تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     14-08-2025

ابو العجائب! …(حصہ اول)

''عَجَائِب‘‘ عجیب کی جمع ہے‘ اسے عربی میں عَجِیْبَۃ‘ اُعْجُوبَۃ اور عُجاب بھی کہتے ہیں‘ انگریزی میں اسے Miracle کہتے ہیں۔ اس کے معنی معجزہ بھی کیا گیا ہے‘ لیکن اردو اور انگریزی وغیرہ میں عقل کو دنگ کرنے والی ہر بات کو معجزہ کہہ دیتے ہیں‘ حالانکہ معجزہ اسلام کی ایک خاص اصطلاح ہے اور یہ ''خاصۂ نبوت‘‘ ہے۔ اسی طرح ہمارے ہاں عام طور پر بے قصور افراد کو معصوم کہہ دیا جاتا ہے‘ حالانکہ عصمت خاصّۂ نبوت ہے اور یہ صرف نبی کے لیے خاص ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی ایک ''اُعْجُوْبَۃ‘‘ ہیں‘ بلکہ ابو العجائب ہیں۔ وہ ناقابلِ پیش گوئی تو ہمیشہ سے تھے‘ لیکن اب اُن سے مزید حیرت انگیز باتوں کا صدور ہو رہا ہے۔ وہ اپنے آپ کو امن کے پیامبر کے طور پر منوانا چاہتے ہیں‘ سو وہ نہایت شدت کے ساتھ ''نوبیل امن انعام‘‘ کے حصول کے خواہش مند ہیں۔ اسی لیے انہوں نے حالیہ پاک بھارت جنگ بند کرانے کا کریڈٹ لیا اور درجنوں بار اس کا ذکر کر چکے ہیں۔ پاکستان نے تو اسے فوراً تسلیم کر لیا‘ مگر بھارتی وزیراعظم مودی تاحال اسے تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہیں‘ وہ اسے اپنی سبکی اور اہانت سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ٹرمپ سے جنگ بندی کے لیے رابطہ کیا۔ مزید یہ کہ ٹرمپ نے آذربائیجان اور آرمینیا‘ نیز تھائی لینڈ اور کمبوڈیا میں بھی صلح کرا دی ہے اور ان دونوں تنازعات کے سب فریقوں نے اس کا اعتراف کر کے ٹرمپ کو ''نوبیل امن انعام‘‘ دینے کی سفارش بھی کر دی ہے۔ اب وہ نہایت شدت کے ساتھ روس اور یوکرین کا مسئلہ حل کرانا چاہتے ہیں تاکہ ''نوبیل امن انعام‘‘ کے لیے ان کا استحقاق مزید بڑھ جائے۔
''عدُوّ شرّے بر انگیزد کہ خیر ما دراں باشد‘‘ کے مصداق پاکستان کو اس کا فائدہ پہنچا اور ٹرمپ نے تمام تر روایات کے برعکس فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کو وائٹ ہائوس میں ظہرانے کی دعوت دے کر ان کے ساتھ دو گھنٹے کی نشست کی۔ اب دوسری بار وہ امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ کی تبدیلی کی تقریب میں شرکت کیلئے امریکہ گئے۔ واضح رہے کہ سینٹ کام کے سابق سربراہ جنرل مائیکل ایرک کوریلا سینیٹ کی دفاعی کمیٹی میں پاکستان کا ذکر اچھے انداز میں کر چکے تھے‘ اس موقع پر فیلڈ مارشل کی سینٹ کام کے نئے سربراہ ایڈمرل بریڈ کُوپر کیساتھ بھی ابتدائی تعارفی ملاقات ہو چکی ہے اور انہوں نے ایڈمرل کُوپر کو پاکستان کے دورے کی دعوت بھی دے دی ہے‘ یہ اچھی شروعات ہیں۔ پاکستان کیساتھ امریکہ کا درآمدی اور برآمدی محصولات کا معاملہ بھی طے ہو چکا ہے اور امریکہ میں پاکستانی درآمدات پر ٹیکس کی شرح 19فیصد مقرر کی گئی ہے۔ اس کے برعکس ٹرمپ بھارت پر دبائو ڈال رہا ہے‘ وہ اس کی معیشت کو مردہ قرار دے چکا ہے اور سرِدست بھارتی درآمدات پر ٹیرف پچاس فیصد کر دیا ہے۔ وقتی طور پر تو پاکستان کیلئے یہ بات اطمینان بخش ہے کہ کافی عرصے کے بعد امریکہ کا رویہ پاکستان کے بارے میں مثبت ہے اور توقعات سے بڑھ کر ہے‘ لیکن اہلِ نظر کو اندیشہ ہے کہ یہ رویہ عارضی بھی ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ اب پاکستان کیساتھ امریکہ کے زیادہ مفادات وابستہ نہیں ہیں۔ درحقیقت اب افغانستان میں امریکہ کی دلچسپی کم ہے اور ٹرمپ کا رویہ بدلتے دیر نہیں لگتی۔ الغرض امریکہ کی جانب سے ٹھنڈی ہوائیں اطمینان کا سبب تو ہیں‘ لیکن ان پر دھمال ڈالنے اور جشن منانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔
صدر ٹرمپ کا اصل مسئلہ یوکرین کی جنگ بندی ہے‘ ان کا خیال تھا کہ یہ ہمالیہ سر کرنا اُن کیلئے آسان ہو گا اور صدر پوتن بآسانی راضی ہو جائیں گے‘ اسی سبب انہوں نے صدر زیلنسکی کی وائٹ ہائوس میں بے عزتی بھی کی تھی۔ مگر اُنکی توقع کے برعکس پوتن آسان ثابت نہیں ہوئے‘ اسلئے ٹرمپ نے انہیں دبائو میں لانے کیلئے بھارت پر دبائو بڑھایا کہ وہ روس سے تیل کی خریداری کا معاہدہ منسوخ کرے۔ بھارت اپنی ضرورت کا تقریباً 40 فیصد تیل روس سے درآمد کرتا ہے اور روسی درآمدی تیل کو ریفائن کر کے یورپی ممالک کو برآمدکرکے 120 ارب ڈالر تک کا کاروبار بھی کرتا ہے۔ پس ٹرمپ چاہتے ہیں کہ بھارت روس سے تیل خریدنا چھوڑ دے تاکہ اس پر معاشی دبائو پڑے اور وہ یوکرین سے جنگ بندی پر راضی ہو جائے۔
اس کا دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ بھارت دو کشتیوں کا سوار ہے‘ ایک طرف چین مخالف اتحاد ''کواڈ (آسٹریلیا‘ انڈیا‘ جاپان اور امریکہ)‘‘ کا رکن ہے اور دوسری طرف امریکہ مخالف اتحاد ''برکس کا رکن ہے۔ برکس کا بنیادی مقصد بین الاقوامی تجارت کے لیے ڈالر کے متبادل کرنسی متعارف کرانا ہے تاکہ عالمی پالیسیوں پر امریکہ کی اجارہ داری اور اثرات کم ہوں۔ متبادل کرنسی رائج ہونے کی صورت میں ڈالر کی شرحِ تبادلہ کمزور ہو گی اور یہ دنیا پر امریکی تسلّط کی کمزوری کا سبب بنے گی۔ بظاہر عالمی تجارت کے لیے متبادل کرنسی چین کا ''یوآن‘‘ ہی قرار پائے گا‘ کیونکہ روس بہت کمزور ہو چکا ہے‘ پس امریکہ چاہتا ہے کہ بھارت یکسو ہو کر امریکی کیمپ میں آ جائے۔ماہرین کا خیال ہے: انجامِ کار بھارت امریکہ کے کیمپ میں جائے گا‘ کیونکہ سرحدی تنازع کے سبب اُس کی چین کے ساتھ پائدار دوستی قائم نہیں ہو سکتی۔ امریکہ کے ساتھ اس کی تجارت کی مقدار بھی زیادہ ہے اور توازن بھی بھارت کے حق میں ہے‘ جبکہ چین کے ساتھ تجارت میں توازن چین کے حق میں ہے‘ نیز بھارت کو امریکہ سے جدید ترین اسلحہ بھی چاہیے۔ امریکہ اور اہلِ مغرب بھارت کی ناز برداری اس لیے کر رہے تھے کہ اسے چین کے خلاف ایک متوازی جارح قوت کے طور پر استعمال کر سکیں‘ مگر حالیہ پاک بھارت جنگ میں اُس کی ناقص اور مایوس کن کارکردگی نے اس پر اہلِ مغرب کے اعتماد کو کافی ٹھیس پہنچائی ہے‘ اب بھارت دوبارہ اس اعتماد کی بحالی کے لیے کوشاں ہے۔ چنانچہ وہ انتہائی تیز رفتاری سے جدید ترین مہلک اسلحہ جمع کرنے میں مصروف ہے اور خطرہ ہے کہ وہ ایک بار پھر پاکستان پر حملہ کرکے دنیا پر اپنی جارحانہ قوت کی دھاک بٹھانا چاہے گا۔
سرِدست بھارت نے جوابی دبائو کی حکمتِ عملی بھی اختیار کی ہے‘ مودی شنگھائی تعاون کونسل کے اجلاس میں بھی شرکت کرنے جا رہا ہے اور بھارت نے امریکہ سے اسلحے کی خریداری کے معاہدے پر وقتی طور پر عمل درآمد بھی موقوف کر دیا ہے۔ 15 اگست کو امریکی صدر ٹرمپ کی روسی صدر پوتن سے الاسکا میں ملاقات طے پائی ہے‘ مگر معاملات کا طے ہونا بظاہر آسان نہیں ہے‘ کیونکہ روس چاہتا ہے کہ کریمیا سمیت یوکرین کے مقبوضہ علاقوں پر اس کی حاکمیت کو تسلیم کر لیا جائے‘ یوکرین غیر مسلّح ہوکر بفر سٹیٹ کے طور پر رہے اور نیٹو میں شمولیت کا ارادہ ترک کر دے۔ الغرض بھارت کی امریکہ کے ساتھ تعلقات کی جلد بحالی روس یوکرین جنگ بندی کے معاہدے پر موقوف ہے‘ کیونکہ بھارت چین کے مقابلے میں امریکہ کا سٹرٹیجک شراکت دار ہے اور بالآخر وہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اختیار کرے گا اوردونوں کے تعلقات بحال ہو جائیں گے۔اس کے مقابلے میں پاکستان چین کا سٹرٹیجک شراکت دار ہے‘ کیونکہ دونوں کے بھارت کے ساتھ قدیم تنازعات ہیں۔ مگر چین کی حکمتِ عملی تاحال جنگوں میں الجھنے کی نہیں ہے‘ کیونکہ وہ سائنس‘ ٹیکنالوجی‘ معاشی اور حربی صلاحیت کے اعتبار سے امریکہ کے مقابل آنا چاہتا ہے‘ یعنی عالمی سطح پر متوازی سپرپاور بننا چاہتا ہے‘ اس لیے وہ بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات جاری رکھے ہوئے ہے اور دونوں ممالک کے مابین تجارت کا توازن بھی چین کے حق میں ہے۔ اس کے برعکس بھارت علاقائی ڈان اور منی سپرپاور بننا چاہتا ہے‘ جبکہ پاکستان یہ حیثیت حاصل کرنے میں اُس کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے اور حالیہ پاک بھارت جنگ کے نتیجے میں بھارت کی علاقائی منی سپر پاور کے زعم کو بہت دھچکا لگا ہے‘ وہ پیچ وتاب کھا رہا ہے اور جدید ترین اسلحہ جمع کرنے کی تگ ودو میں لگا ہوا ہے۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved