تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     16-08-2025

چھوٹے صوبوں کے حقوق کا علمبردار پنجابی دانشور

نام تھا محمود مرزا۔ جو 25کروڑ نفوس کے ملک میں بمشکل 225لوگوں نے سنا ہو گا اور جن لوگوں نے ان کی بصیرت افروز‘ عوام دوست اور عالمانہ تحریروں کو پڑھا ہو گا اور اب بھی حیات ہیں‘ ان کی تعداد غالباً 25 سے بھی کم ہو گی۔ میرے لیے خوشی اور فخر کی بات ہے کہ میں ان سے ذاتی طور پر متعارف تھا۔ میری رائے میں مرزا صاحب واحد پنجابی دانشور تھے جو خلوصِ نیت اور مستقل مزاجی سے پاکستان میں سماجی تبدیلیوں‘ چھوٹے صوبوں کے عوام کے حقوق اور وفاق کے بنیادی اصولوں کی پاسداری کیلئے عمر بھر جدوجہد کرتے رہے۔ ظاہر ہے کہ کچھ اور روشن دماغ‘ اشتراکی ذہن رکھنے والے‘ عوام دوست لوگ بھی تھے مگر وہ سیاسی جماعتوں سے گہری وابستگی رکھتے تھے۔ باقی ماندہ صحافی تھے یا شاعر تھے۔ محمود مرزا ان سب سے جدا تھے۔ وہ نہ سیاسی رہنما تھے اور نہ سیاسی کارکن۔ نہ صحافی اور نہ محنت کشوں کے ترجمان۔ نہ مسعود کھدر پوش کی طرح سرکاری افسر‘ نہ شاعر‘ نہ ادیب اور نہ فلم ساز۔ وہ اپنی مثال آپ تھے۔ گزرے ہوئے 78سالوں میں ان جیسا کوئی اور شخص پیدا نہیں ہوا اورآنے والے 78سالوں میں بھی ایسا ہونا ممکن نظرنہیں آتا۔ اب تو وہ نظریاتی ماحول اور سماجی سانچہ بھی ٹوٹ کر بکھر چکا ہے جس میں محمود مرزا جیسے دھن کے پکے‘ اصول پرست‘ سماجی شعور اور اجتماعی ضمیر کی آواز‘ نہ صرف عمر بھر سوچتے‘ لکھتے‘ پڑھتے اور ہم خیال دوستوں کے ساتھ تبادلۂ خیال کرنے والے لوگ جنم لیتے تھے بلکہ انہوں نے اگست 1983ء میں ایم آر ڈی کی سول نافرمانی کے بعد سندھ کے چھ تحقیقاتی دورے کیے اور اپنی تحقیقی رپورٹوں کو کتابی شکل میں شائع بھی کرایا۔ لاہور کے شیخ رضا مہدی کا بھلا ہو کہ انہوں نے 108صفحات کی یہ کتاب بڑے سلیقہ سے شائع کی۔ میں جب بھی ان آٹھ دس سالوں کی جدائی کے دنوں میں انہیں یاد کرتا ہوں تو میرے کانوں میں ان کی مہذب‘ دھیمی اور میٹھی آواز آتی ہے۔ اگر آپ کو پتہ ہو کہ اس شخص کے نظریات کیا ہیں اور وہ کس تندہی سے صلہ یا ستائش کی پروا کیے بغیر فرصت کے ہر لمحہ میں ان نظریات کا پرچار کرتا رہا ہے اور آخری دم تک کرتا رہا ہوگا اور آپ کا ان سے اتفاقاً آمنا سامنا ہو جائے تو آپ کو ان کو دیکھ کر ہی پتا چل جاتا تھا کہ ہو نہ ہو‘ یہی محمود مرزا ہیں۔
1932ء میں غالباً لاہور میں پیدا ہوئے۔ 12مئی 2015ء کو اسی شہر میں وفات پائی۔ مرزا صاحب نے بڑی پیشہ ورانہ قابلیت سے 46برس ٹیکس لاء کی پریکٹس کی۔ جس خاموشی سے زندہ رہے اسی خاموشی اور وقار سے دنیا سے رخصت ہوئے۔ انہوں نے اخباروں میں لاتعداد کالم لکھے۔ محصولات کی وصولی کے نظام اور ٹیکس قانون کی عملداری کے موضوع سے لے کر سماجی علوم پر بھی بہت اچھی کتابیں لکھیں۔ جب مرزا صاحب کو خیال آیا کہ وہ صد بصحرا ہیں تو انہوں نے انجمن میں عمر بھر کی تنہائی ختم کرنے کیلئے گنتی کے چند راز داں ڈھونڈ لیے۔ وہ پاکستان سوسائٹی کے کنوینر تھے۔ انڈیپنڈنٹ پلاننگ کمیشن اور کمیٹی برائے جمہوریت کے رکن تھے۔ آج ہم چاروں طرف نظر دوڑاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ جب محمود مرزا اور ان کے ہم خیال احباب بھی پاکستان کے محنت کشوں کو یتیمی اور بے بسی اور بے کسی کی حالت میں چھوڑ کر ان سے دور جا چکے ہیں تو ہمیں کیا نظر آتا ہے؟ چاروں طرف گھپ اندھیرا‘ مایوسی اور اضطراب اور بے یقینی کے گہرے بادل‘ دل کے اندر تلخی‘ ناامیدی اور آنے والے کل کا خوف۔ کروڑوں لوگوں کی یہ حالت ہے کہ وہ نہ بھاگ کر ملک سے باہر جا سکتے ہیں اور نہ ٹھہرنے کا عذاب جھیلنے کا عذاب برداشت کیے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کروڑوں لوگوں کا ریاستی اداروں پر سے اعتماد اُٹھ چکا ہے۔ نہ پولیس ان کی حفاظت کرتی ہے۔ نہ سکولوں میں ان کے بچوں کیلئے جگہ ہے اور اگر جگہ مل بھی جاتی ہے تو معیاری تعلیم نہیں دی جاتی۔ عدالتیں ہیں مگر انصاف نہیں۔ سرکاری ہسپتال نہ ہونے کے برابر ہیں۔ نجی ہسپتال اتنے مہنگے ہیں کہ مریض کی کھال اتار لیتے ہیں۔ محمود مرزا کی کتاب ''آج کا سندھ‘‘ کے صفحات 23-26پر شائع ہونے والی تحریر اتنی کمال کی ہے کہ میں نے اسے اپنی ایک کتاب کے آخر میں بطور ضمیہ شامل کیا ہوا ہے۔ آپ یہ بات ذہن میں رکھیے گا کہ یہ تحریر 39برس پہلے شائع ہوئی تھی جب اس بے حد نازک موضوع پر لکھنا تو دور کی بات ہے‘ لوگ سوچنے اور سرگوشیوں میں بات کرنے سے بھی گھبراتے تھے۔ مضمون نگار نے مناسب سمجھا کہ مرزا صاحب کی کتاب کے اقتباسات ان پر لکھے ہوئے خاکے میں شامل کر دیے جائیں تاکہ آپ ان کے نظریات کی ایک جھلک دیکھ سکیں۔
''ماسوائے بعض خوش فہم حضرات کے کوئی بھی صاحبِ نظر آدمی اس خام خیالی میں مبتلا نہیں ہو سکتا کہ مسلم لیگ یا اس نوع کی کوئی دوسری جماعت قوم کے مسائل حل کرکے عوامی مقبولیت حاصل کر سکے گی۔ یہ مسلمہ بات ہے کہ جب تک نااہلی اور لوٹ مار کو فروغ دینے والا انتظامی اور معاشی ڈھانچہ قائم ہے‘ قومی مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ حتیٰ کہ اگر حکومت کا انتظام اور سرکاری بندوبست کسی مقبولِ عام جماعت کو بھی حاصل ہو جائے تو اس ڈھانچے کی موجودگی میں وہ بھی جلد ناکام اور بدنام ہو جائے گی۔ اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک کے قدرتی وسائل یقینا اس قابل ہیں کہ عوام کو خوشحالی اور معاشی استحکام حاصل ہو سکتا ہے مگر یہ سب کچھ غیر جمہوری طرزِ حکومت اور مروجہ انتظامی اور معاشی ڈھانچے کی موجودگی میں ممکن نہیں‘‘(صفحہ نمبر83) ۔ ''ریاستی طاقت کو ضلعی اور ہر ممکن حد تک نچلی سطح تک پھیلا دیا جائے اور اسے سرکاری حکام کے بجائے عوام کے منتخب نمائندوں کے ہاتھوں میں منتقل کر دیا جائے۔ معاشی منصوبہ ساز اداروں کے ارتکاز کو بھی ختم کیا جائے۔ یکساں وسائل اور مسائل کے حامل اضلاع کی بنیاد پر نئے منصوبہ ساز ادارے قائم کیے جائیں۔ صوبائی اور وفاقی منصوبہ ساز ادارے ان کو فنی مہارت اور سرمایہ مہیا کریں اور ان کو مربوط بنائیں۔ منصوبے کی تکمیل کی ذمہ داری متعلقہ اضلاع کی منتخب انتظامیہ‘ مقامی باشندوں کے خوش دلانہ تعاون سے ادا کرے‘‘ ( صفحہ 108)۔ ''کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے اختیارات اور فرائض مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کے سپرد کرائے جائیں۔ سرکاری اہلکاروں کی موجودگی ذیلی ہونی چاہیے۔ اس کا اثر یہ ہوگا کہ سرکاری اہلکاروں کی استبددادی قوت کم ہو جائے گی اور جمہور کی طاقت میں اضافہ ہوگا۔ ہمارے ملک میں تعمیری فکر کے فقدان اور کرپشن کی وجہ سے سرکاری اہلکاروں کا جو رویہ بن چکا ہے وہ عوام میں حب الوطنی کے جذبات ابھرنے کی راہ میں حائل رہا ہے۔ علاوہ ازیں مرکزیت پسند انتظامی ڈھانچہ کو وفاقی نظام کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ 1973ء کا آئین وفاق کے اصول پر تدوین کیا گیا مگر وفاقی نظام کے انتظامی ڈھانچوں میں ظاہر نہیں ہوتا۔ سب سے اہم ضرورت یہ ہے کہ ملکی سیاست کو جمہوری انداز میں چلایا جائے۔ ملکی سلامتی کا تقاضا یہ ہے کہ قومی معاملات طے کرنے کیلئے جمہوری اصولوں اور عوامی نمائندوں پر پورا انحصار کیا جائے۔ پاکستان کے تمام مؤثر اور حکمران گروپوں کو اور خصوصاً پنجاب کے اہل الرائے کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ملکی سلامتی کی چابی چھوٹے صوبوں کے جمہوریت نواز اور متوازن سوچ کے حامل رہنماؤں کے ہاتھ میں ہے جو اپنے اپنے صوبے میں مؤثر اہمیت کے مالک ہیں(صفحہ نمبر44)‘‘۔
یہ تھے محمود مرزا۔ ان کے خیالات اور ان کے نظریات۔ کھری‘ سچی اوردل کی گہرائی سے لکھی جانے والی باتیں۔ جب تک موسم خزاں میں شجر سے ٹوٹ جانے والی ٹہنی ان باتوں کو قبول نہیں کرتی‘ اپنا منشور نہیں بناتی وہ کس طرح سحابِ بہار سے دوبارہ سرسبز اور ترو تازہ ہو گی؟ ابراہم لنکن کے الفاظ میں وہ ہماری آخری بہترین امید ہیں( Our Last Best Hope)۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved