چند ہی روز بعد پاکستان (ماشاء اللہ) 78برس کا ہو جائے گا۔ اہلِ پاکستان سالگرہ منانے کی بھرپور تیاریوں میں مصروف ہیں۔ تقریبات کا اہتمام کیا جا رہا ہے‘ سیمینار منعقد ہو رہے ہیں‘ بازار سبز رنگ کے جھنڈوں اور جھنڈیوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ کسی نے اپنے سینے پر پاکستان زندہ باد کا بیج لگا رکھا ہے‘ کسی کی گاڑی پر سٹیکر لگا ہوا ہے‘ کسی نے اپنے گھر پر جھنڈا لہرا دیا ہے۔ کراچی سے پشاور تک اور لاہور سے کوئٹہ تک پاکستان زندہ باد کے نعرے زبانوں پر ہیں۔ اور تو اور بنگلہ دیش میں بھی سبز ہلالی پرچم کی بہت مانگ ہے‘ وہاں بھی بنگلہ دیش کے ساتھ ساتھ پاکستان کا پرچم بلند ہو رہا ہے۔ وہ پرچم جو ربع صدی تک بنگالیوں کو بھی جان سے عزیز رہا۔ مشرقی پاکستان پر بنگلہ دیش کا نام تھوپ دیا گیا تو بہت کچھ بدل گیا۔ پچاس سال سے زیادہ علیحدگی بلکہ تنہائی کی زندگی گزارنے کے بعد احساسِ زیاں اجاگر ہوا ہے۔ نیا دستور بنانے کے مطالبے ہو رہے ہیں‘ نیا بنگلہ دیش تعمیر کرنے کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ وہ بنگلہ دیش جو تاریخ سے جڑا ہوا ہو گا‘ جو پاکستان کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر آگے بڑھے گا‘ جو اپنی مسلم شناخت کو عزیز رکھے گا اور اس کی حفاظت کرے گا۔ بنگلہ دیش میں برپا ہونے والے عوامی انقلاب نے ایک بار پھر تحریک پاکستان کو زندہ کر دیا ہے‘ اس کی افادیت پر مہر لگا دی ہے۔
گزشتہ 78برس کا جائزہ لیا جائے تو بہت کچھ ایسا ہوا ہے‘ ایسا کر دکھایا گیا ہے جو بہت کم ممالک کر سکے ہیں۔ آہنی ریاستی ڈھانچے کی تعمیر سے لے کر ایٹمی قوت کے حصول تک فتوحات کا ناقابلِ یقین سلسلہ ہے۔ بہت کچھ ایسا بھی ہے جو کیا جا سکتا تھا لیکن نہیں کیا جا سکا‘ ہم جہاں آج کھڑے ہیں‘ وہاں سے کہیں اوپر جا سکتے تھے لیکن جا نہیں پائے۔ ہماری اپنی کوتاہ نظری ہمارے پاؤں کی زنجیر بنی ہے یا یہ کہیے کہ کوتاہ نظروں نے اسے ہماری تقدیر بنا دیا ہے۔ وجہ کچھ بھی ہو اپنی رفعتوں اور پستیوں کا ٹھنڈے دل اور گہری نظر سے جائزہ لے کر آگے بڑھنے کا راستہ نکالنا ضروری ہے۔ کامیابیوں پر اترانے کا فائدہ ہے نہ ناکامیوں پر آنسو بہانے کا۔ قائداعظمؒ نے اتحاد‘ ایمان اور تنظیم کا جو نعرہ دیا تھا‘ ہم نے اس میں سے ''تنظیم‘‘ کو نکال باہر کیا۔ اتحاد اور ایمان کی قوالی کرتے رہے لیکن نظم و ضبط بھلا دیا۔ طاقت قانون بن گئی‘ لاٹھی نے بھینس کو ہانکا ہی نہیں بلکہ اس پر اپنا حق تسلیم کرانے میں بھی لگ گئی‘ نتیجتاً ایسے لمحات آئے جب پاکستانی ریاست راجواڑہ بن گئی‘ بہت کچھ ہاتھ سے نکل گیا۔
دنیا کی کوئی قوم کامیابیوں پر مطمئن ہو کر بیٹھ جانے اور کوتاہیوں پر دل چھوڑ دینے سے توانا نہیں رہ سکتی۔ دنیا جب سے قائم ہوئی ہے‘ مختلف خطوں اور ملکوں میں بٹی ہوئی ہے۔ پوری دنیا پر کسی ایک شخص یا قوم کی حکومت کبھی قائم ہوئی ہے‘ نہ ہو سکتی ہے‘ نہ ہو سکے گی۔ طاقتوروں نے جغرافیے کو بار بار بدلا ہے‘ کمزوروں اور پست ہمتوں کی دنیا اندھیر کی ہے۔ ہندوستان یا انڈیا نام کا کوئی ملک 1947ء کے جغرافیے کے ساتھ اپنا تاریخی وجود نہیں رکھتا‘ مغلوں کے بعدکے ہندوستان پر ایک نظر ڈالیں تو برطانیہ کے زیر نگیں وسیع علاقے کے ساتھ ساتھ 565ایسی ریاستیں موجود تھیں جنہیں داخلی خود مختاری حاصل تھی۔ ان پر راجے‘ مہاراجے اور نواب حکمران تھے۔ برطانوی سامراج کے ساتھ معاہدوں کے ذریعے انہوں نے اپنا دفاع اور خارجہ پالیسی نئی دہلی کے سپرد کی تھی‘ ان ریاستوں میں کوئی تحریک آزادی نہیں چلی‘ ان میں آل انڈیا نیشنل کانگرس کا قیام عمل میں آیا نہ مسلم لیگ کا۔ 1947ء میں بھارت اور پاکستان کے نام سے جو دو ممالک وجود میں آئے‘ ان کا وجود یکسر نیا تھا۔ بھارت کے نام سے قائم ہونے والا ملک بھی اسی طرح نیا تھا جس طرح پاکستان۔
برصغیر ہند پہلی بار دو ریاستوں میں تقسیم ہوا تھا۔ اس کی بنیاد مذہبی شناخت تھی‘ ہندو اکثریت اور مسلمان اکثریت کے علاقے الگ الگ کر دیے گئے تھے۔ اس سے پہلے مذہبی تشخص کی بنیاد پر کسی علاقے نے اپنی جداگانہ شناخت کو اس طرح نہیں اپنایا تھا۔ برطانوی راج کے زیر نگیں ہندو اور مسلمان اکثریتی علاقوں کو الگ الگ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو اس پر کانگرس ‘ مسلم لیگ اور برطانوی راج کے نمائندوں‘ سب نے اتفاق کیا تھا۔ 565دیسی ریاستوں کو ان دو میں سے کسی ایک کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ کرنا تھا۔ ان ریاستوں کے الحاق کے بعد جو بھارت یا انڈیا یا ہندوستان وجود میں آیا‘ تاریخ اس سے آشنا نہیں تھی۔ پاکستان کے نام سے قائم ہونے والی مملکت بھی نوزائیدہ تھی۔ بھارت کے رہنے والوں کو اس پر تحریک پاکستان کا شکر گزار ہونا چاہیے تھا کہ اتنی بڑی ریاست کا تصور ہندو اکثریت کر ہی نہیں سکتی تھی۔
پاکستان اور بھارت دونوں مسلمان اور ہندو اکثریت کے متصل علاقوں پر مشتمل تھے۔ ہندو اور مسلمان اقلیتوں کو اپنے اپنے ممالک ہی میں رہنا تھا۔ انتقالِ آبادی کی کوئی تجویز پیش کی گئی‘ نہ منصوبہ بنایا گیا۔ تمام ہندو ایک ملک میں اور تمام مسلمان دوسرے ملک میں اکٹھے کرنا مقصود و مطلوب نہیں تھا۔ یہ مخلوط آبادیاں دونوں ملکوں کے درمیان دوستانہ تعلقات کی ضمانت سمجھی جا رہی تھیں۔ اعلانِ آزادی کے موقع پر جو فسادات برپا ہوئے اور لاکھوں افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے‘ وہ سب ایک ناگہانی آفت تھی۔
پاکستان اور بھارت دو دشمن ممالک کے طور پر وجود میں نہیں لائے گئے تھے۔ تحریک آزادی کے رہنما سمجھ رہے تھے کہ جب بٹوارہ ہو جائے گا تو امن قائم ہو گا‘ دونوں ممالک اچھے ہمسایوں کی طرح رہیں گے اور اپنے اپنے آدرشوں کے مطابق اپنی دنیا آباد کر کے دکھائیں گے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے دونوں نئی مملکتوں کے درمیان ''امریکہ اور کینیڈا‘‘ جیسے تعلقات قائم کرنے کی امید ظاہر کی تھی۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ دونوں ایٹمی طاقت ہیں‘ دونوں میں سے کوئی بھی دوسرے کو زیر نہیں کر سکتا‘ مئی میں ہونے والی چار روزہ جنگ نے ایک بار پھر اس بات کا اعلان کر دیا ہے کہ پاکستان ناقابلِ تسخیر ہے‘ اس نے بھارت کو ناکوں چنے چبوا کر اپنی دھاک بٹھا دی ہے۔ 78سال کا پاکستان یہی اعلان کر رہا ہے کہ اسے تسخیر کرنے کا خواب دیکھنے والو‘ اس کا اعتراف کرو‘ اس سے مکالمہ کرو۔ پاکستان کو نظر انداز کرکے جنوبی ایشیا تو کیا دنیا میں بھی امن قائم نہیں ہو سکتا۔ 78 سال کا پاکستان‘ ایک سو اٹھہتر‘ ایک ہزار اٹھہتر بلکہ اس سے بھی آگے دیکھنے اور زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتا ہے‘ بشرطیکہ اپنے داخلی نظم کو مربوط رکھے‘ عرفِ عام میں جسے سیاسی استحکام کہا جاتا ہے‘ اسے حاصل کرنے کے لیے اپنے آئین پر عمل پیرا رہے۔ ہر شخص اور ہر ادارہ اپنی حد میں رہے گا‘ تبھی قدم بڑھیں گے اور بڑھتے چلے جائیں گے۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved