حضرت معاذؓ اپنے ہم عمر صحابہ میں اپنی ذہانت اور حافظے کے لحاظ سے بہت نمایاں مقام رکھتے تھے۔ ان کی اسی قابلیت کی وجہ سے حضور پاکﷺ نے ان کو ان کے محلے کی مسجد میں امام مقرر فرمایا تھا۔ اس دوران ایک عجیب واقعہ پیش آیا جس پر نبی پاکﷺ نے بے پناہ محبت کے باوجود حضرت معاذؓ کی سرزنش فرمائی۔ ہوا یوں کہ حضرت معاذؓ نے عشاء کی نماز میں سورۂ بقرہ کی تلاوت کی۔ تلاوت طویل ہونے کی وجہ سے ایک شخص جماعت سے الگ ہوا اور اپنی انفرادی نماز پڑھ کر گھر چلا گیا۔ حضرت معاذؓ کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے کہا کہ نماز باجماعت چھوڑ کر الگ نماز پڑھنا نفاق کی علامت ہے۔ جب اس شخص کو اس بات کا علم ہوا تو وہ آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہﷺ آپ جانتے ہیں ہم لوگ دن بھر اپنے کھیتوں میں بڑی مشقت کے ساتھ محنت کرتے ہیں۔ گزشتہ شب میں دن بھر کی تھکاوٹ کے بعد جب عشاء کی نماز میں حاضر ہوا تو معاذ نے سورۃ البقرہ کی تلاوت شروع کر دی۔ میرے لیے اتنی لمبی نماز میں شرکت ناممکن ہو گئی تو میں نے انفرادی نمازادا کی اور چلا گیا۔ نبی اکرمﷺ نے حضرت معاذؓ کو اس موقع پر ایسی سرزنش کی کہ حضرت معاذ ندامت سے پانی پانی ہو گئے۔ آپﷺ نے تین بار فرمایا: اے معاذ کیا تم لوگوں کو فتنے میں مبتلا کرتے ہو؟ پھر مزید فرمایا: جب تم لوگوں کو نماز پڑھائو تو خیال رکھو کہ تمہارے پیچھے بیمار اور ضعیف لوگ بھی ہیں اور مختلف حاجتوں کی وجہ سے مجبور لوگ بھی۔ جب تم نماز پڑھائو تو عشاء کی نماز میں والشمس وضحھا اور سبح اسم ربک الاعلٰی جیسی چھوٹی سورتیں پڑھا کرو۔ (صحیح بخاری‘ صحیح مسلم‘ سنن ابوداؤد) آنحضورﷺ خود نماز میں مقتدیوں کی مشکلات وحاجات کو پیش نظر رکھتے ہوئے تلاوت فرماتے مگر جب کوئی چھوٹا بچہ رونے لگتا تو اس کی آواز سن کر آپﷺ نماز کو مزید مختصر فرما دیتے۔
حسن وجمال‘ ذکر وفکر‘ فیاضی وسخاوت‘ جرأت وشجاعت‘ حکمت وفراست‘ فقر ودرویشی‘ علم وفضل‘ دنیا سے بے رغبتی اور آخرت سے عشق ومحبت‘ عبادت وریاضت اور جہاد وقتال جیسے تمام شعبوں میں درجۂ کمال پر فائز کسی شخص کو دیکھنا ہو تو اس کی مکمل‘ جامع اور دل نشین تصویر صحابیٔ رسول حضرت معاذؓ بن جبل کی ہمہ پہلو شخصیت میں نظر آتی ہے۔ اپنے بچپن میں جب پہلی مرتبہ حضرت معاذؓ کی سیرت کے بارے میں اہلِ علم اساتذہ و مربیین سے واقعات سنے تو میں مسحور ہو گیا۔ پھر شوق ومحبت کے ساتھ آپؓ کی سوانح اور سیرت تفصیلاً پڑھی تو دل نے گواہی دی کہ ''جا اینجاست‘‘۔ آپؓ کی شخصیت بلاشبہ تمام اخلاقِ حسنہ کا مرقع اور ہر انسانی خوبی کی معراج تھی۔ آپؓ کے ساتھی بھی اس کے معترف تھے اور کیوں نہ ہوتے جب اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا تھا: واللہ! اے معاذ میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ (سنن نسائی)
آنحضورﷺ کی ہجرت کے ساتھ ہی مدینہ کی اسلامی ریاست قائم ہو گئی جس کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے مقابلہ کرنا پڑا۔ قریشِ مکہ اور دیگر تمام مشرک قبائل اس ریاست سے شدید نفرت کرتے اور بغض رکھتے تھے۔ اندرونِ مدینہ اور اس کے آس پاس یہودیوں کے تین قبائل بھی اسلام کے بدترین دشمن تھے اور اس کے ساتھ منافقین کی ایک بڑی تعداد مارِ آستین بنی اسلامی ریاست کے خلاف ہمہ وقت سازشوں میں مصروف رہتی تھی۔ انہی حالات میں ہجرت کے دوسرے سال قریش نے مدینہ پر حملہ کیا تو حضور اکرمﷺ نے اپنے تین سو تیرہ صحابہ کے ساتھ ان کو بدر کے میدان میں بدترین شکست سے دوچار کیا۔ حضرت معاذؓ بن جبل جنگ بدر اور اس کے بعد کے تمام معرکوں احد وخندق اور غزوات بمقابلہ یہودیان بنو قینقاع‘ بنو نضیر اور بنو قریظہ میں بہادری کے ساتھ دشمنوں سے لڑے۔ صلح حدیبیہ اور عمرۃ القضاء‘ بیعت رضوان اور دیگر اہم مواقع پر آپؓ آنحضورﷺ کے شانہ بشانہ دین اسلام کی سربلندی کے لیے سربکف رہے۔ صلح حدیبیہ کے بعد خیبر کے یہودیوں سے سخت مقابلہ ہوا۔ اس میں بھی آپؓ مردانہ وار شریکِ جہاد رہے۔ غرض جتنے بھی معرکے ہوئے‘ کسی معرکے میں بھی آپؓ پیچھے نہیں رہے۔
روایات کے مطابق فتح مکہ کے بعد جب رسول کریمﷺ غزوۂ حنین کے لیے روانہ ہوئے تو حضرت معاذؓ کو مکہ کا گورنر مقرر کیا اور فرمایا کہ تم یہیں پر قیام کرو۔ اس وجہ سے آپؓ غزوۂ حنین میں عملاً شریک نہ ہوئے مگر آنحضورﷺ نے انہیں مالِ غنیمت میں سے حصہ عطا فرمایا کیونکہ ان کی عدم شمولیت کا سبب آنحضورﷺ کی طرف سے تفویض کردہ ذمہ داریاں تھیں۔ جب آنحضورﷺ فتح مکہ کے بعد مدینہ تشریف لے گئے تو حضرت معاذؓ کو بھی اپنے پاس بلا لیا۔ ان کی جگہ آپﷺ نے مکہ کا گورنر قریشی نوجوان حضرت عتابؓ بن اسید کو مقرر کیا۔غزوۂ تبوک کے موقع پر منافقین تو پیچھے رہ گئے تھے مگر بعض مخلص صحابہ سے بھی سستی ہو گئی اور وہ اس غزوہ میں شامل نہ ہو سکے۔ ان میں سے ایک حضرت کعبؓ بن مالک تھے جن کا تذکرہ سورۃ التوبہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ جب آنحضورﷺ تبوک کے مقام پر پہنچے تو آنحضورﷺ نے کعبؓ بن مالک کے بارے میں پوچھا کہ وہ کیوں نہیں آئے۔ انہی کے قبیلے کے ایک صحابی نے کہا: یا رسول اللہﷺ ان کو اپنے زیب وزیبائش اور پوشاک ولباس کی بہت فکر ہوتی ہے اس وجہ سے انہیں فرصت ہی نہیں ملی کہ ہمارے ساتھ آتے۔ حضرت معاذ ؓبھی آنحضورﷺ کے پاس موجود تھے اور اسی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے عرض کیا: ہم جہاں تک جانتے ہیں بخدا کعب میں بھلائی کے سوا ہم نے کچھ نہیں دیکھا۔ کبھی بھی ان کے عمل اور زبان سے کوئی بری بات ہم نے نہ دیکھی اور نہ سنی ہے۔ اس موقع پر آنحضورﷺ نے حضرت معاذؓ کی بات سن کر خاموشی اختیار فرما لی اور مزید کچھ نہ کہا۔
حضرت معاذؓ کے حالات میں کتب تاریخ وسیرت میں بیان کیا گیا ہے کہ آپؓ نے 18 برس کی عمر میں قبولِ اسلام کا شرف حاصل کیا اور 36 یا 38سال عمر پائی۔ بہت چھوٹی عمر میں نبی پاکﷺ نے آپؓ کو بعض دیگر صحابہ کے ساتھ یمن میں سرکاری ذمہ داریوں پر فائز کیا۔ کتب تاریخ وسیرت کے مطابق حضرت علیؓ‘ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ اور دیگر دو تین صحابہ کو یمن کے مختلف علاقوں میں سرکاری عامل بنا کر بھیجا گیا تھا۔ تمام عاملین اپنے اپنے صوبوں میں خود فیصلے کرنے کے مجاز تھے مگر دربارِ رسالت مآب سے یہ حکم سب عاملین کو دیا گیا کہ زکوٰۃ وصدقات اور خراج وجزیہ کی تمام رقوم پورے حساب کتاب کیساتھ جمع کرکے حضرت معاذؓ کے سپرد کر دیں۔ آپؓ اپنے صوبے اور ملحقہ صوبوں کی رقوم کا الگ الگ حساب رکھتے اور مکمل تفصیلات کیساتھ یہ ساری رقوم مدینہ بھیج دیتے۔ گویا حضرت معاذؓ یمن کے ان سب خطوں کے نگران تھے حالانکہ اس وقت بھی آپؓ کی عمر کچھ زیادہ نہ تھی۔مشہور واقعہ ہے کہ حضور پاکﷺ نے جب حضرت معاذؓ کو یمن کا گورنر مقرر کیا تو مدینہ سے رخصت کرتے وقت آپﷺ ان کی سواری کے ساتھ پیدل چل رہے تھے۔ حضرت معاذؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! یا تو آپ بھی سوار ہو جائیں یا میں بھی سواری سے اتر آئوں گا اور آپ کے ساتھ پیدل چلوں گا۔ آپﷺ نے فرمایا: نہیں! تم اسی طرح اپنی سواری پر بیٹھے رہو اور میری باتیں غور سے سنو۔ پھر فرمایا: اے معاذؓ تم پر قرض بہت ہے۔ اگر کوئی تمہاری خدمت میں ہدیہ پیش کرے تو اسے قبول کر لینا‘ میری طرف سے خصوصی طور پر تجھے یہ اجازت ہے۔ آخری بات جو آپﷺ نے فرمائی اُسے سن کر حضرت معاذؓ زار وقطار رو دیے۔ آپﷺ نے فرمایا : ''اے معاذ! شاید آج کے بعد تم مجھ سے نہ مل سکو اور جب مدینہ واپس آئو تو تمہارا گزر میری قبر پر ہو‘‘۔ یہ سن کر حضرت معاذؓ زار وقطار رونے لگے اور بے ساختہ ان کی چیخ نکل گئی اور ہچکی بندھ گئی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved