تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     10-08-2025

کب تک ایسا چلے گا؟

گلہ ہرگز نہیں۔ ہم کون گلہ کرنے والے؟ کریں بھی تو اُس کا فائدہ کیا۔ محض سمجھنے کی کوشش ہے کہ جو چل رہا ہے کب تک چلتا رہے گا؟ یہ سوال اس لیے کہ پہلے بھی ایسے ادوار رہے ہیں‘ ایک بار نہیں متعدد بار۔ امریکہ سے پہلے بھی تعلقات ٹھیک رہے‘ پیسہ بھی آیا ہتھیار ملے۔ تالیاں بجتی تھیں اور جو تخت نشین ہوا کرتے تھے اپنی سمجھ اور دانش کی داد وصول کرتے تھے۔ یہ سنی سنائی باتیں نہیں‘ ہم نے ایسا دیکھا‘ تالیاں اپنے گناہگار کانوں سے سنیں۔ لیکن وہ ادوار دیرپا ثابت نہیں ہوئے۔ مفاد زندہ رہتا تو طمطراق رہتا۔ حالات کچھ بدلتے تو طمطراق ختم ہو جاتا اور پھر ہم اور ہماری اجتماعی مجبوریاں پیچھے رہ جاتیں۔ کتنی بار ایسا دیکھا ہے۔ تخت نشین بھی کتنے دیکھے‘ آئے اور چلے گئے اور پھر وہی ہم اور ہماری مجبوریاں۔
اور تو کچھ سمجھ نہیں آیا بس اتنی بات عقل میں بیٹھی ہے کہ مزاجِ ریاست میں کچھ ٹھہراؤ آنا چاہیے۔ مستقل مزاجی پیدا ہو اور اب وہ راز پایا کہ ریاست کے معاملات میں مستقل مزاجی تب ہی پیدا ہو سکتی ہے جب حکمرانی اور معاملاتِ ریاست قانون اور کسی قاعدے کے تحت چلائے جائیں۔ ڈنڈے سوٹے والا کام عارضی نتائج دیتا ہے۔ زور زبردستی کی کارروائی چلتی ہے تو لگتا ہے کہ مسئلہ حل ہو گیا‘ استحکام نصیب ہو گیا۔ شرپسندوں کا قلع قمع ہو گیا‘ ناپسندیدہ قوتوں کی بیخ کنی ہو گئی۔ ایسی دوا عارضی ثابت ہوتی ہے اور بنیادی مسائل صرف جوں کے توں نہیں رہتے بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ مزید گمبھیر ہو جاتے ہیں۔ ایک بیماری کے بجائے کئی اور بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ یہ کتابی باتیں نہیں‘ یہ سب ہم نے دیکھا ہے۔ قوم یہ مشقیں بھگت چکی ہے۔ قوم تماشائے اہلِ کرم کئی بار دیکھ چکی ہے۔ اس لیے دل سے یہی آرزو نکلتی ہے کہ پرانی رنجشوں کو بھلا دیا جائے اور ایک نئی شروعات کا آغاز ہو جس میں قانون اور قاعدے کا کچھ لحاظ روا رکھا جائے۔
یہ استدعا جو یہاں کی جا رہی ہے‘ ہرگز اخلاقیات کے حوالے سے نہیں۔ دلیل ہرگز یہ نہیں کہ فلاں راستہ اچھا ہے یا برا۔ دلیل عملیت پسندی پر مبنی ہے کیونکہ زور زبردستی والے کام زیادہ دیر چل نہیں سکتے۔ 14اگست نزدیک ہے‘ پاکستان کے وجود کو ہی دیکھ لیجیے۔ پاکستان زور زبردستی کے طریقوں سے معرضِ وجود میں نہیں آیا۔ ایک قانونی راستہ تھا۔ حاکم انگریز تھے‘ عالمی حالات نے ان کی حاکمیت کو کمزور کیا اور یہ دیکھتے ہوئے ان کا فیصلہ تھا کہ ہندوستان سے بوری بسترا گول کرنے کا وقت آ چکا ہے۔ مقامی قوتوں سے مذاکرات ہوئے‘ برطانوی پارلیمنٹ نے آزادی اور تقسیمِ ہند کا قانون پاس کیا اور یوں ہندوستان کو آزادی ملی اور اسی عمل سے پاکستان ایک آزاد مملکت کی حیثیت سے نمودار ہوا۔ یہ بعد کی باتیں ہیں قلعۂ اسلام ہے یا مملکتِ خداداد۔ آزادی کا سارا سلسلہ انگریزی قاعدے اور قانون کے تحت پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ یہ بات بھی کبھی بھولی نہ جائے کہ وہی انگریز کا قانون پھر ہمارا قانون بنا۔ ہمارے آئین بعد میں بنے‘ اُن کی بنیاد بہرحال وہی پرانا قانون تھا۔ آج تک ہمارا عدالتی نظام‘ ہمارا فوجداری اور سول قانون‘ مختلف محکموں کے ضابطے اور قاعدے‘ تقریباً سارے کے سارے برطانوی ورثے کا حصہ ہیں۔ انگریز کے پاس طاقت تھی‘ تلوار کے ذریعے انگریز ہندوستان کا حاکم بنا۔ لیکن حاکم اور فاتح ہوتے ہوئے بھی انگریز نے قانون کی حکمرانی کا تصور رائج کیا۔
یہ سب باتیں اتنی جلدی یہاں کیوں بھلا دی گئی ہیں؟ اور اگر بھلانی ہی ہیں تو کوئی متبادل تو پھر دیا جائے۔ قوم کو واشگاف الفاظ میں بتایا جائے کہ قانون کی حکمرانی بکواس ہے اور یہاں نہیں چل سکتی۔ اس لحاظ سے تو فیلڈ مارشل ایوب خان دیانتدار انسان تھے‘ سیدھا سادھا فلسفہ اُن کا یہ تھا کہ پاکستانی عوام جمہوریت کے قابل نہیں‘ یعنی جمہوریت کیلئے وہ فِٹ نہیں۔ اسی لیے اپنی دانست میں فیلڈ مارشل صاحب نے بالغ رائے دہی کا حق قوم سے چھین لیا اور اس کی جگہ بنیادی جمہوریت کا نظام رائج کیا۔ 40ہزار بی ڈی ممبر مغربی پاکستان سے اور اتنی ہی تعداد مشرقی پاکستان سے۔ صدارتی اور اسمبلیوں کے الیکشنوں کیلئے انہی کا ووٹ معتبر ٹھہرا۔ کچھ تو منطق سے کام لیا جائے۔ من پسند نتائج ہی حاصل کرنے ہوں تو پھر ایسا نظام ہونا چاہیے۔ ایوب خان سے لے کر آج تک عجیب ترقی ہوئی ہے کہ بات جمہوریت کی اور کرشمات فارم 47کے۔ ایسی جرأت تو ایوب خان کے الیکشن کمیشن نے نہیں کی۔
ایک اور بات کہنا ضروری ہے۔ بات صرف پنجاب کی ہو تو یہاں ہر چیز چل سکتی ہے۔ فارم 47والی جمہوریت چلانی ہے تو یہاں چل جائے گی۔ مسئلہ یہ ہے کہ بلوچستان اور خیبرپختونخواکے حالات بگڑے ہوئے ہیں۔ وہاں کیا کرنا ہے؟ جنرل پرویز مشرف کی روح سے کوئی پوچھے کہ بلوچستان میں دست اندازی کی ضرورت کیا تھی؟ نواب اکبر بگٹی کو ٹھکانے لگایا اور شورش کی آگ بھڑکنے لگی اور ایسی بھڑکی کہ آگ بے قابو ہونے لگی۔ پختونخوا کے حالات بھی ہمارے سامنے ہیں‘ سابقہ قبائلی علاقوں میں ایک قسم کی جنگ جاری ہے۔ لہٰذا مسئلہ صرف پنجاب کا نہیں‘ یہاں تو ریاست کا زور ہے جو مزاجِ یار میں آئے چل سکتا ہے۔ مسئلہ پورے ملک میں امن قائم کرنے کا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تو آکر کرنا نہیں‘ یہ قوم کی اجتماعی عقل پر منحصر ہے کہ معاملات کیسے ٹھیک ہوتے ہیں۔
نریندرمودی کا ستیاناس ہو بے تکی جنگ چھیڑ کر اُس نے منہ کی کھائی جبکہ ہم اس گمان میں ہیں کہ بھارتی شکست کے ساتھ تمام مسائل پر حاوی ہو گئے ہیں۔حالانکہ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ہم نے اپنے سیاسی اور معاشی مسائل حل کر لیے ہیں۔ وہ مسائل جوں کے توں ہیں۔ لہٰذا کہیں سے تو پہل ہو۔ سیاسی محاذ آرائی ہوئی‘ غلطیاں سرزد ہوئیں لیکن نقصان صرف کسی ایک جماعت کا نہیں ہوا۔ مجموعی صورتحال خراب ہوئی تو نقصان قوم کا ہوا۔ اب آگے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام کون سرانجام دے گا؟
اسمبلیوں سے نااہلیاں‘ الیکشن کمیشن کی پھرتیاں‘ مخصوص عدالتوں کا یکطرفہ انصاف‘ کب تک یہ رہے گا؟ مرضی کے قانون بہت سے پاس ہو چکے ہیں۔ چھبیسویں آئینی ترمیم کا نام کیا لینا‘ پورا آئینی ڈھانچہ اور عدالتی نظام موم کا سا ہو گیا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ لوگوں نے اس پر بات کرنا چھوڑ دیا ہے کیونکہ ایسا کرنا بے سود لگتا ہے۔ پھر گزارش ہے کہ ایسا کرنے سے کام چلے تو کوئی اعتراض نہیں لیکن تاریخِ پاکستان کی گواہی ہمارے سامنے ہے کہ ایسا کبھی چلا نہیں۔ لیکن درستگی کے کوئی امکان ہیں یا درستگی کب آتی ہے کوئی معلوم نہیں۔ البتہ مغربی سرحدوں کی صورتحال سے بے خبر نہ رہیں۔ وہاں قانون یا آئین کی بات نہیں ہو رہی۔ شورش کے اپنے انداز ہوتے ہیں اور اس میں کسی قانون یا آئینی کتاب کو خاطر میں نہیں لایا جاتا۔
تماشا یہ بھی ہے کہ جو بٹھائے گئے ہیں ان کا دائرہ کار محدود تو ہے ہی لیکن کہیں سے بھی اس ہجوم میں سوچ کا پہلو نظر نہیں آتا۔ بس گزارا چل رہا ہے اور اسی کو عافیت سمجھنا چاہیے۔ چلیں ایک اور 14اگست قریب ہے‘ اب تو یہ بھی یاد نہیں کہ تجدیدِ عہد کہاں سے شروع ہو۔ لیکن کچھ تو اس ملک پر رحم کریں۔ اچھا بھلا ملک ہے‘ دل کی دھڑکن ہے۔ ورثے میں کتنا کچھ ملا‘ کس چیز کی کمی تھی؟ نگہبانی کرنی تھی‘ اب بھی وقت ہے نگہبانی کے کچھ انداز تو سیکھ لیے جائیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved