میرے لندن سے تعلقات شروع دن سے ہی کشیدہ رہے ہیں‘ اور صرف لندن پر ہی کیا موقوف‘ میرے تقریباً ہر بڑے شہر سے تعلقات کی نوعیت کبھی بھی خوشگوار نہیں رہی۔ سچ کہوں تو اس میں کسی بھی شہر کا کوئی قصور نہیں۔ یہ فقیر ہی بڑے شہروں سے دل لگانے میں ناکام رہا ہے۔ اب دل کی کیا کہیں؟ دل تو دل ہے اور اپنی کرتا ہے۔ آپ خود بتائیں جنگلوں‘ ویرانوں‘ دریائوں‘ ندی نالوں‘ پہاڑوں‘ جھیلوں‘ ریگستانوں اور دور دراز کی وادیوں سے محبت میں مبتلا کسی سیلانی کے تعلقات انسانی ہجوم اور سیمنٹ سریے کے جنگل سے کیسے خوشگوار ہو سکتے ہیں؟
میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ میں ملتان کسی مجبوری کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی پسند اور ترجیح کی بنیاد پر رہتا ہوں۔ میں نے ایک بار کہا کہ ملتان میں بڑے شہروں والی ساری خوبیاں اور سہولتیں تو موجود ہیں مگر اس شہر دلدار میں بڑے شہروں والی خرابیاں ابھی در نہیں آئیں۔ میرے اس جملے پر میرے ایک محترم اور بزرگ دوست جو لاہور میں رہتے ہیں اور بڑے اچھے انسان ہونے کے ساتھ ساتھ شاندار صحافی بھی ہیں‘ بڑے جزبز ہوئے۔ ملاقات ہوئی تو خفگی بھرے لہجے میں مجھ سے پوچھنے لگے کہ بڑے شہروں میں خرابیاں ہوتی ہیں؟ ممکن ہے انہوں نے میرے جملے میں لفظ ''خرابیوں‘‘ سے کچھ اور مفہوم اخذ کر لیا ہو۔ بہرحال جب انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ بڑے شہروں میں کیا خرابیاں ہوتی ہیں تو میں نے اس کے جواب میں لمبی چوڑی تمہید باندھنے یا کوئی تھیسس پیش کرنے کے بجائے صرف ایک جملے میں اپنا مؤقف پیش کر دیا۔ میں نے کہا کہ بڑے شہروں کی سب سے بڑی خرابی تو یہ ہے کہ ''وہ بہت بڑے ہوتے ہیں‘‘۔ انہوں نے حیرانی سے میری طرف دیکھا اور کہنے لگے: اس سے تمہاری کیا مراد ہے؟ میں نے کہا: میری مراد وہی ہے جو میں نے کہا ہے۔ بڑے شہروں کی سب سے بڑی خرابی یہی ہے کہ وہ بہت بڑے ہوتے ہیں۔ بے تحاشا پھیلے ہوئے شہروں کے لامتناہی فاصلے تعلقات کو کھا جاتے ہیں۔ دوستیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ رشتوں کو کمزور کردیتے ہیں۔ یہ فاصلے بڑے ظالم ہوتے ہیں۔ میل ملاقات کو محدود کر دیتے ہیں۔ فاصلے زیادہ ہوں تو یہ محض محبت بھری ملاقاتوں میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ پھر میں نے اپنے اس بزرگ دوست سے پوچھا کہ اگر وہ ڈی ایچ اے فیز 6 میں رہتے ہوں اور ان کا دل بلاوجہ ہی اپنے کسی ایسے عزیز دوست سے ملنے کو کرے جو ملتان روڈ پر رہائش پذیر ہو تو کیا وہ منہ اٹھا کر اپنی گاڑی نکال کر اسے ملنے کیلئے روانہ ہو جائیں گے؟ وہ کہنے لگے: سوال خاصا مشکل ہے۔ میں نے کہا: اب صرف جواب برائے جواب یا مجھے لاجواب کرنے کے بجائے عقلیت پسندی سے جواب دیں کہ آپ کیا کریں گے؟ وہ کہنے لگے: میں بہرحال بلاوجہ صرف ملاقات برائے ملاقات کی خاطر ڈیفنس فیز 6 سے ملتان روڈ شاید نہیں جائوں گا۔ میں نے کہا: آپ کے جواب میں گو کہ لفظ ''شاید‘‘ زائد ہے مگر بہرحال مجھے میرا اور آپ کو اپنا جواب مل گیا ہے۔
ملتان میں پیدا ہونیوالا یہ مسافر دنیا بھر میں کہیں بھی گھوم رہا ہو‘ وہ اپنا دل بہرحال ملتان ہی میں چھوڑ کر آتا ہے۔ اب بھلا دل کے بغیر رہنا کیسے ممکن ہے؟ سو وہ مکمل ہونے کیلئے واپس ملتان آ جاتا ہے۔ دنیا میں سب سے ازلی اور دائمی شے تبدیلی ہے اور ملتان اس سے کیسے محفوظ رہ سکتا ہے۔ ملتان بھی تبدیلی کے طوفان بلاخیز سے محفوظ ومامون نہیں مگر یہ بات طے ہے کہ یہ آہستہ رو شہر اور اسکے رہنے والے خلقی طور پر تیزی سے تبدیل ہونے والے جوہر سے محروم ہیں۔ اور جب جوہر ہی نہ ہو تو بھلا زمانے کی تبدیلی کس حد تک کچھ بگاڑ لے گی۔ سو ہم اس تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی دنیا میں بھی اپنی آہستہ مزاجی کی نعمت کے سبب نسبتاً پُرسکون اور بھاگ دوڑ سے محفوظ اس رہائشی جنت میں خوش ہیں۔ میں نے اپنے اس دوست سے کہا: ہم اہلِ ملتان اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ جب ہمارا دل شہر کے دوسرے سرے پر مقیم کسی دوست سے بغیر کسی کام کے ملنے کو کرتا ہے تو ہم منہ اٹھا کر اُدھر چل پڑتے ہیں اور پندرہ بیس منٹ میں اس کے گھر کے باہر ہوتے ہیں۔ کیا یہ سہولت اور آسانی کم ہے۔ اس دوست نے میرے کندھے کو تھپتھپایا اور کہنے لگا: آپ لوگ خوش قسمت ہیں۔ آپ یقین کریں اس دوست نے بالکل سچ کہا کہ اس آہستہ خرام شہر کے باسی خوش قسمت لوگ ہیں۔اب آپ ہی بتائیں ایسے شہر کے باسی کے تعلقات لندن‘ نیویارک‘ یا شکاگو وغیرہ سے بھلا مثالی کیسے ہو سکتے ہیں۔ میں جب پہلی بار لندن گیا تو اندر کا مسافر اس عالمی مقناطیسی جادو نگری کو دیکھنے کی حد تک بہت بے چینی اور ہیجان میں مبتلا تھا۔ اسی بے چینی میں فیضان عارف سے ایک احمقانہ سوال کر دیا کہ لندن کو کتنے دن میں دیکھا جا سکتا ہے۔ میرا سوال سن کر فیضان عارف مسکرایا اور کہنے لگا کہ آپ کے اس سوال کا جواب بہت مشکل ہے۔ میں اس شہر میں برسوں سے مقیم ہوں اور باوجود پوری کوشش کے ابھی تک اسے پورا تو رہا ایک طرف‘اس کا کچھ حصہ بھی نہیں دیکھ پایا۔ یہ جواب سن کر اس پینڈو مسافر نے لندن شہر سے متعلق اپنے دل پر ناپسندیدگی کی ایسی مہر لگائی جو ایک عرصہ تک پوری آب وتاب سے قائم رہی تاوقتیکہ دل لندن کے دوستوں میں جا کر اٹک گیا۔
ہمارے بچے بہرحال ہمارے جیسے ہرگز نہیں ہیں۔ کم از کم مجھے تو اس کا نہ کوئی ملال ہے اور نہ ہی حیرانی۔ ہم بھی ویسے نہیں نکلے جیسے ہمارے بڑے تھے۔ بچوں کو لندن بہت عزیز ہے۔ ان بچوں سے میری مراد صرف اپنے بچے نہیں بلکہ اس سے مراد بچے ہیں‘ سارے بچے۔ اس حیرت نگری میں بچوں کی دلچسپی کی ہر چیز ہے۔ بچوں کو لندن دکھاتے ہوئے بہت سی ایسی جگہوں سے بھی تعارف ہوا جن سے بصورت دیگر شاید کبھی آمنا سامنا نہ ہوتا۔ لیکن اس شہر میں اگر چھوٹا سا ملتان موجود نہ ہو تو میں اب بھی لندن میں دو چار دن سے زیادہ سہولت سے نہ گزار پائوں۔ وہاں سعید ظفر‘ ملک خالد‘ ساجد خان‘ مرزا اورنگزیب ‘ اسد مشتاق‘ فیضان عارف اور احسان شاہد ہیں۔ لیکن اگر غیر ملتانی بیرسٹر نسیم باجوہ کا ذکر نہ کروں تو بڑی زیادتی ہو گی کہ وہ اس تاحدِ نظر پھیلے ہوئے حرکت پذیر شہر میں ہم دوستوں کے لیے مقناطیسی مرکزے کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ہر دوسرے دن کوئی ملتانی دوست رات کھانے پر اکٹھا ہونے کی دعوت دیتا ہے تو تاکیدِ خاص کرتا ہے کہ باجوہ صاحب کی شرکت از حد ضروری ہے۔ ایجویئر روڈ پر پتوغ‘ ٹوٹنگ بیک میں سپائس ویلیج اور الفرڈ کے کھابہ میں جمنے والی محفلوں نے اس شہر سے کدورت میں کچھ کمی تو ضرور کی ہے مگر یہ اس شہر کا نہیں‘ مکینوں کا کارنامہ ہے۔ ادھر معاملہ جمال احسانی کے سفر کے برعکس ہے۔
اک تیرے تغافل کو خدا رکھے وگرنہ
دنیا میں خسارے ہی خسارے ہیں کم و بیش
ادھر دوستوں کی محبت ہے جس نے اس شہر کے بگڑے ہوئے تصور کو کسی حد تک بہتر کیا ہے اور اس شہر میں چار دن ٹھہرنے کا جواز پیدا کیا ہے ورنہ کہاں یہ سکون کا متلاشی مسافر اور کہاں یہ ہنگامہ پرور شہر۔ لیکن اس شہر میں دلداری کرنے والے سبھی لوگ وہ ہیں جن کی جڑیں اب بھی ملتان میں جمی ہوئی ہیں اور بامروت مٹی سے گندھے ہوئے ملتانی دوستوں نے ادھر بھی چھوٹا سا ملتان بنا رکھا ہے۔ ہم ملتانیوں کا حال بھی مت پوچھیں۔ ہم ہر جگہ اپنا ملتان اپنے ساتھ لیے پھرتے ہیں۔ جہاں موقع پاتے ہیں اپنے وسیب کی زنبیل کھولتے ہیں اور اس میں سے اپنا ملتان نکال کر رکھ لیتے ہیں۔ بقول ایک دوست کے‘ جس شہر کے باسی دوستوں کیلئے دل نکال کر رکھنے میں تامل نہ کرتے ہوں بھلا ان کیلئے یہ کام کیا مشکل ہے؟ بقول ارشد ملتانی:
ڈھونڈے سے بھی نہ پائو گے ارشد جہان میں
خوئے وفا و مہر جو ملتانیوں میں ہے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved