اسے بلاشبہ صدی کا مکالمہ کہہ لیجیے ۔ ایک چھوٹا سا بے وسیلہ تنہا غریب ملک اور اُس کا کپتان ابراہیم تراورے اسی مکالمے کے نتیجے میں دنیا کے سیاسی اُفق پر چھا گیا۔ افریقن یونین سمٹ میں ہونے والے اس مکالمے کو مغربی پریس نے بھرپور کوریج دی‘ جس کے مطابق سعودی کرائون پرنس محمد بن سلمان کے خطاب کے بعد بُرکینافاسو کے کیپٹن ابراہیم تراورے کو براہِ راست گلوبل ناظرین کی بہت بڑی آڈینس کے سامنے خطاب کے لیے پکارا گیا۔ ابراہیم تراورے نے امیر عرب دنیا کو مذہب اور خودداری کے حوالے سے جو جواب دیا اُس پہ سرخیاں یوں بنیں:
The answer sent shock waves through the muslim world and left diplomatic relations hanging by a thread
افریقن یونین کے زیر اہتمام اس سال عدیس ابابا میں بظاہر ایک معمول کی ڈپلومیٹک گیدرِنگ تھی‘ جس کی لائیو سٹریمنگ ساری دنیا کے نشریاتی اداروں کو مل رہی تھی۔ سمٹ کے ایک حصے میں عالمی شہرت یافتہ ممتاز امریکی صحافی خاتون Christiane Amanpour کے پاس سٹیج اور مائیک تھا۔ ایک اور اعتبار سے یہ افریقن یونین کی انتہائی نمائندہ کانفرنس مانی گئی کیونکہ اس میں 54 افریقی ممالک کے نمائندگان شریک ہوئے۔ پانچ ملکوں کے چنیدہ رہنما ہیڈ ٹیبل پر بٹھائے گئے۔ پینل کے اراکین نے بولنا شروع کیا تو جلد ہی سارے شرکا اور عالمی ناظرین اور مبصرین کی توجہ دو عدد ''ینگ لیڈرز‘‘ پر مرکوز ہو گئی‘ جن میں سے پہلا لیڈر بُرکینافاسو کا 35 سالہ کپتان ابراہیم تراورے تھا۔ دوسرے مرکزِ نگاہ 39 سالہ کرائون پرنس آف سعودیہ عرب محمد بن سلمان تھے۔ افریقین یونین سمٹ کی موڈریٹر نے سعودی کرائون پرنس محمد بن سلمان کو پہلے خطاب کی دعوت دی‘ جنہوں نے افریقن مسلم ملکوں کو معاشی اور مذہبی طور پر بھرپور امداد کا عندیہ دیا۔ بدقسمتی کی بات جو مسلم ریاستوں کے منیجرز کی عادت نہیں بلکہ شناخت بن چکی ہے یہ اعلان اُس کے عین مطابق تھا۔پھر بُرکینافاسو کے کپتان کی باری آ گئی ۔ اُس نے دھیمی آواز مگر انتہائی مضبوط لہجے میں کرائون پرنس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: ہمیں امداد ہرگز نہیں چاہیے۔ مشرق ومغرب کے دوست اور برادر ہمیں بھکاری مت سمجھیں۔ ہم کسی کے سامنے امداد کے لیے ہاتھ پھیلانا نہیں چاہتے۔ ہم آپ سے ہاتھ ملانا چاہتے ہیں۔ آپ ہمارے ساتھ معاشی ترقی اور اسلامی بھائی چارے‘ دونوں میدانوں میں پارٹنر بن جائیں۔
صدی کے ایسے ہی مکالمے کی ایک مثال عمران خان کے ساڑھے تین سالہ دورِ اقتدار سے بھی ملتی ہے۔ تب پاکستان کے کپتان نے دنیا کی سب سے بڑی عالمی طاقت کو کہا: ہمیں آپ سے مزید قرض اور امداد نہیں مانگنی۔ آپ ہمیں معاشی پارٹنرشپ دیں۔ برابری کے اصولوں کے مطابق۔ میں نے اسے صدی کا مکالمہ اس لیے کہا‘ ان دونوں کپتانوں نے مختلف براعظموں میں کھڑے ہوکر ایک ہی اُصول پر بات کی۔ باس نہیں دوست!
اس تناظر کو سامنے رکھتے ہوئے آئیے ذرا اپنے گریبان میں جھانکتے ہیں۔ میرا مطلب ہے اجتماعی گریبان۔ چونکہ برادر مسلم ملک کنگڈم آف سعودی عریبیہ کے کرائون پرنس کی بات چل نکلی ہے تو مجھے اُن سے ہونے والی ملاقات یاد آ گئی۔ یہ ملاقات عمران خان کے ہمراہ وزیراعظم ہائوس کے ایک مختصر سے ڈنر پر ہوئی۔ باقی تفصیل رہنے دیتے ہیں۔ یہ وہی تاریخی ڈنر تھا جس میں عمران خان نے MBS سے کہا تھا کہ میں آپ سے کچھ مانگنا چاہتا ہوں‘ امید ہے آپ مایوس نہیں کریں گے۔ جس پرکرائون پرنس کہنے لگے: حکم کریں آپ بھائی ہیں جو بھی مانگیں میں حاضر ہوں۔ اس پہ خوشگوار ہنسی پھوٹ پڑی۔ اسی دوران عمران خان نے اگلا جملہ بولا: ایکسیلنسی کرائون پرنس! آپ کے ملک میں کچھ لوگ میرے دل کے بہت قریب ہیں جن کے لیے مجھے آپ کی فوری مدد چاہیے۔
عمران خان نے پُراعتماد لہجے میں کہا: سعودی عرب کی جیلوں میں قید پانچ ہزار پاکستانی تارکینِ وطن کو رہائی دے دیں۔ اپنی تقریر میں MBS نے ان قیدیوں کی رہائی کا اعلان کیا اور پھر اپنا وعدہ نبھا کر دکھا دیا۔ ڈنر کے بعد باہر نکلتے ہوئے ایک مغربی ملک کے ایمبسیڈر نے کرٹسی میں مجھ سے ہاتھ ملایا اور کہا: مسٹر منسٹر... What a man؟
کہنے کو آج بھی ملک میں گورننس ہے‘ نظام ہے ۔ اسی نظام کے نیچے اوور سیز پاکستانیوں کی وزارت کی رپورٹ شدہ دستاویزات نے تصدیق کی ہے کہ اس وقت مختلف براعظموں کے61 ممالک کی جیلوں میں 21 ہزار 506 پاکستانی قید وبند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ حیران‘ پریشان بلکہ پشیمان کن حالات میں پاکستانی تارکینِ وطن کس حال میں ہیں۔ اس کے دو پہلو دیکھ لیتے ہیں۔
اوور سیز پاکستانی قیدیوں کا پہلا پریشان کن پہلو: پاکستانی قیدیوں کی تعداد کے حوالے سے سعودی عرب سرفہرست ہے‘ جہاں سب سے زیادہ 10 ہزار 423 پاکستانی مختلف جیلوں میں قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ دوسرا نمبر متحدہ عرب امارات کا ہے یہاں پانچ ہزار 297 تارکینِ وطن قید میں ہیں۔ تیسرا نمبر ترکیہ کی جیلوں میں قید پاکستانیوں کا ہے‘ جن کی تعداد 437 ہے۔ اسی تسلسل میں دستاویزات سے ظاہر ہوا بھارت میں بھی 738 پاکستانی پابندِ سلاسل ہیں۔ سلطنتِ عمان میں 578‘ ملائیشیا میں 463‘ قطر میں 422 اور سری لنکا میں 112 اوورسیز پاکستانی قید ہیں۔ جنوبی افریقہ میں 75 اور افغانستان میں 85 قیدی موجود ہیں۔ امریکہ میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے علاوہ 64 مزید پاکستانی اوور سیز قید بھگت رہے ہیں جبکہ یو کے میں 23‘ آسٹریلیا میں 42 پاکستانی قید میں ہیں۔ ان قیدیوں کی ماں جیسی ریاست ان کی پُرسانِ حال نہیں۔
اوور سیز پاکستانی قیدیوں کا دوسرا پریشان کن پہلو: بیرونی دنیا میں پاکستانی مشنز اور سفارتکاروں کی اوور سیز ہمدردی کا حال بھی ان دستاویزات میں بیان ہوا۔ ارجنٹائن‘ برازیل‘ کیوبا‘ گھانا‘ مراکش‘ میانمار‘ نیوزی لینڈ‘ روانڈا‘ سنیگال اور سنگاپور ایسے ممالک ہیں جہاں سے پاکستانی سفارتکاروں نے پاکستانی قیدیوں کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں دی۔ یہ بھی پتا چلا کہ فرانس نے اپنے قیدی ڈیٹا کو پرائیویسی لاز کا بہانہ بنا کر سرے سے شیئر نہیں کیا۔ اسی طرح جاپان میں 16پاکستانی قیدیوں میں سے چھ کے بارے میں معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔ میں نے کسی متعلقہ ذمہ دار سے بات کی کہ یہ قیدی کس طرح کے جرائم میں پکڑے گئے۔ پتا چلا کہ ان کی بڑی تعداد چھوٹے موٹے جرمانے ادا نہ کرنے کی وجہ سے سمندر پار جیلوں میں قید کی سزائیں کاٹ رہی ہے۔ ادھر ان کے نام پر قرض لے کر کھربوں ڈکارنے والی اشرافیہ دردمندی تو کیا ان پہ توجہ دینے کی لیے بھی تیار نہیں ہے۔
قارئینِ وکالت نامہ! سمندر پار کا ذکر آئے اور پاکستانی منی لانڈرنگ کا ذکر رہ جائے یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ حال ہی میں 78 سالوں میں نہیں‘ 30 سالوں میں نہیں بلکہ صرف تین سالوں میں PDM-I‘ نگران اور PDM-II کی جو تین حکومتیں آئیں‘ اُن کے عہد میں کرپشن سٹریک کی کُل مالیت 20 کھرب روپے ہے۔ یہ کرپشن ایک وزارت اور وزیر نے چیخ چیخ کر پارلیمان کو بتائی۔
امروز کہ سڑکوں کے چراغاں میں کٹا تھا
امروز کہ تھا رنگ و رُخ و نور کا سیلاب
کچھ اور بھی تھا رنگ و رُخ و نور سے آگے
جلتا ہوا آہنگ سلگتا ہوا مضراب
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved