ہمارے اوپر کے طبقات ہمارے دونوں ملکوں کی غربت کا تو کچھ احساس کر لیں۔ یہ معاشرے ایسے ہیں جن میں امارت کی کمی نہیں لیکن غربت دیکھیں تو نصف سے زیادہ ہماری آبادیوں کی زندگی اجیرن ہے۔ قومی گفتگو البتہ غریبوں کے بس میں تو ہوتی نہیں‘ اوپر کے طبقات یا یوں کہیے حکمران طبقات ہی قومی گفتگو کا تعین کرتے ہیں۔ ان کی آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں؟ دونوں ممالک کے کرتے دھرتے یہ دیکھ نہیں سکتے کہ دونوں اطراف ایٹمی ایندھن اتنا ہے کہ ایک دوسرے کو ایک بار نہیں کئی بار تباہ کر سکتے ہیں‘ پھر بس کر جائیں‘ جنگ کے ڈھول پیٹنا چھوڑ دیں۔ غربت کے جملہ مسائل کی طرف کچھ توجہ دیں۔
مانا کہ حفاظت لازمی ہے۔ حفاظت تو گلی محلوں میں لوگ اپنے گھروں کی بھی کرتے ہیں۔ لیکن ہمسائے ہوں اور مسلسل اور بلاوجہ تُو تکرار کرتے رہیں تو کیا وہ اچھا سمجھا جائے گا؟ پاک و ہند کا یہی مسئلہ ہے‘ آرام سے ایک دوسرے کے ساتھ رہ نہیں سکتے۔ پتا نہیں کیا یہاں کی بیماری ہے کہ 78سال ہو گئے ہیں جب انگریز یہاں سے گئے اور اقتدار ہم دو ممالک کے ہاتھوں میں دے گئے‘ لیکن ہم ہیں کہ ہمارے جھگڑے ختم ہی نہیں ہوتے۔ مسئلے لوگوں میں رہتے ہیں‘ ممالک میں رہتے ہیں لیکن عقل ہو‘ مہذب پن سے کچھ آشنائی ہو‘ تو ایک دوسرے پر پتھر نہیں پھینکتے رہتے۔ بات چیت سے‘ خوش اسلوبی سے‘ ہمسائیگی کے اصولوں کی پاسداری کی جاتی ہے۔ لیکن ہم دونوں ممالک کا مسئلہ عجیب ہے۔ محسوس تو یہ ہوتا ہے کہ مہذب پن نام کی کوئی چیز ان ہواؤں سے نہیں گزری۔
کشمیر کشمیر ہم کہتے رہتے ہیں لیکن اتنا تو خیال کریں کہ کشمیر کے مسئلے نے بعد میں سر اٹھایا تھا۔ تقسیمِ ہند کشمیر کی وجہ سے نہیں ہوئی‘ اس کے کچھ اور عوامل تھے۔ یہ تو ہندوستان آزاد ہوا اور ہم معرضِ وجود میں آئے اور عذرِ دشمنی کے طور پر مسئلہ کشمیر نمایاں ہوتا گیا۔ دنیاکے کتنے ممالک ہیں جن کے آپس کے مسائل ہیں لیکن ہر کوئی وہ نہیں کرتا جو ہماری ضد بن چکی ہے۔ چین سے ہی ہم کچھ سیکھ لیں‘ چین کا اٹل مؤقف ہے کہ تائیوان نے اعلانِ آزادی کیا تو جنگ چھڑ جائے گی۔ اس کے باوجود چین اور تائیوان کے درمیان وسیع پیمانے پر تجارت جاری ہے۔ تائیوان کی بھاری سرمایہ کاری چین میں ہے اور آپس کا آنا جانا معمول کی بات ہے۔ ہمارا عجیب مسئلہ ہے کہ بات بات پر روابط منقطع ہو جاتے ہیں‘ تجارت کا پیمانہ ویسے ہی کم ہے لیکن چھوٹا سا مسئلہ بھی اٹھے تو تجارت بند ہونے میں دیر نہیں لگتی۔
دنیا کے اور کون سے دو ممالک ہیں جو ایک دوسرے کود شمن کہتے ہیں؟ سرد جنگ کے دوران امریکہ اور سوویت یونین کے تعلقات میں کتنی کشیدگی تھی لیکن پھر بھی ایک دوسرے کو دشمن نہیں کہتے تھے۔ چین اور ہندوستان میں 1962ء میں شدید قسم کی جنگ ہوئی‘ بارڈر پر جھڑپیں اب تک ہوتی رہی ہیں۔ لیکن ان میں تجارت جاری ہے اور ایک دوسرے کو وہ دشمن نہیں کہتے۔ ہم دونوں ممالک کا اعزاز ہے کہ ایک دوسرے کو دشمن کہتے ہیں۔ بھلے آج کل ہمیں زیادہ خطرہ افغانستان اور ٹی ٹی پی سے ہو لیکن دشمن ہندوستان ہی ہے۔ اور ہندوستانی‘ خاص طور پر یہ انتہا پسند ہندو جماعت جو برسرِاقتدار ہے‘ ہر چیز کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ دیکھیں گے۔ بِہار میں الیکشن ہو یا کہیں اور ووٹ لینے کی خاطر پاکستان کا شوشا کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ یہ جو حالیہ جھڑپ ہوئی‘ پاکستان دشمنی سے ان کی آنکھیں بند ہو گئیں اور ہندوستانی قیادت حملے کی صورت میں ایک ایسا تماشا کر بیٹھی جس سے سبکی ان کی ہوئی۔ یونان کے ڈرامہ نگار یوریپڈیز (Euripides) نے وہ کیا کہا تھا کہ ''دیوتا کسی کو تباہ کرنا چاہیں تو پہلے اسے پاگل کرتے ہیں‘‘۔
بہرحال ہندو انتہا پسند جو کرتے ہیں وہ کریں‘ ہمیں اپنا دیکھنا چاہیے۔ چاہے انگریز ہندو سازش کی وجہ سے پاکستان کو گورداس پور نہیں ملا‘ چاہے کشمیر کا بیشتر حصہ ہمارے ہاتھ سے گیا‘ اور چاہے ہمارے بنگالی بہن بھائیوں نے اپنا الگ راستہ چنا‘ پھر بھی اچھا خاصا ملک ہے۔ رقبے اور آبادی کے لحاظ سے ہم کوئی چھوٹا ملک تو نہیں ہیں۔ اپنی توانائیاں ضائع نہ کریں۔ عام گھرانوں میں دشمنیاں پالی جائیں تو گھرانے تباہ ہو جاتے ہیں۔ ہم اپنے دفاع سے غافل نہ ہوں لیکن ایک اندھی قسم کی دشمنی تو نہ پالیں۔ ہمارے ہندوستان سے مسائل ہیں‘ ہماری دشمنی نہیں ہے۔ امارت کی نشانیاں ہمارے بڑے شہروں میں ملتی ہیں لیکن اس سے کوئی انکار تو نہیں کہ اصل میں ہم ایک غریب ملک ہیں۔ خطِ غربت سے نیچے کتنے فیصد ہماری آبادی رہتی ہے؟ اعداد و شمار بور کام ہے لہٰذا اس میں جانے کی ضرورت نہیں لیکن اتنا ہمیں نہیں پتا کہ بیشتر ہماری آبادی کو صاف پینے کا پانی میسر نہیں۔ تعلیم و صحت کی حالت آپ یہاں دیکھ لیں۔ امیر اور غریب کے درمیان فرق کو کچھ دیکھ لیا جائے۔ مسائل ہمارے کتنے ہیں ان پر توجہ دی جائے۔ دفاع کیلئے جتنے ٹینک اور طیارے چاہئیں وہ ہمارے پاس ہیں۔ ہماری ملٹری کا شمار دنیا کی طاقتور ترین عسکری قوتوں میں ہوتا ہے۔ اور تو اور ہمارے پاس ایٹمی ایندھن کا اچھا خاصا ذخیرہ ہے‘ لیکن یہ جو ہمارے دفاعی دانشور ہیں یا جنہیں ایکسپرٹ کہا جاتا ہے ان سے بات کریں تو یہ کہیں گے نہیں‘ ایٹمی ایندھن کافی نہیں‘ فلاں خطرے کا جواب فلاں چیز سے دینا ضروری ہے۔ اور یوں ہمارے درمیان ہتھیاروں کی دوڑ کبھی ختم نہیں ہوتی۔ لگتا تو یوں ہے کہ ان دانشوروں کی روزی روٹی ہتھیاروں کی اس دوڑ کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ دوڑ کہیں رک گئی تو ان کی روزی روٹی خطرے میں پڑ جائے گی۔
اس ضمن میں یہ ماننا پڑے گا کہ صوفوں پر براجمان سب سے بڑے غازی ہم پنجاب والے ہیں۔ ہندوستان دشمنی پر سب سے آسان ورغلائے جانے والے ہم ہیں۔ مذہب کا نعرہ لگے ہمارے بازو ہوا میں جا اٹھتے ہیں۔ ہندوستان کا نام آئے تو اونچا نعرہ پھر لگ جاتا ہے۔ 1970ء کا الیکشن دیکھ لیں‘ پنجاب کے عوام ذوالفقارعلی بھٹو کے پیچھے لگ گئے‘ ایک تو روٹی‘ کپڑا اور مکان کے نعرے کے حوالے سے اور دوسرا ہندوستان سے ہزار سالہ جنگ کے نعرے پر۔ بھٹو کے رویے بھی ملاحظہ ہوں‘ اپنے گاڈ فادر فیلڈ مارشل ایوب خان کو 1965ء کی جنگ کی راہ دکھائی اور پھر 1970-71ء میں جنرل یحییٰ خان کی آنکھوں پر وہ پردے ڈالے کہ شیخ مجیب الرحمن اور عوامی لیگ سے مفاہمت نہ ہو سکی‘ اور یوں متحدہ پاکستان کا کام تمام ہوا۔ ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہئیں‘ ہندوستان سے حالیہ جھڑپ میں پی اے ایف کے ہوا بازوں نے کمال کی کارکردگی دکھائی۔ قوم کا سر فخر سے بلند ہوا۔ ہمارا اعتماد بڑھا‘ ہمارے حوصلے بڑھے۔ جو ثابت کرنا تھا ہمارے ہوابازوں نے کر دیا۔ کسی جھڑپ یا جنگ میں ایسا نتیجہ ملے تو عقل مندی اس میں ہوتی ہے کہ گھوڑوں کی رفتار ذرا تھمے۔ تحمل اور بردباری سے کام لیا جائے۔ یہ نہیں کہ ڈھول پیٹنے اور بڑھکیں مارنے کا عمل بند ہی نہ ہو۔ جو اپنے آپ کو بڑی قومیں کہلائیں وہ ایسا نہیں کرتیں۔
لیکن یہاں جنون کی توپیں تھمنے کا نام نہیں لے رہیں۔ جنگ کا مقصد جنگ نہیں ہونا چاہیے۔ جنگ کا مقصد سیاسی مقاصد حاصل کرنا ہوتا ہے۔ ہندوستان سے جھڑپ میں ہمارے مقاصد پورے ہو گئے۔ سبکی ہندوستان کی ہوئی‘ ہماری عالمی پوزیشن بہتر ہو گئی ہے۔ سفارتی محاذ پر ہم اچھے لگنے لگے ہیں۔ اب توجہ دوسرے مسائل پر ہونی چاہیے۔ لیکن کون سنے ایسی باتیں؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved