔ اس آزادی کی ہمیں جو قیمت چکانا پڑی اور ہمارے زعما نے اس کیلئے جو عظیم قربانی دی اور جتنی بے مثال جدوجہد کی‘ اس کی تفصیلات ہماری ہر نسل کو معلوم ہونی چاہئیں۔ مختلف تحقیقی اندازوں کے مطابق قیامِ پاکستان کے موقع پر تقریباً 72لاکھ افراد نے بھارت سے پاکستان کی طرف ہجرت کی‘ اس دوران تقریباً دس لاکھ خواتین‘ بچوں‘ جوانوں اور بوڑھوں کو جان کی قربانی دینا پڑی جبکہ پچاس ہزار سے زائد خواتین کی عصمت دری ہوئی۔ ہم قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت میں تحریک پاکستان کی چند جھلکیاں آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں اور پھر اپنے سمیت اپنی قوم بالخصوص حکمرانوں کو تاریخ کے کٹہرے میں کھڑا کر کے احتساب کرتے ہیں کہ ہم نے آزادی کے تقاضے کہاں تک پورے کیے اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کے نصائح کا کہاں تک پاس لحاظ کیا۔
یوں تو محمد بن قاسم کی ہندوستان میں 712ء میں آمد کے تین چار سال بعد یہاں اسلام کی بنیاد رکھی گئی‘ تاہم اس خطے میں مسلمانوں کی اپنی ریاست کا واضح تصور 1192ء میں شہاب الدین غوری نے پیش کیا تھا۔ شہاب الدین غوری اور اُسکے زمانے کی سب سے بڑی ہندوستانی طاقت پرتھوی راج کے درمیان ترائن کے میدان میں فیصلہ کن معرکہ ہوا تھا۔ جنگ سے پہلے شہاب الدین غوری نے پرتھوی راج کو خط لکھا تھا کہ اگر تم جنگ نہیں صلح چاہتے ہو تو مجھے پنجاب‘ سندھ اور سرحد کے علاقے دے دو وگرنہ جنگ کیلئے تیار ہو جاؤ۔ بلوچستان کا اس میں اس لیے ذکر نہیں کیونکہ وہاں پہلے ہی مسلمانوں کی حکومت تھی۔پھر جنگ ہوئی اور پرتھوی راج کو اپنے ڈیڑھ سو راجاؤں سمیت شکست ہوئی۔ یوں سارے ہندوستان کی فتوحات کے دروازے کھل گئے۔ شہاب الدین غوری کے اپنے خط میں پنجاب‘ سندھ اور سرحد تینوں متصل صوبوں کی حکمرانی کا مطالبہ اس بنا پر تھا کہ ان ایک دوسرے کیساتھ متصل صوبوں میں مسلمان بھاری اکثریت میں رہتے تھے۔ انکے درمیان اسلام ہی قدرِ مشترک تھا۔ پھر 1930ء کا خطبہ الٰہ آباد ہو یا 1940ء کی قراردادِ پاکستان ہو‘ ان سب کی اساس شہاب الدین غوری کا پرتھوی راج کے نام خط میں مذکورہ بالا علاقوں کی حکمرانی کا مطالبہ تھا۔
جب تک ہندوستان میں مسلمانوں کی کسی نہ کسی صورت حکمرانی رہی تو انہیں غوری کی آرزو کے مطابق علیحدہ مسلم ریاست کی ضرورت محسوس نہ ہوئی مگر جب مسلمان انگریزوں کی بدترین غلامی کا تقریباً ایک سو سال تک نشانہ بنتے رہے تو انہیں شدت سے احساس ہوا کہ اب مسلمانوں کی اپنی الگ ریاست ہونی چاہیے کیونکہ صدیوں تک ہندوؤں کے ساتھ رہنے کے باوجود ان دونوں قوموں کا رہن سہن‘ کلچر‘ طرزِ زندگی اور نظامِ زندگی ایک دوسرے سے بالکل الگ الگ رہا۔ اس لیے شہاب الدین غوری کی یہ دیرینہ آرزو بیسویں صدی میں تحریک پاکستان کا بنیادی مطالبہ بن گئی۔ اسی خواہش کی واضح جھلک حضرت شاہ ولی اللہ کے خطوط میں بھی ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ اکثر کہا کرتے تھے کہ میرا کمال فقط یہ ہے کہ جو آرزو تمہارے اندر پرورش پا رہی تھی اور جو تم چاہتے تھے‘ میں نے اسی کا اظہار کر دیا۔قارئین کے سامنے یہ حقیقت رہنی چاہیے کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ اگرچہ آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر بن گئے تھے مگر 1920ء اور 1930ء کے درمیان محمد علی جناح کانگریس کی دوغلی سیاست اور مسلمانوں کی بے عملی سے مایوس ہو گئے۔ وہ 1930ء میں عملی سیاست سے کنارہ کش ہو کر واپس انگلستان چلے گئے۔ وہاں وہ تقریباً چار پانچ سال مقیم رہے مگر یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کے مستقبل سے غافل رہتے۔ بہرحال اس دوران لیاقت علی خان سمیت مسلمانوں کے زعما اور مصورِ پا کستان علامہ اقبالؒ کے خطوط نے انہیں دوبارہ ہندوستان آنے اور مسلمانوں کی قیادت پر آمادہ کیا۔ جب وہ 1935ء میں ہندوستان آئے تو وہ مسلمانوں کی الگ ریاست پر سو فیصد مطمئن اور یکسو ہو چکے تھے۔ اب قائداعظم محمد علی جناحؒ مسلمانوں کا بحیثیت ایک اقلیت نہیں بلکہ ہندوستان کی دوسری بڑی قوم کے طور پر مقدمہ لڑ رہے تھے اور تمام مسلمانانِ ہند اُن کی پشت پر کھڑے تھے۔ 1940ء میں قراردادِ پاکستان منظور ہوئی اور سات برس کی شبانہ روز محنت سے 1947ء میں دنیا کے نقشے پر مسلمانوں کی سب سے بڑی ریاست پاکستان ظہور پذیر ہوئی۔
علامہ اقبالؒ نے پاکستان کا خواب دیکھا اور محمد علی جناح نے اس خواب کو حقیقت کا روپ دیا۔ پھر گزشتہ پون صدی میں محمد علی جناحؒ کی قوم نے اس خواب کو چکناچور کر دیا۔ 11اگست 1947ء کو اعلانِ آزادی سے تین روز قبل پہلی دستور ساز اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا کہ آپ خود مختار قانون ساز ادارہ ہیں‘ یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ ایک حکومت کا پہلا فریضہ یہ ہوتا ہے کہ وہ امن و امان برقرار رکھے تاکہ مملکت اپنے عوام کی جان و مال اور انکے مذہبی عقائد کو مکمل تحفظ دے سکے۔ اسی تقریر میں قائد نے فرمایا کہ ہندوستان میں اس وقت ایک بہت بڑی لعنت رشوت ستانی‘ بدعنوانی اور چور بازاری ہے‘ ہمیں اس لعنت کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ قائداعظم مکمل جمہوریت اور پارلیمانی طرزِ حکومت کے علمبردار تھے۔ آج پون صدی کے بعد ہم قائداعظم کے دیے ہوئے آئینے میں اپنا اعمال نامہ دیکھ لیں۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے جس دستور ساز اسمبلی کو خود مختار اور فیصلہ ساز قرار دیا تھا‘ جس اسمبلی کو دستورِ پاکستان کی تشکیل اور پہلے قومی انتخابات کے بعد رخصت ہونا تھا اسے 1954ء میں ایک بیورو کریٹ گورنر جنرل نے بیک جنبش قلم برخاست کر دیا تھا۔ اس اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیز الدین جب سندھ ہائی کورٹ میں اپیل لے کر گئے تو کورٹ نے اس دستور ساز اسمبلی کو بحال کر دیا اور پھر جوڈیشری کا وہ کھیل شروع ہو گیا کہ جو آج تک جاری ہے۔ اُس وقت کے چیف جسٹس منیر احمد نے حکومت وقت کو خوش کرنے کیلئے اس غیر آئینی اقدام کو درست قرار دے دیا۔ پھر 1971ء میں جنرل یحییٰ خان کے دور میں قوم کو سقوطِ ڈھاکہ کا ایک ایسا زخم ملا جو آج تک مندمل نہیں ہو سکا۔جہاں تک قائداعظمؒ کی طرف سے بدعنوانی ختم کرنے کی نصیحت کا تعلق ہے‘ آج ملک کے سبھی مسائل کی جڑ یہی بدعنوانی ہے۔ آکٹوپس کی طرح یہ بدعنوانی ہمارے قومی وجود کو لپیٹ میں لے چکی ہے۔ مالی بدعنوانی‘ میرٹ پامال کرنے کی بدعنوانی‘ اپنے منصب کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بڑے بڑے لائسنس لینے کی بدعنوانی‘ اپنا کام محنت و دیانت سے نہ کرنے کی بدعنوانی۔ ذرا چاروں طرف نظر دوڑائیے اور دیکھیے کہ ہم بدعنوانی کے خلاف قائد کے اس فرمان کی کیسے کیسے دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ کیا حکومتِ وقت یومِ آزادی کے ساتھ ساتھ اپنا یومِ احتساب بھی منانے کا اعلان کرے گی؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved