تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     13-08-2025

پاکستان کی ترقی اور استحکام

الحمدللہ قیامِ پاکستان کو 78 برس مکمل ہو گئے ہیں۔ پاکستان کا قیام اس اعتبار سے غیر معمولی واقعہ ہے کہ یہ ملک ایک نظریے اور فکر کی بنیاد پر قائم ہوا۔ برصغیر کے طول وعرض میں بسنے والے مسلمانوں کی غالب اکثریت نے قیامِ پاکستان کی بھرپور حمایت کی حتیٰ کہ ان مسلمانوں نے بھی قیامِ پاکستان کی تائید کی جو پاکستان کا حصہ نہیں بن سکتے تھے لیکن ان کی یہ سوچ تھی کہ ایک اسلامی فلاحی ریاست کا قیام فقط پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں کیلئے باعثِ برکت نہیں ہوگا بلکہ برصغیر کے تمام مسلمانوں اور امتِ مسلمہ کو بھی اس کے قیام سے تقویت حاصل ہو گی۔ پاکستان کا قیام لاکھوں مسلمانوں کی اجتماعی جدوجہد کا نتیجہ تھا۔ ہزاروں بوڑھوں کی داڑھیوں کو لہو میں تربہ تر کیا گیا‘ بڑی تعداد میں نوجوانوں کو خاک وخون میں تڑپایا گیا‘ بہت سی مائوں‘ بہنوں اور بیٹیوں کے دوپٹوں کو نوچا گیا‘ لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے اپنے گھر بار کو چھوڑا اور پھر جاکر یہ وطن حاصل ہوا۔ پاکستان کا قیام دو قومی نظریے کی بنیاد پر عمل میں آیا۔ تحریکِ پاکستان کے قائدین اس بات کو بھانپ چکے تھے کہ برصغیر کے مسلمان اپنے سیاسی اور اجتماعی حقوق سے اس وقت تک محروم رہیں گے جب تک ایک علیحدہ وطن حاصل نہیں کر لیا جاتا۔ علمائے اسلام کی اجتماعی تائید‘ مولانا ظفر علی خان کی صحافت‘ مولانا محمد علی جوہر کی خطابت‘ علامہ اقبال کی فکر انگیز شاعری اور قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت نے تحریکِ پاکستان میں ایسا رنگ بھرا کہ برصغیر کے طول وعرض میں یہ نعرہ گونجنے لگا کہ پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ الا اللہ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قائدینِ تحریکِ پاکستان اور عوام کی قربانیوں میں اس انداز سے رنگ بھرا کہ ہم آزاد مملکت کے حصول میں کامیاب ہو گئے۔ اگر انگریز سامراج اور مکار بنیے کے بس میں ہوتا تو پاکستان کبھی بھی آزاد نہ ہوتا۔ مکار ہندو بنیا ایک ہزار برس کی محکومیت کا بدلہ لینے کے لیے بیتاب تھا لیکن اس کی کوئی تدبیر مخلص مسلم قیادت اور قربانیاں دینے والے عوام کے سامنے مؤثر نہ ہو سکی۔
آج آزادی کی قدر وقیمت کو صحیح طور پر سمجھنا ہو تو بھارت کے حالات پر غور کرنا چاہیے۔ بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کی حالتِ زار کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس طرح ان کا مسلسل استحصال اور استیصال کیا جا رہا ہے۔ ان کے عقائد اور عبادات کی وجہ سے ان کو ظلم وتشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے‘ ان کی مسجدوں کو منہدم کیا جاتا ہے اور عید قربان کے موقع پر ان کو آزادی سے اپنا مذہبی فریضہ ادا کرنے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی۔ پاکستان ایک آزاد مملکت ہے‘ جہاں مسلمان اپنے دین پر عمل پیرا ہونے میں مکمل طور پر آزاد ہیں اور ارکانِ اسلام کی بجا آوری میں کسی قسم کی کوئی دقت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے پاکستان دفاعی اور عسکری اعتبار سے مضبوط اور مستحکم ملک ہے اور اندرونی وبیرونی دشمنوں سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ تاہم آزادی کی اس عظیم نعمت کے باوجود بہت سے پہلو ایسے ہیں جن میں مزید بہتری لانے کی ضرورت ہے۔
اسلامی فلاحی ریاست: پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ گو کہ پاکستان کا قیام اسلام اور دو قومی نظریے کی بنیاد پر عمل میں آیا لیکن اس کے باوجود ہم یہ جانچ سکتے ہیں کہ کئی مقامات پر قحبہ گری کے اڈے کام کررہے ہیں۔ اسی طرح کئی بڑے ہوٹلوں میں شراب کی خرید وفروخت جاری ہے اور بینکوں میں سودی لین دین بھی جاری وساری ہے۔ یہ تمام باتیں اسلامی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ ان باتوں کی اصلاح کے لیے دینی جماعتیں اجتماعی اعتبار سے جدوجہد کرتی رہتی ہیں لیکن ریاست کو اس حوالے سے مؤثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں امیر اور غریب کا فرق تاحال موجود ہے اور انصاف کی یکساں فراہمی کے بجائے طبقاتی تفریق سے کام لیا جاتا ہے۔ کئی مرتبہ بے اثر غریب اور کمزور لوگ انصاف کے حصول میں ناکام ہو جاتے ہیں جبکہ ایک اسلامی اور ایک فلاحی مملکت میں قانون اور سہولتوں کو عوام کے لیے یکساں ہونا چاہیے اور اس حوالے سے کسی قسم کی تفریق کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔
معاشی ترقی: پاکستان کے عوام کی بھرپور خواہش کے باوجود پاکستان ابھی تک معاشی اعتبار سے مستحکم نہیں ہو سکا جس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ان میں سے ایک اہم وجہ کرپشن کرنے والوں کا احتساب نہ ہونا ہے۔ اس سلسلے میں حکومتوں کو سیاسی تفریق کے بغیر ہر کرپٹ عنصر کا سختی سے احتساب کرنا چاہیے۔ اسی طرح ملکی معیشت کے استحکام کے لیے سود سے نجات حاصل کرنا ازحد ضروری ہے۔ سود اللہ اور اس کے رسول کے خلاف اعلانِ جنگ ہے اور اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے والا کوئی بھی شخص کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اس لیے جب تک ہم سودی لین دین کا خاتمہ نہیں کریں گے‘ اس وقت تک ملک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کے بہت سے تعلیم یافتہ نوجوان پاکستان میں صنعتی ترقی نہ ہونے اور مؤثر ملازمتیں نہ ملنے کے سبب پاکستان سے نقل مکانی کر کے یورپ اور دیگر ممالک میں آباد ہونا چاہتے ہیں۔ اس وجہ سے پیشہ ورانہ مہارت رکھنے والے لوگوں کی بڑی تعداد بیرونِ ممالک خدمات انجام دے رہی ہے۔ ملک سے ذہین افراد کی نقل مکانی بہت بڑا المیہ ہے۔ حکومت کو اس حوالے سے صنعتی ترقی پر بھرپور توجہ دینی چاہیے اور درآمدات کو کم کر کے برآمدات کو بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اپنے ملک میں بننے والی مصنوعات کی حوصلہ افزائی کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس حوالے سے حکومت اور سماج کی مؤثر شخصیات کو اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا چاہیے۔ پاکستان میں صنعتی ترقی کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ توانائی کا بحران ہے جس کے حل کے لیے تاحال کوئی مؤثر حکمت عملی وضع نہیں کی جا سکی۔ پاکستان میں ہر سال بارشوں کے نتیجے میں سیلابی دھارے ملک کے مختلف حصوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ اگر ملک کے مختلف علاقوں میں ڈیم بنائے جائیں‘ شمسی توانائی اور پن چکیوں کا مؤثراستعمال کیا جائے تو بجلی کے بحران پر بہ آسانی قابو پایا جا سکتا ہے۔ ملک میں پیدا ہونے والی مصنوعات سستے داموں بن سکتی اور بین الاقوامی مصنوعات کا مقابلہ کر سکتی ہیں۔
سیاسی استحکام: پاکستان تاحال سیاسی اعتبار سے مستحکم نہیںہو سکا۔ 1970ء میں انتقالِ اقتدار کے قضیے نے ملک کو دو لخت کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اس وقت سے لے کر آج تک‘ ہر انتخاب میں دھاندلی کا شور سننے کو ملتا ہے۔ اس حوالے سے ریاست اور اس کے ماتحت اداروں کو اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا چاہیے اور سیاسی جماعتوں اور عوام کے تحفظات کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ترقی: کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے تعلیم اور صحت کے شعبوں کا مستحکم ہونا انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان کے بجٹ میں تعلیم اور صحت کے شعبے کے لیے مناسب وسائل کا تعین نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے لوگ معیاری تعلیم اور مناسب علاج ومعالجہ کی سہولتوں سے محروم نظر آتے ہیں۔ ان شعبوں پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
جرم وسزا کا مؤثر نظام: پاکستان میں ایک عرصے سے جرم و سزا کا مؤثر نظام موجود نہیں۔ جرائم کی بیخ کنی کے لیے عدالتوں کو مقدمات کے فیصلے جلد کرنے چاہئیں اور مجرموں کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ اسی طرح بے گناہ افراد کی زندگی کے ماہ وسال کو بھی ضائع ہونے سے بچانا چاہیے۔ اس طریقے سے ملک میں جہاں قانون کا بول بالا ہو گا وہیں عوام الناس کی زندگیوں میں بھی بہتری آئے گی۔اگر مذکورہ بالا شعبوں پر بھرپور توجہ دی جائے تو یقینا پاکستان ایک مضبوط اور مستحکم ریاست بن سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے فضل وکرم سے پاکستان کو مضبوط اور مستحکم فرمائے اور اس کو ترقی اور استحکام کی شاہراہ پر چلا دے‘ آمین!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved