چکوال سے کچھ فاصلے پر ایک تاریخی گاؤں بھون کے قبرستان میں ڈھلتی شام کے دوران پروفیسر غنی جاوید کی میت قبر میں اتاری جا چکی تھی۔ ایک طویل زندگی کا سفر آخر اسی گاؤں میں ختم ہوا جہاں کبھی ہندوستان کی تقسیم سے قبل شروع ہوا تھا۔ میری نظر وہاں فیصل آباد سے آئے سینیٹر طارق چوہدری اور اسلام آباد سے دوست طارق پیرزادہ پر پڑی جو اُداس نظروں سے خاموش اپنے پرانے دوست کو مٹی میں دفن ہوتے دیکھ رہے تھے۔ میں اسلام آباد سے وہاں پہنچا تھا۔ میں بھی پیچھے جا کر خاموشی سے ان کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ اب پروفیسر غنی جاوید کی قبر پر پانی کا چھڑکاؤ کیا جارہا تھا اور ہم سب خاموش کھڑے اس انسان کو دیکھ رہے تھے جو 92برس کی زندگی جیا اور آخری دم تک اس نے اپنی روزی روٹی کمانے کیلئے محنت کی اور اس محنت کا میں خود گواہ ہوں۔ یاد کرنے کی کوشش کی کہ میری پروفیسر غنی جاویدسے پہلی ملاقات کب ہوئی تھی۔ مجھے ذہن پر کچھ زور ڈالنا پڑا کیونکہ ایک دفعہ کسی دوست نے خوبصورت بات کی تھی کہ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ آپ کسی کو کتنے عرصے سے جانتے ہیں۔ ہو سکتا ہے آپ کی کسی سے سو برس کی آشنائی ہو لیکن دوستی کا دعویٰ پھر بھی نہ کر سکیں‘ لیکن دوسری طرف آپ کسی ایسے بندے سے ملیں جس سے مل کر لگے کہ شاید برسوں کا پرانا تعلق ہے۔ لہٰذا تعلق کا تعلق وقت سے نہیں جُڑت سے ہوتا ہے۔ یہی جُڑت تھی جو مجھے پروفیسر غنی جاوید سے محسوس ہوئی جب وہ پہلی دفعہ دس بارہ برس قبل میرے گھر آئے۔ وہ سینیٹر طارق چوہدری‘ خالد بھائی اور مشتاق جاوید کے ساتھ آئے تھے۔ وہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی جو ایک طویل تعلق میں بدل گئی۔ مجھے پتہ چلا کہ وہ آسٹرولوجی کا شوق رکھتے ہیں تو ان سے زیادہ دلچسپی پیدا ہوئی کیونکہ مجھے خود آسٹرلوجی میں دلچسپی ہے۔ یوں جب پتہ چلا وہ تو برسوں سے یہ کام کرتے آئے ہیں تو ان سے زیادہ الفت ہو گئی۔ وہ اکثر طارق چوہدری‘ مشتاق بھائی اور خالد بھائی کے ساتھ ہی میرے گھر آتے‘ جب ان تینوں بھائیوں کا لاہور سے اسلام آباد چکر لگتا۔ لیکن ان کا زیادہ تعلق طارق پیرزادہ اور طارق چوہدری سے تھا۔ دونوں کو وہ اپنا محسن سمجھتے تھے کیونکہ یہی دونوں تھے جنہوں نے پروفیسر صاحب کے اس فن کو سمجھا اور اسے پروموٹ کیا اور ان کی ہر لحاظ سے مدد کی۔ طارق پیرزادہ بھی اپنی نوعیت کے خوبصورت انسان اور مہمان نواز ہیں۔ یاروں کے یار اور کھلے دل اور دماغ کے مالک جو ہر بات بڑے سلجھے ہوئے انداز میں کرنے کے عادی ہیں‘ لہٰذا ان کے گھر پر اکثر محفلیں جم جاتیں خصوصاً جب لاہور سے میاں خالد‘ طارق چوہدری اور مشتاق بھائی اسلام آباد آتے تو وہ انہی کے ہاں ٹھہرتے اور پروفیسر غنی جاوید بھی موجود ہوتے۔ مجھے بھی طارق پیرزادہ کا فون آ جاتا کہ تشریف لائیں اور یوں جہاں ہم سب پیرزادہ صاحب کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوتے وہیں بات سیاست اور سیاستدانوں سے ہوتی ہوئی آخرکار پروفیسر صاحب پر پہنچ جاتی کہ ہماری سیاسی عقل تو جواب دے گئی ہے اب آپ ہی بتائیں کہ آپ کی آسٹرولوجی کیا کہتی ہے۔ پروفیسر صاحب کچھ اونچا سنتے تھے لہٰذا طارق پیرزادہ اور طارق چوہدری اونچی آواز میں ان سے سوال کرتے۔ ان کے چہرے پر ایک معصومانہ سی ہنسی آتی اور پھر کچھ آنکھیں بند کر کے بولتے اور ہم سب سنتے۔ ان کی بعض پیش گوئیاں تو خطرناک حد تک سچی نکلی تھیں جس سے ہم سب بہت ڈر بھی گئے تھے کہ بہتر ہے نہ ہی پوچھا جائے کہ جو ہو گی سو ہو گی‘ ابھی سے کیا اپنی راتیں خراب کریں۔ طارق چوہدری بتانے لگے کہ جب بینظیر بھٹو پاکستان واپس آئیں تو ان سے 27دسمبر سے دو تین دن پہلے پوچھا گیا کہ بی بی کے وزیراعظم بننے کے کیا امکانات ہیں؟ حساب کتاب کیا اور بولے: مجھے تو وہ اگلے سال میں کہیں نظر نہیں آرہیں۔ کہا‘ ان کی جان کو شدید خطرہ ہے‘ انہیں پیغام دیں کہ احتیاط کریں۔ سب چونک گئے‘ کچھ بھاگ دوڑ ہوئی کہ بینظیر بھٹو تک یہ بات پہنچائی جائے۔ دو دن بعد بینظیر بھٹو شہید ہو گئی تھیں۔ پروفیسر صاحب کے کریڈٹ پر ایسی کئی پیش گوئیاں تھیں جو خطرناک تھیں اور پوری ہوئیں۔ کچھ باتیں پوری نہیں بھی ہوتی تھیں مگر انکی خطرناک پیش گوئیوں کے سچے ہونے کی رفتار اتنی زیادہ تھی کہ طارق پیرزادہ نے انکے بارے مشہور کر رکھا تھا کہ پروفیسر صاحب کی کسی بندے کو اس کے بارے میں سنائی گئی خوشخبری پوری ہونے میں شاید سال دو سال کا وقت لگ جائے یا ہو سکتا ہے کہ وہ پوری نہ ہو لیکن بری خبر فوراً پوری ہوتی ہے۔ اکثر دوست جو یہ جانتے تھے وہ انہیں مذاق میں کہہ دیتے کہ پروفیسر صاحب صرف اچھی اچھی باتیں بتایا کریں‘ بری باتیں رہنے دیں۔
طارق چوہدری اور طارق پیرزادہ کی کوشش ہوتی تھی کہ ان کے کلائنٹس کی تعداد بڑھائی جائے تاکہ وہ اپنی روزی روٹی کما سکیں۔ طارق پیرزادہ اکثر پروفیسر صاحب کو کہتے کہ نوجوانوں اور دیگر لوگوں کو بری خبریں زیادہ نہ سنایا کریں‘ اچھی باتیں زیادہ بتایا کریں‘ آپ انہیں ڈرا دیتے ہیں۔ پروفیسر صاحب کہتے: اچھا نہیں کروں گا‘ لیکن وہ اس تصور کے ساتھ کبھی ایڈجسٹمنٹ نہ کر سکے کہ انہوں نے کسی زائچہ بنوانے کے شوقین بندے کو اچھی باتیں زیادہ بتانی ہیں اور نیگٹو اطلاع کم دینی ہے۔ اپنا مالی نقصان تو کر لیتے لیکن دوسرے بندے کو وہی کچھ بتاتے جو اس کے زائچے میں انہیں نظر آتا۔ ان کا کہنا تھا کہ نہ وہ اپنے ساتھ زیادتی کر سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے پیشے سے۔ انہیں دونوں چیزیں بہت عزیز تھیں۔ طارق پیرزادہ اکثر انہیں چھیڑتے کہ آپ کو کسی کے ہاتھ میں محبت یا فلرٹ کی لائن دیکھ کر تپ چڑھ جاتی ہے اور آپ اس بندے سے ذاتی جھگڑا ڈال لیتے ہیں اور اسے مسلسل ڈراتے ہیں کہ خواتین سے دور رہو۔ آپ کیوں حسد کرتے ہیں؟ پروفیسر صاحب اس بات پر ہنسنے کے بجائے سنجیدگی سے کہتے: کیونکہ میں اس کا نقصان ہوتے دیکھ رہا ہوں۔ میں اس موقع پر کہتا: پروفیسر صاحب یہ وہ نقصان ہے جو مرد ہنسی خوشی برداشت کرتے ہیں‘ آپ ٹینشن نہ لیا کریں۔ میری ان سے ہفتہ میں ایک روز ضرور ملاقات ہوتی۔ میں انہیں ایف الیون کے ایک گھر سے لیتا‘ جہاں ان کے کسی مہربان نے انہیں ٹھہرنے کیلئے بیسمنٹ دی ہوئی تھی۔ ہم دونوں پہلے سعید بکس جاتے‘ وہ لٹریچر پر کتابیں لیتے پھر میں انہیں اچھا سا ڈنر کراتا اور واپس رات کو گھر چھوڑ آتا۔ وہ کتابیں پڑھنے کے بہت رسیا تھے اور بہت پڑھتے تھے۔ وہ مجھے ہمیشہ کہتے: My worthy friendچلو مجھے کتابیں خرید کر دو۔ ایک دن گاڑی میں بٹھایا تو کہنے لگے: مائی وردی فرینڈ‘ آج میرا جنم دن ہے۔ ان کے چہرے پر اداسی ابھری کہ وہ اپنے گھر نہ تھے۔ اکیلے تھے۔ میں نے راستے سے کیک لیا‘ بیگم کو گھر فون کیا کہ اچھا سا کھانا پکائیں‘ اپنے بچوں کے ساتھ ان کا کیک کاٹا‘ بچوں نے تالیاں بجائیں‘ اچھا سا کھانا کھایا اور میری بیگم نے انہیں اچھا سا گفٹ دیا جس پر بہت خوش ہوئے۔ برسوں گزر گئے لیکن ان کی اس رات کی وہ مسکراہٹ میری زندگی سے کبھی دور نہ ہوئی۔ ایک معصوم انسان کی معصوم مسکراہٹ۔ ایک خوبصورت مسکراہٹ آج بھون کے قبرستان میں میری نظروں کے سامنے دفن ہو گئی اور ہم تینوں چپ چاپ اداس کھڑے اس مٹی کے ڈھیر کو دیکھتے رہے جس میں وہ انسان دفن ہوا تھا جس نے ساری عمر محنت کی اور ہم گواہ تھے کہ آخری عمر تک اپنے علم سے اپنی روزی روٹی کمائی۔
میں قبرستان سے نکلا تو سورج دور چھپ رہا تھا۔ آخری دفعہ مڑ کر قبر کو دیکھا جہاں ایسا انسان ابھی ابھی دفن ہوا تھا جس کے پاس بے پناہ علم تھا اور جو خدا کی دی ہوئی صلاحیت کے سہارے انسانوں کے مستقبل میں جھانک سکتا تھا۔ جس کے اندر معصومیت اور انکساری تھی۔ دور دور تک پھیلی ماربل کی سفید قبروں پر شام ڈھل رہی تھی۔ دل اداس ہوا اب کبھی سننے کو نہیں ملے گا My worthy friend‘ چلو ڈنر کراؤ اور مجھے لٹریچر‘ تاریخ اور فلسفے پر کتابیں خرید کر دو۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved