خوشی کے موقع کو شکووں سے آلودہ کرنا ایک بیمار ذہن کی علامت ہے۔
شادی بیاہ پر ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ چند قریبی رشتہ دار روٹھ کر الگ ہو بیٹھتے ہیں۔ گھر میں افراتفری کا سماں ہوتا ہے۔ صاحبِ خانہ کو بے پناہ مصروفیت میں اچانک اطلاع ملتی ہے کہ لڑکی کی پھوپھی نے شادی میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔ باپ بیٹی کی جدائی سے رنجیدہ مگر دل کڑا کر کے انتظامات میں لگا ہوتا ہے کہ کوئی کمی نہ رہ جائے جو عین موقع پر شرمندگی کا باعث بنے۔ اسے جب اچانک خبر ملتی ہے کہ بہن یا بہنوئی ناراض بیٹھے ہیں تواس کی ذہنی کوفت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اب اگر وہ ان کو منانے نہیں گیا تو وہ شادی میں شریک نہیں ہوں گے۔ اگر پھوپھی دوسرے شہر میں رہتی ہے تو اسے منانے کے لیے وہ ڈیڑھ دو دن برباد کرتا ہے۔ بہن آ تو جاتی ہے مگر منہ بسورے رہتی ہے۔ تقریب کا رنگ اس کے رویے سے پھیکا پڑ جاتا ہے۔
ہمیں اپنے ارد گرد ایسے کردار بہت ملیں گے۔ عطا الحق قاسمی صاحب نے اپنے ناقابلِ فراموش ڈرامے ''خواجہ اینڈ سنز‘‘ میں داماد کا ایسا ہی کردار تخلیق کیا جو خوشی کے ہر موقع پر رنگ میں بھنگ ڈالتا ہے۔ بوڑھا خسر بے چارہ بیٹی اور گھرانے کی خوشی کے لیے اسے منانے پر لگا رہتا ہے۔ ایسے کردار اب ہم ہر برس 14اگست کو بھی دیکھتے ہیں۔ قوم جشنِ آزادی منا رہی ہوتی ہے اور وہ منہ بسورے بیٹھ جاتے ہیں‘ کون سی آزادی؟ ہم تو غلام ہیں‘ ہم تو گوروں کی غلامی سے نکل کر مقامی آقاؤں کے غلام ہو گئے۔ اس طرح کے جملوں سے یہ خواتین و حضرات دل کی بھڑاس نکالتے ہیں۔ کسی کی شکایت سیاسی ہوتی ہے‘ کسی کی معاشی۔ یہ ممکن ہے کہ شکایت روا ہو لیکن اس کوظاہر کرنے کا کیا یہی موقع ہے؟ ہو سکتا ہے بہن کو بھائی سے جائز شکوہ ہو مگر کیا اس کا اظہار اس وقت کرنا چاہیے جب بھائی بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے خوشی کے ساتھ ایک بڑے کرب سے گزر رہا ہے؟ دکھ اور مسرت کے ان ملے جلے لمحوں میں کیا اس رشتے کا تقاضا یہی ہے کہ اسے مزید پریشان کیا جائے؟
یہ ایک نفسیاتی مرض ہے جو اَب شخصی نہیں رہا‘ قومی ہو گیا ہے۔ پاکستان کے ساتھ ہمارا تعلق ہمارے تعصبات اور مفادات کا اسیر ہو گیا ہے۔ ہمیں آج اس پاکستان سے کوئی دلچسپی نہیں جس میں ہمارا لیڈر جیل میں ہے۔ ہمیں اس ملک سے کوئی محبت نہیں جہاں ہم حسبِ منشا زندگی نہیں گزار رہے۔ ہمیں کچھ اندازہ نہیں ہوتا کہ پاکستان کا شہری ہونا ہی کتنی بڑی نعمت ہے۔ اُن کو چھوڑ کر جنہوں نے پاکستان کے لیے ہجرت کی‘ یہاں بسنے والوں کی اکثریت کا یہ ملک ہی نہیں‘ وطن بھی ہے۔ وہ نسلوں سے یہاں آباد ہیں۔ وطن سے محبت فطری ہے۔ یہ تعلق انسانی رشتوں جیسا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے والدین یا بچوں سے محبت نہیں کرتا تو وہ ذہنی بیمار ہے کیونکہ یہ غیر فطری ہے۔ یہی معاملہ وطن کا بھی ہے۔ جو وطن سے محبت نہیں کرتا وہ مریض ہے۔ اسے علاج کی ضرورت ہے۔
ہمیں اپنے بچوں سے شکایت ہو سکتی ہے۔ والدین اور بہن بھائیوں سے بھی۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ہم ان کے بدخواہ ہو جائیں۔ ان کی بربادی میں خوشی محسوس کریں۔ ناراضی میں بھی ماں یا بھائی کی بیماری کی خبر آدمی کو بے چین کر دیتی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ کون سی گھڑی ہو کہ وہ ماں کے سرہانے کھڑا ہو۔ اس کی زبان پر بے اختیار دعائیں جاری ہو جاتی ہیں۔ اگر کسی میں یہ جذبہ پیدا نہیں ہوتا تو اسے اپنا علاج کروانا چاہیے۔ اسی طرح اگر کسی کو ملک کی کامیابی پر خوشی نہیں ہوتی اور بربادی پر اسے سکون ملتا ہے تو وہ ذہنی بیمار ہے۔ اسے کسی نفسیاتی معالج سے رجوع کرنا چاہیے۔
ہمیں اس نظام سے بہت سی شکایتیں ہو سکتی ہیں جو یہاں نافذ ہے۔ ان افراد سے ہو سکتی ہیں جو اس نظام کے کل پرزے ہیں۔ یہ شکوے مگر ملک کے ساتھ ایک احساسِ وابستگی سے جڑے ہوئے ہیں۔ بھارت کا نظام بھی کم و بیش ایسا ہی ہے مگر ہماری بلا سے کہ وہاں کی پولیس کیسی ہے۔ ہمیں اس سے شکایت نہیں ہوتی۔ پاکستان کی پولیس سے ہوتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔ بات اگر یہیں تک رہے تو اس میں خیر ہے۔ نظام میں بہتری کی خواہش ملک سے محبت کی دلیل ہے۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم نظام کی جگہ ملک کو دے دیتے ہیں اور اپنے تعصب کو وطن کا حریف بنا دیتے ہیں۔ اگر ہمارا لیڈر نہیں تو پھر ملک بھی نہیں۔ معیشت اگر کسی دوسرے کے ہاتھوں بہتر ہوتی ہے تو ہمیں اس سے خوشی نہیں۔ دشمن پر فتح اگر کسی کی بہادری کا نتیجہ ہے تو یہ بہادری و دلیری ہمیں ایک آنکھ نہیں بھاتی کہ ہمیں اس سے شکایت ہے۔ ہمیں وطن سے تعلق کو ہر تعصب اور وابستگی سے آزاد کر دینا چاہیے اور یہی حب الوطنی ہے۔
بطور مسلمان میں یہ اضافہ کروں گا کہ میرے لیے دنیا کا ہر رشتہ‘ خدا اور اس کے رسو ل کی ہدایات کے تابع ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ نے جو احکامات دیے ہیں‘ جو آداب سکھائے ہیں‘ میری محبت کا اظہار ان کے مطابق ہونا چاہیے۔ والدین ہوں یا اولاد‘ وطن ہو یا قبیلہ‘ ہر محبت خدا کی ہدایت کے تابع ہونی چاہیے۔ یہ ہدایت مجھے وطن‘ قبیلے اور انسانی رشتوں سے محبت سکھاتی ہے‘ الا یہ کہیں خیر و شر میں امتیاز اور انصاف کا امتحان درپیش ہو۔ اس میں میرے لیے حکم یہی ہے کہ میں خیر اور انصاف کے ساتھ کھڑا ہو جاؤں۔
14اگست ہماری تاریخ کے ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ یہ ہماری آزادی کا دن ہے۔ تاریخ نے بیسویں صدی میں ایک بڑی کروٹ لی۔ دنیا سلطنتوں کے عہد سے نکل کر قومی ریاستوں کے دور میں داخل ہوئی۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارا وطن اور ملک ایک ہیں۔ جس نسل نے ہجرت کی‘ اسے ایک تاریخی حادثے کا سامنا کرنا پڑا جس نے ان کے وجود کو دو حصوں میں بانٹ دیا۔ ان کی نئی نسل کو اس المیے کا سامنا نہیں۔ اب یہاں بسنے والا شاید ہی کوئی ایسا ہو‘ پاکستان جس کے لیے وطن نہ ہو۔ اس لیے اب کسی کے لیے کوئی تاریخی ابہام باقی نہیں رہا۔ پاکستان سے محبت سب کے لیے فطری ہے۔ اس کا اظہار ہونا چاہیے اور ان لوگوں کو سنجیدگی کے ساتھ اپنے رویے کا جائزہ لینا چاہیے جن کی وطن سے محبت کسی سیاسی تعلق یا علاقائی و نسلی عصبیت کے تابع ہو کر رہ گئی ہے۔
پاکستان کی جیت ہم سب کی جیت ہے۔ پاکستان سے محبت پر کسی کی اجارہ داری نہیں۔ پاکستان کی کامیابیوں پر ہمیں خوش ہونا چاہیے۔ ارشد ندیم سے کروڑوں افراد کا کوئی رشتہ نہیں مگر اس کی کامیابی پر ہم سب خوش ہوئے کہ وہ ''ہماری‘‘ کامیابی تھی۔ یہی احساس فوج‘ کھلاڑیوں‘ سائنسدانوں اور دوسرے شعبوں سے وابستہ افراد کے لیے ہونا چاہیے جن کی کامیابی کو دنیا پاکستان کی کامیابی سمجھتی ہے۔ ہمیں شکایت کا حق ہے لیکن اگر قوم کا کوئی دن خوشی کے لیے مختص ہے تو پھر اسے ماتم کا موقع نہ بنائیے۔ عید کے دن اگر کوئی ماتم کرتا ملے تو لوگ اسے ذہنی مریض سمجھیں گے۔ اپنی ذہنی صحت کا خیال رکھیے۔ اس کا ایک پیمانہ یہ ہے کہ 14اگست آپ کے لیے خوشی کا دن ہے یا ماتم کا؟ اس کا جواب اپنے دل سے پوچھئے۔ اس سے معلوم ہو گا کہ آپ ذہنی طور پر کتنے صحت مند ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved