تحریر : رشید صافی تاریخ اشاعت     12-08-2025

افراد کا مرہونِ منت نظام

کسی بھی ملک کی حقیقی ترقی اور استحکام کا راز اس کے انتظامی ڈھانچے میں ہوتا ہے۔ وہ قومیں جو افراد کے بجائے اپنے اداروں پر بھروسا کرتی ہیں‘وقت کی دھوپ چھاؤں میں بھی اپنی منزل کی طرف گامزن رہتی ہیں۔ اس کے برعکس وہ معاشرے جو افراد کو اداروں پر ترجیح دیتے ہیں ان کے زوال کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ نظام کی پائیداری کا اصل معیار یہ ہے کہ افراد کے بدلنے سے اس کی کارکردگی پر کوئی اثر نہ پڑے۔ اگر کوئی انتظامی ڈھانچہ کسی ایک شخص کے جانے سے ڈگمگانے ہونے لگے تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ ادارے نہیں بلکہ کسی شخص کی ذات کا پرتو تھا جو اس کی موجودگی تک قائم رہا۔ ہمارے ہاں طویل عرصے سے یہ رجحان ہے کہ ہم افراد کو ماورائے حقیقت حیثیت دے دیتے ہیں۔ کچھ لوگ جب عہدوں پر فائز ہوتے ہیں تو یہ تاثر عام کر دیا جاتا ہے کہ ان کا کوئی متبادل نہیں اور ان کی رخصتی کے بعد پورا نظام دھڑام سے گر جائے گا۔ ان کے اختیارات کی مدت میں توسیع کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے اور یہ دلیل دی جاتی ہے کہ ان کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا‘ لیکن جب وہ افراد اپنے عہدوں سے ہٹ جاتے ہیں تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ نہ صرف یہ کہ نظام ان کے بغیر چل رہا ہے بلکہ بعض اوقات ان کی موجودگی میں وہ نظام کمزور اور مفادات کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ یہ تجربہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ کسی بھی ادارے کو فردِواحد کی مرضی کے تابع کرنے کے بجائے اسے اس کے آئینی اور قانونی دائرہ کار میں رہ کر مضبوط کرنا ہی اصل دانشمندی ہے۔
2018ء کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کی لیکن اس کامیابی پر اپوزیشن کی جانب سے دھاندلی اور مقتدرہ کی حمایت کے الزامات لگائے جاتے رہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت ان الزامات سے انکاری رہی اور کہا گیا کہ حکومت اور مقتدرہ ایک پیج پر ہیں۔ اُس وقت اگر کوئی پی ٹی آئی پر جمہوری اقدار کی پاسداری کا خیال نہ رکھنے کی بات کرتا تو اسے 'غدار‘ تک کہہ دیا جاتا‘ مگر اب کئی برس بعد پی ٹی آئی کے اہم رہنما اور سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کا اعتراف اس سارے معاملے پر مہر تصدیق ثبت کرتا نظر آتا ہے۔ اسد قیصر کہتے ہیں کہ عوام کو یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ اپنا نمائندہ خود چنیں‘ 2018ء میں حکومت لے کر ہم نے غلطی کی۔ اس اعتراف کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ ایک کمزور اور غیر مستحکم اتحادی حکومت میں انہیں ہر وقت سمجھوتا کرنا پڑا۔ اسد قیصر نے ایک اور اہم اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کو توسیع دینا سب سے بڑی غلطی تھی اور اس پر انہوں نے قوم سے معافی بھی مانگی۔ یہ بیان کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ یہاں دو بنیادی سوالات سر اٹھاتے ہیں۔ پہلا یہ کہ اہلِ سیاست ایسا راستہ کیوں اختیار کرتے ہیں کہ انہیں کچھ عرصے کے بعد اس پر پچھتاوا ہو؟ دوسرا یہ کہ اہلِ سیاست سچ کو سامنے لانے میں اتنی دیر کیوں کر دیتے ہیں؟
مذکورہ سوالات کے جوابات ہمارے سیاسی کلچر کی گہرائی میں پوشیدہ ہیں۔ جب سیاسی جماعتیں عوامی مینڈیٹ کے بجائے مقتدرہ کی حمایت پر انحصار کرتی ہیں تو وہ ایک ایسے راستے کا انتخاب کرتی ہیں جو بظاہر تو آسان نظر آتا ہے لیکن طویل مدت میں خود ان کے لیے اور ملک کی جمہوری بنیادوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔ اسد قیصر کا یہ اعتراف کہ انہیں اتحادیوں کے ساتھ سمجھوتا کرنا پڑا‘ اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ ایسی حکومتیں شیشے کے گھر کی مانند ہوتی ہیں جنہیں مسلسل مختلف گروہوں کو خوش رکھنا پڑتا ہے۔ اہلِ سیاست کی جانب سے سچ بولنے میں تاخیر کی اصل وجہ سیاسی مصلحتیں اور اقتدار کی ہوس ہے۔ جب تک کوئی جماعت اقتدار کی چمک میں ہوتی ہے‘ اس کے رہنما حقائق کا آئینہ دیکھنے سے گریز کرہے ہیں۔ اس وقت سچ بولنا ان کے لیے سیاسی خودکشی کے مترادف ہوتا ہے کیونکہ اس سے ان کے مفادات کو نقصان پہنچتا ہے‘ لیکن جونہی وہ اقتدار کے سنگھاسن سے اترتے ہیں انہیں سچ یاد آ جاتا ہے۔ یہ اعترافات کسی اخلاقی اصول کے تحت نہیں بلکہ سیاسی میدان میں دوبارہ جگہ بنانے کی کوشش کا حصہ ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری سیاسی تاریخ میں یہ ایک تسلسل ہے کہ ہر سیاسی جماعت جو برسراقتدار آتی ہے وہ خود کو مقتدرہ سے بہتر تعلقات کے ذریعے ہی کامیاب سمجھتی ہے۔ تین سال قبل تحریک انصاف اس زعم میں تھی اور آج کی برسراقتدار جماعتیں بھی اسی زعم میں مبتلا ہیں۔ سیاسی جماعتیں اقتدار حاصل کرنے کے لیے مقتدرہ کی مدد لیتی ہیں اور پھر جب اقتدار سے باہر ہوتی ہیں تو اسی مقتدرہ کے خلاف آوازیں اٹھاتی ہیں۔مگر یہ ان کی غلط فہمی ہے کہ وہ ہمیشہ مقتدرہ کی حمایت سے عوامی مقبولیت برقرار رکھ پائیں گی۔ تحریک انصاف کی صورتحال اس کی ایک مثال ہے۔ سابق حکومت میں اس نے مقتدرہ کے بارے جو دعوے کیے تھے آج تمام تر عوامی مقبولیت کے دعوے کے باوجود وہ اپنے کارکنوں کو احتجاج کے لیے باہر نکالنے میں ناکام ہے۔ نہ وہ کوئی بڑا جلسہ کر پا رہی ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ میں اس کی آواز توانا ہے۔ اسی طرح آج کی برسراقتدار جماعتیں بھی مصالحت کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے وہی پرانی غلطی دہرا رہی ہیں جس کا خمیازہ انہیں مستقبل میں بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جماعتیں‘ چہرے اور حکومتیں تو بدلتی ہیں‘ لیکن بنیادی نظام اور عوام کی حالت جوں کی توں رہتی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جب تک سیاسی جماعتیں مقتدرہ پر انحصار کرنے کے بجائے عوام کی اصل طاقت اور ان کی خدمت کو اپنی ترجیح نہیں بنائیں گی اس وقت تک پاکستان میں سیاسی استحکام اور حقیقی تبدیلی نہیں آ سکتی۔
اسد قیصر کے اعترافات سے سبق سیکھنا بہت ضروری ہے۔ جمہوریت صرف انتخابات کرانے کا نام نہیں بلکہ اس میں عوام کی حاکمیت‘ آئین کی بالادستی اور اداروں کا اپنی آئینی حدود میں رہنا شامل ہے۔ جب سیاست دان غیر جمہوری قوتوں کے ساتھ مل کر اقتدار کا کھیل کھیلتے ہیں تو وہ جمہوریت کی جڑیں کھوکھلی کر دیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ملک سیاسی عدم استحکام اور عوامی بے اعتمادی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اہلِ سیاست کو چاہیے کہ وہ وقتی مفادات کے بجائے ملک اور عوام کے طویل مدتی مفادات کو ترجیح دیں۔ انہیں یہ سمجھنا ہو گا کہ جمہوریت کی مضبوطی ہی ملک کی ترقی اور استحکام کی ضمانت ہے۔ جب تک سیاست دان غیر جمہوری فیصلوں پر پچھتاتے رہیں گے اور بروقت سچ نہیں بولیں گے‘ اس وقت تک جمہوریت کمزور رہے گی اور ملک بحرانوں سے نہیں نکل پائے گا۔ یہ سیاسی جماعتوں کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ باہمی تعاون سے ایسا نظام وضع کریں جو افراد کا مرہونِ منت نہ ہو بلکہ ایسے مضبوط ادارے اور ایک ایسا انتظامی ڈھانچہ قائم کریں جو افراد کی موجودگی یا عدم موجودگی سے متاثر نہ ہو اور ہر حال میں قومی مفادات اور اصولوں کی پاسداری کرے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved