تحریر : افتخار احمد سندھو تاریخ اشاعت     16-08-2025

غریب ملک کے فضول خرچ حکمران

عربی میں سیاستدان‘ افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کرنے والے معاملہ فہم کو کہتے ہیں لیکن ہمارے ہاں سیاستدان ہی مسائل کی وجہ بنے ہوئے ہیں۔ سیاستدان اس لیے ذمہ دار ہیں کہ رہنمائی کرنے کے بجائے ان کی اکثریت اپنا حصہ وصول کرنے کو اہمیت دیتی ہے۔ جنہیں رہنما کہا جاتا ہے‘ رہنما لکھا جاتا ہے‘ رہنما سمجھا جاتا ہے وہ خود نہیں جانتے کہ منزل کہاں ہے‘ منزل ہے کیا؟ اگر کوئی منزل ہے تو وہاں پہنچنا کیسے ہے؟ کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے: قافلے دلدلوں میں جا ٹھہرے‘ رہنما پھر بھی رہنما ٹھہرے۔
ملکی ریونیو کا بڑا حصہ ان پر خرچ ہوتا ہے۔ سیاستدان چاہتے ہیں کہ انہیں ہر چیز مفت ملنی چاہیے اور وافر ملنی چاہیے۔ بھاری بھرکم تنخواہ ملنی چاہیے‘ گھر کا کرایہ اور پٹرول ملنا چاہیے‘ ہوائی جہازکے ٹکٹ ملیں‘ بلکہ انہیں ہر سال فیملی سمیت ورلڈ ٹور پر بھی جانا چاہیے۔ حکمرانوں کی جانب سے عوام کو صبر کرنے کی تلقین کی جاتی ہے لیکن یہ خود قومی اسمبلی اور سینیٹ کی کمیٹیوں میں شرکت کیلئے ٹریول الاؤنس اور ایئر لائنز کے مفت ٹکٹس تک چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ پارلیمنٹ کے ایک اجلاس پر کروڑوں روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔ عوام کو ایک طرف اپنے اخراجات پورے کرنے کیلئے دن رات کمانا پڑتا ہے اور دوسری طرف کروڑوں بلکہ اربوں پتی ارکانِ اسمبلی کے خرچوں کا بھاری بھر کم بوجھ بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ایک غریب اور مقروض ملک کے وزیراعظم کی درجنوں گاڑیوں کے قافلے کی صورت میں گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر روانگی اور سائرن بجاتی سکیورٹی عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اگر غریب ملک کا عام شہری اپنے پٹرول کے اخراجات خود برداشت کر رہا ہے تو ہمارے حکمرانوں اور سرکاری ملازمین کو لاکھوں روپے کا پٹرول مفت کیوں دیا جا رہا ہے؟ کیا ان کی تنخواہیں پٹرول کے اخراجات برداشت کرنے کیلئے ناکافی ہیں؟
ہمارے حکمرانوں نے عوامی خزانے سے فضول خرچی اور عیاشیوں کی داستانیں رقم کی ہیں۔ حکمران دورے پر دورہ کرتے ہیں۔ ایک ایک ماہ میں کئی کئی بیرونِ ملک دورے ہو رہے ہیں‘ بس آنیاں جانیاں لگی ہوئی ہیں۔ بیرونی ممالک میں سرکاری طور پر صرف وزیراعظم مدعو ہوتے ہیں لیکن ان کے ساتھ تین تین سو لوگوں کا قافلہ جاتا ہے۔ ایسے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں جن کا دورے سے دور پار کا بھی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے کہ ایک ایسا ملک جو اربوں روپے کا مقروض ہے‘ اس کے حکمران اس کی پروا کیے بغیر سرکار کا خزانہ لوٹ کا مال سمجھ کر اڑا رہے ہیں۔ پھر دوستوں‘ یاروں کو نوازنے کی جو ریت ڈالی گئی ہے اس نے تو بیڑہ ہی غرق کر دیا ہے۔ ہر کوئی اپنے جاننے والوں کو اس بہتی گنگا میں غوطے کھانے کا موقع فراہم کر رہا ہے۔ ایک عام سرکاری ریسٹ ہاؤس سے لے کر وزیراعظم ہاؤس تک کے اخراجات آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ حتیٰ کہ سرکاری دفتروں کو شادی ہالز کے طور پر استعمال کیا گیا۔ آج بھی انٹرنیٹ پر وہ تصاویر اور وڈیوز وغیرہ مل جائیں گی جن میں سابق وزیراعظم کی خواہش پر ان کیلئے سرکاری ہیلی کاپٹر کے ذریعے درجنوں کھانے خصوصی طور پر مری منگوائے گئے۔ پھر امریکہ کے دوروں میں خصوصی شیف ساتھ لے جائے گئے تاکہ وہ من چاہے کھانے بنا کر دیں۔ اور یہ سب کچھ سرکاری خرچ پر عوام کے خزانے سے کیا گیا اور آج بھی اسی طرح کے شوق جاری و ساری ہیں اور حکمرانوں کی یہ فضول خرچی بلکہ عیاشی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔
اس طرح کی فضول خرچیوں نے پاکستان کو معاشی طور پر کمزورکر دیا ہے۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کیمپ آفس کے نام پر درجنوں دفاتر بنائے جاتے ہیں۔ صرف یہی دفاتر نہیں بلکہ سینکڑوں افراد کے عملے پر مشتمل اچھا خاصا کنبہ بھی پلتا ہے اور اخراجات کا سارا بوجھ عوام پر پڑتا ہے۔ ہماری قوم کو زیادہ تکلیف اس بات پر نہیں ہوتی کہ ہمارا ملک مقروض کیوں ہے‘ ہم دنیا میں پیچھے کیوں ہیں اور پسماندگی کب تک ہمارا مقدر بنی رہے گی بلکہ غصہ اس بات پر آتا ہے کہ جب ہمارا بجٹ خسارے میں ہے‘ جب ہماری برآمدات درآمدات سے کم اور نہ ہونے کے برابر ہیں‘ جب ہم دنیا میں ان ممالک سے کہیں پیچھے ہیں جو ہمارے بعد آزاد ہوئے اور جدید ممالک کی فہرست میں آ گئے‘ اتنی تنزلی اور گراوٹ کے بعد بھی ہمارے حکمرانوں کے چلن کیوں ٹھیک نہیں ہو رہے؟ ان کے اللے تللے کم کیوں نہیں ہو رہے؟ ہمارے حکمران خلیجی ممالک کے شہزادوں اور یورپ اور امریکہ جیسے ممالک سے زیادہ عیاشیاں کیونکر کر رہے ہیں۔
رنج اس بات کا نہیں کہ ہم پیچھے کیوں ہیں‘ افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ پیچھے بھی ہیں اور آگے جانا بھی نہیں چاہتے۔ خود نمائی کے شوق سے صرف عوام کا ٹیکسوں میں دیا گیا پیسہ ہی ضائع نہیں ہوتا بلکہ ہر اس دل پر چوٹ لگتی ہے جو صبح سے شام تک محنت کر کے دو وقت کی روٹی کماتا ہے اور اس میں سے بھی حکومت کوکئی قسم کے ٹیکس ادا کرتا ہے لیکن اسے اس کے بدلے نہ حقوق ملتے ہیں اور نہ ہی ملک کی حالت بدلتی ہے۔ حکمرانوں اور ان کے شہزادے‘ شہزادیوں کو دیکھ کر ایسے گمان ہوتا ہے جیسے ہمارے ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگی ہیں‘ ہمارے حکمرانوں کے ہاتھ اتنا زیادہ سرکاری خزانہ آ گیا ہے کہ انہیں سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ اسے لگائیں کہاں۔
پیسہ تو اس ملک میں بہت ہے لیکن یہ عوام پر نہیں لگتا بلکہ اس سے صرف اشرافیہ کو ہی نوازا جاتا ہے اور عوام کو لالی پاپ پر ٹرخا دیا جاتا ہے۔ تھر میں ہر سال پانچ سو کے لگ بھگ بچے بھوک سے مر جاتے ہیں جبکہ حکمرانوں کی سکیورٹی پر اربوں روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔ گورنر ہاؤس میں بیٹھے ایک شخص پر ماہانہ کروڑوں روپے فضول خرچ کیے جا رہے ہیں‘ ایک سابق صدر جو عہدے سے سبکدوش ہو گئے تھے‘ لیکن اگلے پانچ سال کے دوران بھی وہ ملک و قوم کیلئے خاصے بھاری رہے اور ان پر سرکاری خزانے سے اربوں روپے خرچ کیے گئے۔
نیپال جیسا ملک‘ جہاں سیاست اورکرپشن بالکل ہماری طرح لازم و ملزوم ہے‘ وہاں وزیراعظم شیشیل کورالا کے ڈیکلیریشن فارم میں کسی قسم کے اثاثے نہ ہونا اچنبھے کی بات تھی۔ سیکرٹری اگلے دن صرف اس لیے وزیراعظم کے پاس گیا کہ کہیں اس سے کوئی غلطی نہ ہو گئی ہو مگر وزیراعظم نے تسلی دی اورکہا کہ میں نے ڈیکلیریشن فارم کے نیچے دستخط کیے ہیں۔ فکر نہ کریں۔ ایک سرکاری دورے میں حکومت کی طرف سے اسے 645ڈالر ملے۔ دورے کے بعد اس نے یہ تمام رقم سرکاری خزانے میں جمع کروا دی کہ اس کا دورے پر کسی قسم کا کوئی خرچہ نہیں ہوا۔ بطور وزیراعظم شیشیل کورالا نے انتہائی سادگی سے وقت گزارا اور حکومت کے بعد بھائی کے گھر منتقل ہو گیا۔ آخری عمر میں پھیپھڑوں کا کینسر ہو گیا۔ اس کے پاس علاج کے پیسے نہیں تھے۔ سیاسی پارٹی کے اراکین نے باقاعدہ چندہ اکٹھا کیا اور پھر وہ اپنا علاج کروانے کے قابل ہوا۔ کینسر جیسے موذی مرض سے بہادری سے لڑتے ہوئے 2016ء میں نیپال کے ایک سرکاری ہسپتال میں دم توڑ گیا۔ آج بھی آپ اس کی زندگی پر لکھی گئی کتابیں پڑھیں تو آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ انسان پوچھتا ہے اے خدا! ایسے درویش لوگ بھی اس دنیا پر حکومت کرتے ہیں اور اپنے دامن پر کرپشن کی ایک چھینٹ بھی نہیں پڑنے دیتے۔ اسی تنگدستی میں دنیا چھوڑ دیتے ہیں۔ یا اللہ پاکستان کو بھی ایسے سیاستدان عطا کر۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved