خیبرپختونخوا‘ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں حالیہ طوفانی بارشوں اور سیلابوں نے جس تباہی کی داستان رقم کی ہے وہ دل دہلا دینے والی ہے۔ متاثرہ علاقوں کی جو وڈیوز سامنے آ رہی ہیں وہ قیامت صغریٰ کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ ابتدائی اطلاعات میں 330سے زائد انسانوں کی زندگی سیلاب کے پانی میں بہہ گئی۔ اس المناک حادثے پر ہر آنکھ اشکبار ہے۔ سینکڑوں افراد کی زندگی کی شمعیں ایک ہی لمحے میں گل ہو گئیں۔ ہم اس دردناک سانحے پر گہرے دکھ اور متاثرہ خاندانوں سے دلی ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔ دکھ کی اس گھڑی میں ایک اور افسوسناک خبر یہ ملی کہ خیبرپختونخوا حکومت کا ایک ہیلی کاپٹر امدادی کاموں کے دوران گر کر تباہ ہو گیا‘ جس میں دو پائلٹس سمیت عملے کے پانچ افراد شہید ہو گئے۔ یہ وہ بہادر لوگ تھے جو اپنی جان کی پروا کیے بغیر دوسروں کی مدد میں مصروف تھے۔ ان کی قربانی ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ انسانیت کی خدمت میں کس قدر جذبہ اور لگن درکار ہوتی ہے۔ بونیر‘ سوات‘ باجوڑ‘ تورغر‘ مانسہرہ‘ شانگلہ اور بٹگرام جیسے اضلاع میں بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔ صرف بونیر میں 184سے زیادہ افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ یہ صرف اعداد و شمار نہیں بلکہ ہر ایک عدد کے پیچھے ایک پورا خاندان اور بے شمار خواب پنہاں ہیں۔
یہ وقت کسی پر الزام تراشی یا سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا نہیں بلکہ یہ وقت متحد ہو کر متاثرین کی مدد کا ہے۔ صوبائی حکومت نے متاثرہ اضلاع کے لیے 50کروڑ روپے کے امدادی فنڈز جاری کر دیے ہیں۔ پاک فوج اور فرنٹیئر کور کا امدادی آپریشن سوات اور باجوڑ میں بھرپور انداز میں جاری ہے۔ آئی جی ایف سی نارتھ کا ہیلی کاپٹر بھی امدادی سرگرمیوں میں حصہ لے رہا ہے۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے متاثرین کی بحالی کے لیے خصوصی ہدایات جاری کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ خیبرپختونخوا میں تعینات فوج امدادی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لے گی۔ ان ہدایات کے بعد ریسکیو اور امدادی کاموں کے لیے اضافی فوجی دستے روانہ کیے جا رہے ہیں جو متاثرہ علاقوں میں فوری مدد فراہم کریں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ انجینئرز کور کو پلوں کی مرمت اور جہاں ضروری ہو وہاں عارضی پلوں کی تعمیر کی ہدایت بھی کی گئی ہے تاکہ متاثرہ علاقوں تک امداد کی رسائی میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔ پاک فوج نے اپنی ایک دن کی تنخواہ اور 600ٹن سے زیادہ راشن متاثرہ عوام کی امداد کے لیے وقف کر دیا ہے۔ یہ اقدامات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ پاک فوج مشکل کی ہر گھڑی میں خیبرپختونخوا کے بہادر عوام کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہے۔ وزیراعظم نے بھی این ڈی ایم اے کو تمام وسائل بروئے کار لانے کی ہدایت کی ہے۔ سیلاب سے متاثر علاقوں کی مدد کیلئے قومی سطح پر اٹھائے جانے والے اقدامات اس بات کی دلیل ہیں کہ ایک قوم کی حیثیت سے ہم مشکل کی گھڑی میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ مشکل وقت میں قومی جذبے کا اظہار ہی ہماری اصل پہچان ہے جس پر ہم بلاشبہ فخر کر سکتے ہیں۔ 2022ء کے تباہ کن سیلاب کے دوران وفاقی حکومت نے متاثرہ علاقوں کے لیے مجموعی طور پر 70ارب روپے کے فنڈز کا اعلان کیا تھا۔ اس رقم کا بڑا حصہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے براہِ راست متاثرہ خاندانوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ اس وقت سیلاب کے نقصانات کے اندازے کے مطابق سندھ کو سب سے زیادہ نقصان ہوا تھا‘ جہاں ملک کے کل نقصانات کا 70فیصد تک رپورٹ کیا گیا تھا۔ پنجاب‘ بلوچستان اور خیبر پختونخوا بھی شدید متاثر ہوئے تھے لیکن نقصان کا تناسب سندھ کے مقابلے میں کم تھا۔ اس وقت وفاق میں پی ڈی ایم کی حکومت تھی اور وزیراعظم شہباز شریف تھے‘ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی جبکہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومتیں تھیں۔اس وقت وفاقی حکومت نے پنجاب اور سندھ کے ساتھ زیادہ مالی تعاون اس لیے کیا تھا کیونکہ سیلاب کی وجہ سے ان صوبوں کا نقصان زیادہ ہوا تھا۔ یہ ایک قومی ضرورت تھی اور اس وقت سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر انسانیت کی بنیاد پر امدادی کارروائیوں پر توجہ دی گئی۔ اب جبکہ خیبرپختونخوا حالیہ سیلابوں میں دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ متاثر ہوا ہے اور 330سے زائد قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا ہے تو اس وقت وفاقی حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ 2022ء کی طرح اس صوبے کو بھی ترجیحی بنیادوں پر زیادہ مالی معاونت فراہم کرے۔ متاثرین کی بحالی‘ انفراسٹرکچر کی مرمت اور زرعی نقصانات کی تلافی کے لیے بڑے پیمانے پر فنڈز کی ضرورت ہے۔
پچھلے کئی برسوں سے پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثرہو رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ ایک سائیکل ہے جب تک پورا نہیں ہو گا ہم ہر کچھ عرصے کے بعد سیلاب سے متاثر ہوتے رہیں گے‘ اس لیے حالیہ صورتحال کو کسی فرد یا ادارے کی نااہلی سے جوڑنا درست نہیں۔ ہمیں متاثرین کی مدد کے لیے ایک قوم کی حیثیت سے اٹھ کھڑے ہونا چاہیے۔ یہ وقت ایک دوسرے پر الزام تراشی کا نہیں بلکہ ایک دوسرے کا ساتھ دینے کا ہے۔ مشکل کی گھڑی میں ہم سب ایک دوسرے کا سہارا بنیں۔ ہم سب مل کر متاثرین کے دکھوں کو کم کرنے کی کوشش کریں‘ ان کی بحالی میں کردار ادا کریں اور یہ ثابت کریں کہ ایک قوم کی حیثیت سے ہم متحد ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کا وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور سے ٹیلیفونک رابطہ‘ سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر باہمی ہمدردی اور قومی یکجہتی کی ایک عمدہ مثال ہے۔ یہ عمل اس بات کا عکاس ہے کہ مشکل کی گھڑی میں سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر انسانیت اور بھائی چارے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ مریم نواز نے نہ صرف قیمتی جانوں کے ضیاع اور ریسکیو ہیلی کاپٹر حادثے میں ہونے والی شہادتوں پر گہرے دکھ کا اظہار کیا بلکہ یہ یقین بھی دلایا کہ پنجاب حکومت کے تمام وسائل خیبرپختونخوا کے عوام کی مدد کے لیے دستیاب ہیں۔ ان کا یہ بیان کہ اہلِ پنجاب اپنے پختون بھائیوں اور بہنوں کے غم میں شریک ہیں‘ یہ ثابت کرتا ہے کہ ایک قوم کے طور پر ہم متحد ہیں اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں۔ ہمیں ایسے ہی رویے کی ضرورت ہے۔ یہی سیاسی بلوغت ہے اور صحت مند جمہوری معاشرے کی بنیاد بھی۔
آفات اور مشکل کی گھڑیوں میں ایک قوم کے طور پر ہمارا ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہونا اور ہمدردی کا مظاہرہ کرنا ہی ہماری اصل شناخت ہے۔ جب ہم تمام سیاسی اور ذاتی اختلافات کو بھلا کر ایک دوسرے کا سہارا بنتے ہیں تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسانیت کا رشتہ ہر رشتے سے بالا ہے۔ یہی جذبہ اگر روزمرہ کی زندگی‘ معاشی فیصلوں اور قومی معاملات میں بھی شامل ہو جائے تو کوئی بھی طاقت ہمیں ترقی کی راہ پر آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتی۔ جب ہم بحرانوں میں ایک دوسرے کی مدد کے لیے وسائل‘ وقت اور توانائی وقف کر سکتے ہیں تو یہی لگن اور جذبہ ہر شعبے کی بہتری کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ہمارا اتحاد صرف قدرتی آفات میں نہیں بلکہ ہر شعبے میں ہماری کامیابی کی ضمانت بن سکتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved