دوست اس دنیا کی چند بڑی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہیں۔ میں ملتان میں ہوں تو تقریباً سارا دن ہی دوستوں میں گزر جاتا ہے‘ تاہم شام میں گھر میں گزارتا ہوں۔ آپ یوں سمجھیں کہ بس گوشہ نشینی کی سی کیفیت ہوتی ہے۔ ہاں! شادی بیاہ یا غمی خوشی کی اور بات ہے۔ اس کے علاوہ چند دوست ہی اس معمول کو اتھل پتھل کر سکتے ہیں لیکن پھر بھی سمجھیں کہ ملتان میں میری 90فیصد شامیں گھر کی چار دیواری میں گزر جاتی ہیں اور میں اپنے اس معمول سے خوش بھی ہوں اور مطمئن بھی‘ وگرنہ خوشی اور اطمینان دو مختلف چیزیں ہیں۔ بقول عمیرنجمی:
ہم مطمئن بہت ہیں اگر خوش نہیں بھی ہیں
تم خوش ہو‘ کیا ہوا جو ہمارے بغیر ہو
گنتی کے دو چار دوستوں کو شام گھر گزارنے والی روٹین کو توڑنے کے سلسلے میں استثنا حاصل ہے۔ ملک طارق کے پاس تین چار پھٹے پرانے دوستوں کا اکٹھ ہوتا ہے جبکہ آصف ندیم کیساتھ گزرنے والی شام کے شرکا انواع و اقسام کے پھولوں پر مشتمل گلدستے کی مانند ہوتے ہیں۔ اسی طرح کے دو چار دوستوں کیساتھ گزرنے والی شام موضوعات اور گفتگو کی ایسی رنگینی سے مزین ہوتی ہے کہ اس کا لطف تادیر دل و دماغ پر چھایا رہتا ہے مگر اس ساری تمہید کے باوجود ایسی شاموں کی تعداد آٹے میں نمک کی مقدار سے بھی کہیں کم ہے۔گزشتہ دنوں ایسی دو شامیں ایک ساتھ آ گئیں اور ایسے ایسے موضوعات پر خیالات کی چاند ماری ہوئی کہ بہت کچھ چھلنی ہو کر رہ گیا۔ ایسی محفلوں میں ہونیوالی گفتگو کا غیر سنسر شدہ سکرپٹ حوالۂ قلم کیا جائے تو قلمکار ادارہ جاتی یاترا سے واپس آئے تو اس کا سافٹ ویئر خاصی حد تک اَپ ڈیٹ ہو چکا ہو۔ لیکن اس درمیان بے ضرر اور ناقابلِ دست اندازی پولیس ٹائپ گفتگو کی بھی کمی نہیں ہوتی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس دوران موضوعات اس تیزی سے تبدیل ہوتے ہیں کہ بزدار دورِ حکومت میں چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کی سپیڈو سپیڈ تبدیلی بھی معمولی کارروائی لگتی ہے۔
دوستوں کی ایسی ہی ایک محفل تھی اور حالاتِ حاضرہ زیر بحث تھے۔ یہ حالاتِ حاضرہ بھی ہمارے ہاں گزشتہ کئی عشروں سے ایک ہی روٹین میں چل رہے مگر اپنی تمام تر قدامت کے باوجود حالاتِ حاضرہ ہی کہلاتے ہیں۔ بقول دلاور فگار:
حالاتِ حاضرہ میں اب اصلاح ہو کوئی
اس غم میں لوگ حال سے بے حال ہو گئے
حالاتِ حاضرہ نہ سہی مستقل مگر
حالاتِ حاضرہ کو کئی سال ہو گئے
گفتگو کے دوران مظفر گڑھ کے قومی اسمبلی کے حلقہ 175کے ضمنی الیکشن پر عدالتی حکم امتناع پر گفتگو کے دوران جمشید دستی کی جعلی سندوں والا معاملہ امیدواروں تک پہنچا تو ایک دوست کہنے لگا: آپ کو علم ہے کہ اس حلقے میں دیگر امیدواروں کے ساتھ حکیم شہزاد بھی امیدوار ہے اور دو تین ہفتے قبل ایک اخبار میں اس کے آدھے آدھے صفحے پر مشتمل اشتہار بھی آئے ہیں جس میں وہ ''ان شاء اللہ ایم این اے‘‘ قرار دیا جا چکا ہے۔ ایک دوست حیرانی سے پوچھنے لگا کہ یہ کون صاحب ہیں؟ دوسرے دوست نے بتایا کہ پہلے تو یہ صرف حکیم تھا اور کشتے بیچتا تھا لیکن اس کی شہرت کو چار چاند تب لگے جب اس نے مرحوم عامر لیاقت کی بیوہ دانیہ ڈانور سے شادی کی‘ جس کا تعلق لودھراں کی قریبی بستی ڈانوراں سے ہے ۔ عامر لیاقت حسین سے شادی کے بعد وہ سیدہ دانیہ شاہ ہو گئی۔ اب جبکہ اس نے بیوہ ہونے کے بعد حکیم شہزاد سے شادی کر لی ہے مگر اس کی ایسی کایا کلپ ہوئی ہے کہ مستقل کوچہ ٔ سادات کی مکین ہے۔ ایک دوست نے تعارف کروانے والے دوست کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ ہمیں بخوبی علم ہے کہ آپ کو اس خطے کی ہر خوش شکل خاتون کی پوری جان کاری ہے مگر ہمارا سوال حکیم شہزاد کے بارے میں تھا۔وہ دوست تھوڑی دیر سر کھجاتا رہا پھر کہنے لگا: اس کے بارے میں مزید تفصیلات پوچھ کر کل بتاؤں گا۔ ایک اور دوست بتانے لگا کہ حکیم شہزاد ذات کا آرائیں ہے اور شجاع آباد کے نزدیکی قصبے سکندر آباد موڑ پر اپنی خاندانی حکمت کی دکان چلا رہا ہے۔ اس کا گاؤں داد والا ہے۔اس نے کشتے اور معجون کے زور پر لوگوں کے گردوں سے خاصی دولت بمعہ لینڈ کروزر برآمد کی ہے اور اب وہ تیسرے ضلع میں جا کر قومی اسمبلی کی نشست پر امیدوار ہے۔ اس کی الیکشن کمپین کا مرکزی نقطہ اور پیشکش یہ ہے کہ وہ کامیاب ہو کر اپنے ووٹروں کو معجون اور پڑیاں مفت مہیا کرے گا۔ ہماری سیاست کی کسمپرسی اور تہی دامنی کا یہ عالم ہے کہ ہمیں اب جمشید دستی اور حکیم شہزاد جیسے دو امیدواروں میں سے ایک کا انتخاب کرنے کی مجبوری میسر ہے۔ یہ اردو محاورے ''آگے کنواں‘ پیچھے کھائی‘‘ جیسی صورتحال ہے اور صرف این اے 175پر ہی کیا موقوف! جگہ جگہ یہی حال ہے۔ عالم یہ ہے کہ اب ہمیں پرانے چوروں کی یاد ستانے لگ گئی ہے۔ کیا اچھے زمانے تھے اور کیا وضع دار لٹیرے ہوا کرتے تھے۔ یادش بخیر! کبھی یہ حلقہ نوابزادہ نصراللہ خان کے حلقے کا حصہ تھا جہاں سے وہ الیکشن لڑتے تھے۔
ایک اور دوست پوچھنے لگا کہ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ پہلے خود شاہ محمود قریشی اور اب ان کا برخوردار زین قریشی نو مئی والے واقعات میں بے گناہ قرار پاتے ہوئے کم از کم ان دو مقدموں سے تو بری ہو گئے ہیں۔ ایک دوست نے مجھ سے پوچھا کہ میرا اس بارے میں کیا خیال ہے؟ میں نے کہا کہ بہتر ہو گا آپ اس سلسلے میں مجھ سے کچھ نہ پوچھیں۔ شاہ محمود اول (شاہ محمود قریشی کے لگڑدادا) نے 1849ء میں ملتان پر انگریزوں کے قبضے کے فوراً بعد سرکارِ انگلشیہ کی تابعداری اور حکم برداری شروع کردی تھی۔ تب سے اب تک یعنی پونے دو سو سال میں ان کے آباؤ اجداد نے نہ تو کبھی بغاوت کی‘ نہ زور آوروں سے اختلاف کیا اور نہ ہی کبھی قیدو بند کا سامنا کیا۔ اب وہ جیل میں ہیں تو میں ان کے بارے میں اپنی خوش گمانی اور اگر وہ غلط فہمی بھی ہے‘ کو برقرار رکھنا چاہتا ہوں۔
ایک دوست اس بات پر ہنسا اور کہنے لگا: کچھ روز قبل حضرت بہاء الدین زکریاؒ کا 786واں عرس تھا۔ ایک بندہ بتا رہا ہے کہ وہاں مزار پر ان کا ایک مرید اپنے بیٹے کی جیل سے رہائی کی دعا مانگ رہا تھا۔ ایک ستم ظریف نے اس کو کندھے سے ہلا کر متوجہ کیا اور کہنے لگا: بھائی صیب! اِنہاں دا تاں اپنا بال اندر تھیا پے‘ اوندی تاں اپنی ضمانت نئیں پئی تھیندی‘ تساں اپنے بال دی رہائی کیتے پیر صیب کنے آئے ودے او (بھائی صاحب! ان کا تو اپنا بچہ (شاہ محمود قریشی) اندر ہوا پڑا ہے۔ اس کی تو اپنی ضمانت نہیں ہو رہی اور آپ اپنے بچے کی رہائی کیلئے پیر صاحب کے حضور تشریف لے آئے ہیں)۔
ایک دوست کہنے لگا: ممکن ہے اس شخص کا بیٹا بے گناہ ہو۔ ایک اور دوست کہنے لگا‘ گنہگار سے یاد آیا‘ ایک دفعہ راجہ رنجیت سنگھ صبح صبح کہیں جا رہا تھا کہ سامنے سے ایک شخص آ گیا۔ راجہ نے اپنے محافظوں سے کہا کہ اس کو دس چھتر مارے جائیں۔ حکمِ حاکم کی تعمیل ہوئی اور دس زور دار جوتے مار دیے گئے۔ جوتے کھا کر اس شخص نے اپنی پشت کو سہلایا اور راجہ سے جان کی امان طلب کرتے ہوئے سوال کی اجازت مانگی‘ جو راجہ نے باکمالِ مہربانی عطا فرما دی۔ وہ شخص کہنے لگا: راجہ صاحب آپ نے مجھے دس چھتر تو مروا دیے ہیں لیکن میرا قصور تو بتا دیں۔ راجہ رنجیت سنگھ زور سے ہنسا اور کہنے لگا: اوئے بھڑویا! جے تسیں قصور کرنا بند کر دیو تے کیہ اسی انصاف کرنا وی بند کردیے؟ ( بھڑوے! اگر تم قصور کرنا بند کر دو تو کیا ہم انصاف کرنا بھی بند کر دیں؟) آصف ندیم نے اعلان کیا کہ رات بہت ہو گئی ہے اب اجازت دیں ہم نے گھر بھی جانا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved