امریکی جمہوریت ہو یا برطانوی‘ یا دنیا کا کوئی اور جمہوری ملک ہو‘ ان کی گڈ گورننس اور دیہات سے لے کر شہروں تک امن و امان اور حسنِ انتظام کا راز مقامی حکومتیں ہیں۔
یہ مقامی حکومتیں مکمل طور پر بااختیار ہوتی ہیں۔ ان کا دائرہ کار متعین ہوتا ہے۔ اس دائرے میں کوئی ریاستی یا صوبائی اور نہ ہی وفاقی حکومت یا کوئی ادارہ کسی قسم کی مداخلت کرتا ہے اور نہ ہی دستور کے مطابق وہ ایسا کر سکتا ہے۔ چند ماہ قبل امریکہ میں بچشم خود دیکھ کر میں پہلے بھی اس کا تذکرہ کر چکا ہوں کہ وہاں ہر سٹی کونسل بالعموم آٹھ دس لاکھ کی آبادی پر مشتمل ووٹروں کی منتخب کردہ ہوتی ہے‘ جو مقامی نوعیت کے تمام کام خود انجام دیتی ہے۔ پراپرٹی مینجمنٹ‘ گھروں کی تعمیرات کے نقشوں کی منظوری‘ علاقے کی سڑکیں‘ انتظامیہ اور پولیس کی تقرری‘ صفائی اور حفظانِ صحت‘ سکول‘ پارک‘ لائبریریاں اور ٹرانسپورٹ وغیرہ سب اس کے ذمے ہوتا ہے۔
مقامی حکومت کے پاس ٹیکس وصولی کے وسیع تر اختیارات ہوتے ہیں۔ علاقے کے ووٹر پائی پائی کے اخراجات کا احتساب سٹی کونسل کے اوپن اجلاس میں کرتے ہیں۔ سٹی کونسل اپنے زیر انتظام ہر شعبے اور گڈ گورننس کے بارے میں ووٹروں کے سامنے مکمل طور پر جوابدہ ہوتی ہے۔ اس کے برعکس وطنِ عزیز میں اوّل تو صوبائی حکومتیں بلدیاتی انتخابات ہونے نہیں دیتیں اگر ان پر الیکشن کمیشن یا عوامی دباؤ کی بنا پر یہ افتاد آن پڑے تو پھر وہ مقامی حکومتوں کو زیادہ سے زیادہ بے اختیار بنانے کیلئے طرح طرح کی حیلہ سازی اور اسمبلی میں ترامیم سے کام لیتی ہیں۔ سندھ‘ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں تو تاخیر سے سہی‘ بلدیاتی الیکشن ہو چکے ہیں مگر حکومتِ پنجاب گزشتہ چار برس سے ان انتخابات کو ٹال رہی ہے۔
اوائل جون 2025ء کو الیکشن کمیشن کے سیکرٹری نے ایک بیان میں بتایا کہ 31دسمبر 2021ء کو پنجاب میں بلدیاتی اداروں کی مدت مکمل ہو گئی تھی۔ اس کے صرف چند ماہ بعد انتخابات ہو جانے چاہئیں تھے‘ مگر حکومتِ پنجاب نے انتخابات کروانے کے بجائے 2019ء سے لے کر اب تک بلدیاتی قوانین میں پانچ مرتبہ ترامیم کی ہیں۔ اس لیت و لعل اور ٹال مٹول میں تحریک انصاف‘ نگران اور (ن)لیگ کی حکومتیں‘ سبھی شامل ہیں۔ تین بار تو نئی حلقہ بندیاں کی گئیں اور پھر منسوخ کی گئیں۔ الیکشن کمیشن کے سیکرٹری نے حکومتِ پنجاب کو خبردار کیا تھا کہ اگر اس نے مقامی حکومتوں کیلئے حتمی قانون سازی مکمل نہ کی تو پھر الیکشن کمیشن خود بلدیاتی انتخابات کروائے گا۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق پنجاب اسمبلی کی لوکل گورنمنٹ بل 2025ء کی قائمہ کمیٹی نے کہا ہے کہ ہم نے بل منظور کر لیا ہے جسے اسمبلی میں پیش کر کے باقاعدہ قانون کی شکل دی جائے گی۔ حکومتِ پنجاب دسمبر میں بلدیاتی انتخابات کا ارادہ رکھتی ہے۔
نئی قانون سازی کے مطابق پنجاب میں نیا بلدیاتی نظام متعارف کروایا جائے گا اور نئی حلقہ بندیاں ہو گی۔ یونین کونسل میں وارڈ سسٹم ختم کر دیا گیا ہے۔ ایک یونین کونسل میں نو ممبر منتخب ہوں گے۔ کچھ ہی مدت پہلے حکومتِ پنجاب نے ایک قانون بنایا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ڈپٹی کمشنر ضلعی کمیٹیوں کے چیئرمین ہوں گے۔ اس پر مسلم لیگ (ن) کے اندر اور باہر بہت اعتراضات ہوئے۔ اب قائمہ کمیٹی سے منظور ہونے والے بل میں ضلع کونسل کا چیئرمین عوامی نمائندوں میں سے ہوگا جبکہ شریک چیئرمین ڈی سی ہو گا۔ گویا حکومتِ پنجاب کا تکیہ ڈی سی پر ہے۔ دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تُو۔ آگے بڑھنے کے بجائے (ن) لیگ کی حکومت یہاں فیلڈ مارشل ایوب خان کا بلدیاتی نظام لانا چاہتی ہے جس میں منتخب اداروں کا چیئرمین ایک پبلک سرونٹ ہوگا۔ چیئرمین ہو یا شریک چیئرمین‘ ڈی سی کو تو منتخب مقامی حکومت کے سامنے جوابدہ ہونا ہے‘ لیکن اسے منتخب ادارے کے سر پر اس لیے مسلط کیا جائے گا تاکہ وہ صوبائی حکومت کے جاری کردہ احکامات کی مقامی حکومت سے یس باس کہہ کر تعمیل کروائے۔
پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں عدالتوں‘ صحافیوں اور سیاستدانوں کی طرف سے ہزار اعتراضات کیے جاتے تھے مگر ان کے زمانے میں لوکل گورنمنٹ سسٹم 2001ء جدید جمہوری ریاستوں کے نظام کے مطابق تھا۔ اس نظام میں منتخب نمائندے ہی یونین ‘ تحصیل اور ضلع کونسل میں خود مختار ہوتے تھے۔ بیورو کریسی ناظمِ ضلع کے سامنے جوابدہ ہوتی تھی۔ پنجاب حکومت حقیقی معنوں میں مقامی حکومتوں کا ایک خود مختار نظام قائم ہونے دے‘ جس میں منتخب ادارے کے سامنے بیورو کریسی جوابدہ ہوتی ہے۔ اگر مقامی حکومت میں ڈی سی شریک چیئرمین بن کر بیٹھے ہوں تو یہ اپنے ہی قائم کردہ نظام کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ اپنے علاقے کے ووٹروں کے سامنے جوابدہ منتخب مقامی حکومتوں کے عہدیدار اپنے اپنے علاقے میں بہترین کارکردگی کا اس لیے مظاہرہ کریں گے تاکہ انہیں سرخروئی حاصل ہو اور اگلی بار لوگ انہیں پھر منتخب کریں۔
نئی ترمیم کے مطابق ہر یونین کونسل نو اراکین کو منتخب کرے گی‘ اس کونسل میں تین چار غیر منتخب نمائندے بھی نامزد کیے جائیں گے‘ اس طرح بارہ تیرہ اراکین اپنا چیئرمین اور وائس چیئرمین منتخب کریں گے۔ یہ طریقہ یونین کونسل کو اپنے ہاتھ میں لینے اور آگے تحصیل کونسل میں اپنی مرضی کے امیدوار کو ووٹ دلوانے کیلئے اختیار کیا گیا ہے۔ یونین کونسل کے چیئرمین اور نائب کا براہِ راست انتخاب ہونا چاہیے۔ اسمبلی میں بل پیش کرنے سے پہلے قائمہ کمیٹی کو ایک بار پھر اس پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ ڈی سی کو چیئرمین یا نائب چیئرمین بنانے کی شق تو دورِ غلامی کی نشانی ہے اس کو واپس لیا جائے۔ قائمہ کمیٹی کے پاس کردہ بل میں یہ تجویز اچھی ہے کہ تحصیل کونسل کو ہر علاقے کی مقامی حکومت کا بنیادی یونٹ بنایا جائے۔ حکومتِ پنجاب صفائی و حفظانِ صحت‘ امن و امان اور ٹرانسپورٹ وغیرہ کی ذمہ داریاں مقامی حکومتوں کو دے کر اپنا بوجھ ہلکا کرے اور نگران کے فرائض انجام دے۔ تحصیلوں اور پھر اضلاع کی کارکردگی اور گڈ گورننس اور عوامی خدمت کے حوالے سے باقاعدہ سروے کروائے جائیں اور مستند غیر جانبدار اداروں کے ذریعے ان کی کارکردگی کے باقاعدہ جائزے لیے جائیں۔ اس طرح اپنی اپنی کارکردگی کو خوب سے خوب تر بنانے کا صحت مندانہ رحجان پروان چڑھے گا۔
حکومتِ پنجاب نے اگر ان بلدیاتی اداروں کو بیوروکریسی کے حوالے کرکے ان کی حقیقی روح کو قبض کرنے کا فیصلہ کرنا ہے تو پھر ان انتخابات پر اربوں روپے خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ہمارے حکمرانوں نے اپنے بیرونِ ملک قیام کے دوران اور نہیں تو لندن میں تو وہاں کی مقامی حکومت کی کارکردگی بچشم خود دیکھی ہو گی۔ لندن کی مقامی حکومت گریٹر لندن اتھارٹی‘ 32ٹاؤن کونسلز اور لندن سٹی کارپوریشن سے مل کر بنتی ہے۔ 32ٹاؤن کونسلز اور لندن سٹی کارپوریشن بنیادی نوعیت کی شہری خدمات جن میں سکول‘ صحت و صفائی اور امن و امان اور ٹرانسپورٹ وغیرہ کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ گریٹر لندن اتھارٹی جس کا سربراہ میئر ہوتا ہے‘ وہ لندن شہر کی اسمبلی کے ساتھ مل کر اس تاریخی شہر کے تاریخی ورثے کی حفاظت اور مستقبل کے ترقیاتی کاموں کی منصوبہ بندی کرتا ہے اور ٹاؤن کونسلز کی کارکردگی پر نظر رکھتا ہے۔ اس تقسیمِ کار سے برطانیہ کی حکومت کو داخلی اور خارجی طور پر اپنے فرائض بطریق احسن انجام دینے میں بہت آسانی ہوتی ہے۔
حکومتِ پنجاب اس تقسیم کار کے فیوض و برکات کو سمجھتے ہوئے مقامی حکومتوں کی کارکردگی کی نگرانی کرے۔ صوبائی حکومت صوبے کی سطح پر انفراسٹرکچر کو وسیع کرے‘ تعلیم عام کرے تاکہ کوئی بچہ سکول سے باہر نہ ہو۔ عام آدمی کو علاج معالجہ مہیا کرنے‘ نوجوانوں کو ہنر مند بنانے اور ملک کے اندر اور باہر زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع فراہم کرنے پر یکسوئی کے ساتھ توجہ دے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved