علامہ اقبال نے اظہارِ تاسف کیا کہ:
قافلۂ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں
قحط الرجال کا ماتم مدت سے جاری ہے اور نہیں معلوم کب تک یہ سینہ کوبی ہوتی رہے گی۔ تاثر ہے کہ ہماری صفیں ایسے رجال سے خالی ہیں جن میں زمانہ بدلنے کی سکت تھی۔ اقبال نے جب دیکھا کہ افلاک سے نالوں کا جواب نہیں آیا تو انہوں نے معیار پر مفاہمت کرتے ہوئے سوال اٹھایا:
کیا نہیں اور غزنوی کارگہ حیات میں؟
سیاست کی حد تک ان کو اپنے سوال کا جواب مل گیا‘ محمد علی جناح کی صورت میں:
نگاہ بلند‘ سخن دل نواز‘ جاں پُرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے
فکرِ اسلامی کی تشکیلِ نو کے لیے مگر انہیں کوئی نہ مل سکا۔ وہ اس خواہش کو دل میں لیے دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کے بعد کیا اس کے امکانات پیدا ہوئے؟ کیا صحنِ چمن میں بہار آئی؟ کیا فکر کی نئی کلیاں کھلیں؟ کیا کوئی نیا چراغِ راہ روشن ہوا جو منزل کا پتا دے؟ چند سوال اور بھی ہیں؟ کیا اقبال سے پہلے فکر کے سوتے خشک تھے؟ سر سیّد‘ شبلی‘ فراہی‘ ابوالکلام... دامن میں ایسے چراغ لیے‘ اقبال کو کس خورشید کا انتظار تھا؟
ان سوالوں کا ایک جواب اب سامنے آیا ہے جو بہت دلچسپ ہے۔ مقدمہ تو پرانا ہے لیکن اس سے پہلے ایک بیانیے کی صورت میں‘ اس صراحت کے ساتھ سامنے نہیں آیا۔ بیانیہ یہ ہے کہ فکرِ اسلامی کامیدان 'تجدد‘ نے مار لیا ہے۔ اس وجہ سے نہیں کہ یہ مقدمہ درست تھا‘ بلکہ اس سبب سے کہ اس کا جواب دینے والے نااہل تھے۔ تجدد کے گمراہی ہونے میں کوئی شبہ نہیں مگر مستقبل اسی کا ہے۔ وجہ وہی کہ اس کا سامنا کر نے کی سکت کسی میں نہیں۔ جاوید احمد غامدی صاحب 'تجدد‘ کا نقطہ عروج ہیں اور ان کی کتاب 'میزان‘ اس کا 'صحیفہ‘۔ یہ بیانیہ کہتا ہے کہ اس تجدد کے ناقدین ابھی یہ جان ہی نہیں پائے کہ مسئلے کی اساس کیا ہے۔ جب انہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ تنقید کا محل کیا ہے تو ان کی ہر تنقید بے معنی اور بلانتیجہ ہے۔ اس تجدد نے ان کے خیال میں جدید استعمار کے زیرِ اثر جنم لیا جس کا علمی اظہار جدیدیت کی شکل میں ہوا۔ سر سید اور شبلی اس کے اولین نمائندے تھے اور غامدی صاحب آخری۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ یہ اُس دین کے متوازی ایک دین ہے جو روایت سے ہم کو ملا۔ اس تجدد کی کامیابی کا بدیہی نتیجہ یہ ہے کہ دین کا ہر وہ نقش ختم ہو جائے جو روایت سے جڑا ہوا ہے۔
اس مقدمے کے حق میں دلیل کیا ہے؟ تجدد کیا ہوتا ہے اورشبلی وغامدی کن معنوں میں متجدد ہیں؟ ان کے ہاں روایت سے کیا گیا بنیادی انحراف کیا ہے؟ ان کے نظامِ فکر میں اصل غلطی کیا ہے‘ جس کا سراغ روایتی اہلِ علم نہیں لگا سکے؟ خطبات لکھنے والے اقبال کا شمار کس طبقے میں ہوگا جو اس سرزمین پر فکرِاسلامی کی نئی تشکیل کو لازم قرار دینے والا پہلا آدمی ہے؟ ان سوالات کے جواب ابھی تک سامنے نہیں آئے۔ جب تک ان کے جواب نہ ملیں‘ یہ مقدمہ آگے نہیں بڑھ سکتا یا اس کے رد وقبول کا فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ ہر دعویٰ دلیل کا محتاج ہوتا ہے۔ مجھ جیسے طالب علموں کو اس دلیل کا انتظار ہے۔
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ہمیشہ روایتی مذہبی طبقے کا ہدف رہے۔ ان کے نزدیک وہ بھی تجدد کے نمائندے تھے۔ 'مودودی مذہب‘ جیسی کتابیں ہمارے دینی ادب کا حصہ ہیں۔ آج بھی روایتی اہلِ علم انہیں اہلِ سنت والجماعت میں شامل نہیں کرتے۔ مولانا پر تنقید بہت ہوئی مگر یہ مؤثر ثابت نہیں ہوئی۔ ان پر لگنے والا ہر الزام علم کے ترازو میں بے وزن نکلا۔ ایسے میں مولانا وحید الدین خاں سامنے آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگ مولانا کے نظامِ فکر میں موجود اصل غلطی نہیں سمجھ سکے۔ وہ اعتراضات کوئی معنی نہیں رکھتے جو روایتی اہلِ علم پیش کرتے ہیں۔ مو لانا وحید الدین خاں نے مگر اپنی بات یہاں پر تمام نہیں کی۔ انہوں نے 'تعبیر کی غلطی‘ لکھ کر یہ بتایا کہ فکرِ مودودی میں ان کی نزدیک 'اصل غلطی‘ کیا ہے۔ یہی نہیں‘ وہ ایک قدم مزید آگے گئے اور اپنے تئیں اس غلطی کو درست کر کے یہ بتایا کہ دین کیا ہے۔
مولانا وحید الدین کی کتاب 1965ء میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد اس موضوع پر اَن گنت کتابیں چھپ چکیں۔ بڑے بڑے علما نے وحید الدین صاحب پر تنقید کی اور ان کے اعتراض کا رد لکھا۔ آج دونوں مواقف کے حق میں لٹریچر موجود ہے۔ دین کا ایک سنجیدہ طالب علم خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ کس کا مؤقف کتنا وزنی ہے۔ علم کی دنیا میں بیانیہ موجود ہے اور جوابی بیانیہ بھی۔ میرا تاثر ہے کہ عامیانہ اور سطحی تنقید کے چند مظاہر کے علاوہ‘ اس اختلاف نے ہماری علمی روایت کو آگے بڑھایا ہے اورفکرِ اسلامی میں موجود وسیع امکانات کو اجاگر کیا ہے۔ مولانا مودودی اور ان کے مکتبِ فکر کے علمی کام نے ہماری روایت کو ما لا مال کیا اور وحید الدین خاں صاحب نے بھی اسلامی ادب کو نئی رفعتوں سے آشنا کیا۔ میرے دل میں تو دونوں کے لیے عزت ہے اور میں دونوں کو اپنے محسنوں میں شمار کرتا ہوں۔
مولانا وحید الدین خاں صاحب کے کام کا اعتراف کرتے ہوئے‘ اس بات کا انکار محال ہے کہ فکرِ مودودی کی موجودگی میں‘ روایتی مکتبِ فکر اپنے پاؤں پر کھڑا رہا اور اس کی اثر پذیری میں بھی قابلِ ذکر کمی نہیں آئی۔ وہ مولانا مودودی کا علمی رد شاید نہ کر سکا ہو مگر وہ اپنے حلقے کو مولانا مودودی کے اثرات سے محفوظ رکھنے میں کامیاب رہا۔ اس میں شبہ نہیں کہ مولانا کے افکار ان کے نظامِ فکرمیں سرایت کر گئے جس کا انہیں اندازہ نہیں مگر بظاہر ان کا بھرم قائم رہا۔ اسی طرح روایتی اہلِ علم‘ اس نئے مقدمے کے مطابق‘ اگر جاوید غامدی صاحب سے شکست کھا چکے ہیں تو اس کے باوجود‘ اپنے حلقے کو انہوں نے غامدی صاحب سے فی الجملہ محفوظ رکھا ہے۔ طریقہ وہی اختیار کیا گیا ہے جو مولانا مودودی کے خلاف اپنایا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تاریخ یہاں بھی اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ روایتی حلقہ جاوید صاحب کے اثرات قبول کر رہا ہے مگر یہ حرکت ابھی ان کے حواسِ خمسہ کی گرفت میں نہیں۔ مولانا مودودی اور جاوید صاحب روایتی حلقوں میں اگر جگہ بنا رہے ہیں تو یہ اس بنیادی تنقید کا رد ہے جو انہیں روایت سے منحرف قرار دیتی ہے۔ غلام احمد پرویز صاحب اس حلقے میں سرایت نہیں کر سکے کہ وہ روایت سے بغاوت پر کھڑے تھے۔ ان دونوں کا معاملہ یہ نہیں۔ تاہم اس وقت ان حضرات کا دفاع مقصود نہیں۔ یہ جملہ معترضہ تھا۔ مجھے آج ایک نئے مقدمے کی طرف متوجہ کرنا ہے جسے ابھی ثابت ہونا ہے‘ درست تر الفاظ میں ابھی مرتب ہونا ہے۔ محمد دین جوہر صاحب نے ایک جریدے 'جی‘ سے اس کا آغاز کیا ہے۔ میرے جیسے طالب علم منتظر ہیں کہ اس مقدمے کے علمی خدوخال عنقریب سامنے آئیں گے اور یہ دعویٰ دلائل سے آراستہ ہوگا۔ مجھے خوشی ہے کہ 'جی‘ کے نئے دور میں ایک مثبت انداز میں بات کو آگے بڑھایا گیا ہے۔ اگر یہ سب مقدمات شائستگی اور علمی اسلوب میں پیش کیے جائیں تو غلط صحیح سے قطع نظر‘ یہ کاوش لائقِ تحسین قرار پائے گی اور اس سے علمی مکالمہ آگے بڑھے گا۔
ان مباحث میں اصطلاحوں کا استعمال غیر ضروری ہے۔ یہ سب بے مصرف ہیں۔ علم کی دنیا میں یہ اب متروک ہو چکیں کہ ان کے مصداق کا تعین موضوعی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ بنیادی مقدمہ اور دلائل سامنے رہیں۔ فیصلہ لوگوں پرچھوڑ دیا جائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved