بھارت کی اپوزیشن جماعت کانگرس کے صدر راہول گاندھی نے بھارت کے گزشتہ عام انتخابات میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی دھاندلی سے پردہ اٹھاتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے یہ انتخابات انڈین الیکشن کمیشن کی ملی بھگت سے لڑے اور کھل کر دھاندلی کی۔ راہول گاندھی نے اپنے ایک بیان میں انتخابات میں ووٹ کی چوری کو بھارتی آئین و جمہوریت کے خلاف ایک بڑا فراڈ قرار دیا ہے۔ راہول گاندھی نے بھارتی جمہوریت کے جھوٹ اور غلط بیانی سے پردہ اٹھاتے ہوئے مزید کہا کہ 2024ء کے بھارتی لوک سبھا انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے ووٹر لسٹوں میں فرضی اندراجات اور جعلی رجسٹریشن کے ذریعے بڑے پیمانے پر دھاندلی کی۔ صرف ایک حلقے میں‘ جس کی کانگرس کی تحقیقات کرائی ہیں‘ ڈیڑھ لاکھ سے زائد جعلی ووٹ شامل تھے۔ ان کے مطابق یہ سب کچھ انڈین الیکشن کمیشن کی ملی بھگت سے ہوا جس نے نہ تو شفاف ووٹر لسٹیں فراہم کیں اور نہ ہی پولنگ سٹیشنوں کی سی سی ٹی وی فوٹیج جاری کی۔
میرا ہمیشہ سے مؤقف رہا ہے کہ اگر روایتی بیلٹ پیپر سے اس پیمانے پر دھاندلی ممکن نہیں‘ لیکن الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے ووٹ ڈالنا‘ ان کی گنتی اور تصدیق کے عمل کو محدود اور قابو میں رکھنا ممکن ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی ساکھ پر دنیا بھر میں سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ ونیزویلا میں 2017ء میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے ہونے والے انتخابات کے حوالے سے یہ مشینیں بنانے والی کمپنی سمارٹ ٹیک کے چیف ایگزیٹو افسر نے خود اعتراف کیا کہ انتخابات میں ووٹوں کی تعداد ایک ملین سے زیادہ بڑھا کر دکھائی گئی۔ فلپائن میں 2010ء کے الیکشن میں ووٹنگ مشینوں میں لگے میموری کارڈ پہلے سے پروگرام شدہ نکلے اور برازیل میں 2018ء میں ہونے والے انتخابات میں ووٹنگ مشینوں کے ذریعے ووٹ پلٹنے کے الزامات لگے۔ یہ مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ اگر الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے سافٹ ویئر یا نتائج جمع کرنے کے نظام تک اندرونی رسائی حاصل ہوجائے تو چند گھنٹوں میں الیکشن کا نتیجہ بدلنا ممکن ہے‘ بغیر اس کے کہ عام ووٹر یا مبصر کو اس کی خبر ہو۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو چونکہ اصل حقائق کا ادراک نہیں ہوتا‘ اس لیے 2008ء کے انتخابات کے بعد تقریباً تمام سیاسی جماعتوں‘ سول سوسائٹی کی تنظیموں اور بین الاقوامی مبصرین نے سفارشات پیش کیں کہ پاکستان میں بھی آئندہ انتخابات بھارت کی طرح الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے کرائے جائیں۔ میں نے بھارتی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا قریب سے جائزہ لینے کیلئے مئی 2010ء میں بھارتی الیکشن کمیشن کے سربراہ سے تین گھنٹے طویل ملاقات کی۔ یہ ملاقات پاکستان کے ہائی کمشنر شاہد ملک کے توسط سے انڈین الیکشن کمیشن سیکرٹریٹ میں ہوئی۔ اس سے قبل شاہد ملک نے مجھے انڈین سول سوسائٹی کی مرتب کردہ ایک رپورٹ کا خلاصہ پیش کیا جس کے مطابق الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے سافٹ ویئر میں ایک ایسی چپ لگائی جاسکتی ہے جس کے ذریعے ووٹ مخصوص سیاسی جماعت کے کھاتے میں ڈالے جاسکتے ہیں‘ اور یہ ڈیوائس محض دس ڈالر میں دستیاب ہے۔
جب میں نے بھارتی الیکشن کمیشن کے اراکین کے سامنے اپنے یہ خدشات رکھے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے دھاندلی ختم نہیں ہوسکتی کیونکہ حقیقت میں یہ ایک ایسا مرکزی کنٹرول پوائنٹ فراہم کرتی ہے جس سے نتائج آسانی سے تبدیل کیے جاسکتے ہیں۔ میرا مؤقف سننے کے بعد بھارتی الیکشن کمیشن کے سربراہ نے کہا کہ مجرم ہمیشہ کوئی نہ کوئی راستہ نکال ہی لیتے ہیں۔ پھر انہوں نے حیرت سے پوچھا کہ مجھے ایسی معلومات کہاں سے ملیں؟ میں نے ان کی تسلی کے لیے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کی تحقیق اور فلپائن کے دورے کے دوران حاصل کردہ معلومات کا حوالہ دیا۔ اُس ملاقات میں انڈین الیکشن کمیشن کے رکن بشیر قریشی بھی موجود تھے جو بعدازاں بھارت کے چیف الیکشن کمشنر بنے۔ انہوں نے 2014ء میں پاکستان کا دورہ بھی کیا۔ اس دورے میں میری اُن سے ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں ملاقات ہوئی‘ جہاں انہوں نے میرے انتخابی وژن کی تعریف کی۔ انڈین الیکشن کمیشن کے سربراہ سے ہونے والی ملاقات میں مَیں نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے متعلق جن خدشات کا اظہار کیا تھا‘ بعد ازاں وہ بالکل سچ ثابت ہوئے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو انتخابی دھاندلی کا سب سے مؤثر ہتھیار بنا لیا۔ ووٹ تبدیل کرنے کے فارمولے کو ٹیکنالوجی کا نام دے کر عوامی مینڈیٹ کی تضحیک کی گئی اور ہر انتخاب کو اپنے حق میں موڑا جاتا رہا۔ بھارتی الیکشن کمیشن سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے متعلق ملاقات پر مبنی ایک جامع رپورٹ میں نے پاکستان واپسی پر صدرِ مملکت‘ چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف الیکشن کمشنر کو بھجوائی تھی‘ جو آج بھی ریکارڈ میں موجود ہے۔
عمران خان نے بھی اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں پاکستان میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کا منصوبہ بنایا۔ اس مقصد کے لیے وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کے ذریعے اکتوبر 2023ء کے انتخابات‘ جو بعد ازاں فروری 2024ء میں منعقد ہوئے‘ کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال کا دباؤ الیکشن کمیشن پر ڈالا گیا۔ وزرا سے بین الاقوامی کمپنیوں کو مشینوں کا ٹھیکا دینے کے لیے 50 ارب روپے کے فنڈز مختص کرنے کے اعلانات بھی کروائے گئے۔اس منصوبے میں اُس وقت کے صدرِ مملکت عارف علوی‘ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید عمران خان کے پشت پناہ تھے۔ میں نے اس منصوبے پر خبردار کیا تھا کہ یہ دھاندلی کا ایک اہم ذریعہ ثابت ہو گا۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے عمران خان کی دھمکیوں اور دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے فیصلہ کیا اور بھارت کے آزمودہ انتخابی فراڈ ماڈل کو پاکستان میں نافذ نہیں ہونے دیا۔
اُنہی دنوں سینیٹ کی انتخابی اصلاحات کمیٹی کے چیئرمین مرحوم تاج حیدر کی خصوصی دعوت پر میں نے کمیٹی اجلاس میں ایک گھنٹے کی بریفنگ دیتے ہوئے اس منصوبے کو پاکستان کے لیے نقصان دہ قرار دیا۔ میری بریفنگ کے بعد ملکِ عزیز میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے حق میں کی جانے والی مارکیٹنگ ناکام ہوگئی۔ اس کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کے اراکین موجود تھے‘ جنہوں نے میرے دلائل سے اتفاق کیا‘ لیکن جب الیکشن کمیشن کی ٹیم نے اپنے مؤقف کا اظہار کیا تو حکومتی وزرا جن میں اعظم سواتی‘ شبلی فراز‘ فواد چودھری اور دیگر اراکین شامل تھے‘ آپے سے باہر ہوگئے۔ دھمکیاں دیں اور چیف الیکشن کمشنر کے خلاف نعرے بازی شروع کردی‘ جس کے بعد سینیٹر مرحوم تاج حیدر کو اجلاس مؤخر کرنا پڑا۔ اُس وقت کی اپوزیشن کے اراکین اعظم نذیر تارڑ‘ فاروق ایچ نائیک اور مصطفی نواز کھوکھر اس منظر کے گواہ ہیں۔ بعد ازاں چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے جرأت مندی سے اعظم سواتی اور فواد چودھری کے خلاف توہین الیکشن کمیشن کے نوٹس جاری کیے اور صدرِ مملکت عارف علوی کے معاندانہ رویے کی مذمت کی۔ میں نے صدرِ مملکت کو یاد دلایا کہ جب وہ 2015ء میں اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے فلپائن گئے تھے تو واپسی پر سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کو رپورٹ دیتے ہوئے فلپائنی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ماڈل کو پاکستان کے لیے نامناسب قرار دیا تھا۔
عوام کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین درحقیقت انتخابات میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کا ایسا خفیہ ہتھیار ہے جو انتخابی دھاندلی کو انتہائی آسان بنا سکتا ہے اور اس سسٹم کے ذریعے مرضی کے نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved