تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     17-08-2025

بونیر میں کلاؤڈ برسٹ کیسے ہوا؟

ملکِ عزیز کے شمالی علاقہ جات میں باسیوں پر گزشتہ روز جو قیامت ٹوٹی وہ پہلی بار نہیں ٹوٹی۔ ایسے سانحات اب ہر دوسرے چوتھے مہینے معمول بنتے جا رہے ہیں۔ کلاؤڈ برسٹ کی اصطلاح نئی نہیں ہے‘ پہلے سے سُن رکھی ہے اور اس کے مفہوم کا بھی علم ہے۔ پڑھے لکھے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کلاؤڈ برسٹ کیا ہے۔ سائنس بتاتی ہے کہ عام طور پر کلاؤڈ برسٹ اس وقت ہوتا ہے جب گرم ہوا نمی سے بھری ہوا کو اپنے ساتھ اڑا کر اوپر ٹھنڈی فضا میں لے جاتی ہے۔ بلندی پر جب گرم ہوا میں موجود نمی ٹھنڈی ہو کر بارش کے قطروں میں تبدیل ہوتی ہے تو پانی کی مقدار اتنی زیادہ ہو جاتی ہے کہ بادل ان کو سنبھال نہیں پاتے اور وہ پانی بادلوں کو پھاڑ کر شدید موسلادھار بارش کی صورت میں زمین پر گرتا ہے۔ ایسی بارش اگر آدھا گھنٹہ بھی ہو جائے تو دو چار سینٹی میٹر سے کم بارش نہیں ہوتی۔ ایسی بارش عام طور پر ایک علاقے تک محدود رہتی ہے لیکن اگر کلاؤڈ برسٹ پہاڑی علاقوں میں ہو تو ڈھلوان پر پانی رک نہیں پاتا اور شدید سیلابی ریلوں کی شکل اختیار کر کے وسیع پیمانے پر تباہی مچانے کا باعث بنتا ہے۔ مون سون تو ویسے ہی بارشوں کا موسم ہے‘ لہٰذا ایسے موسم میں کلاؤڈ برسٹ کا خطرہ عام دنوں کی نسبت کہیں زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ فی زمانہ چونکہ ہمارا ملک ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے اس لیے کلاؤڈ برسٹ جیسے مظاہر مزید شدت اختیار کر رہے ہیں۔
جتنے وافر اور جتنے تواتر کے ساتھ اب کلاؤڈ برسٹ ہو رہے ہیں‘ اس سے پہلے کبھی نہ ہوئے۔ گلگت بلتستان میں کلاؤڈ برسٹ سے تباہی‘ چکوال میں کلاؤڈ برسٹ کی وجہ سے سیلاب‘ اسلام آباد میں کلاؤڈ برسٹ کے نتیجے میں گاڑیاں پانی میں بہہ گئیں‘ آزاد کشمیر اور بلوچستان کے کچھ علاقوں میں بھی کلاؤڈ برسٹ سے متعلق واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں‘ اور بونیر میں جو کچھ ہوا وہ تو آپ اب بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں گے۔ یہ سارے واقعات تباہی لاتے ہیں‘ املاک تند پانی میں غرق ہو جاتی ہیں اور اگر کوئی انسان کسی سرکش ریلے کی زد میں آ جائے تو اس کا بچنا بھی مشکل‘ محال بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے۔
اب جبکہ ہم جان چکے ہیں کہ ہمارا ملک موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی زد میں ہے تو انتہائی ضروری ہے کہ ہم اپنے طرزِ زندگی‘ طرزِ عمل اور طرزِ رہائش کو تبدیل کریں‘ خصوصاً پہاڑی علاقوں میں۔ کلاؤڈ برسٹ جیسی ہنگامی موسمی صورت حال سے نمٹنے کے لیے کئی ممالک نے کئی سائنسی‘ تکنیکی اور انتظامی اقدامات کیے ہیں۔ جیسے سب جانتے ہیں کہ جاپان زلزلوں‘ طوفانوں اور بارشوں سے نبرد آزما رہتا ہے تو انہوں نے اپنے ہاں ایمرجنسی واٹر ڈرینج سسٹم اور زیر زمین پانی جمع کرنے کے بڑے بڑے ذخائر بنا رکھے ہیں۔ ٹوکیو میں واقع جی کینز پروجیکٹ (The G-Cans project) اس کی ایک مثال ہے۔ یہ ایک زیر زمین میگا ٹنل سسٹم ہے جو شدید بارش کے دوران برسنے والے پانی کو اپنے اندر جمع کر لیتا ہے۔ بعد میں ضرورت کے مطابق اس پانی کو مختلف نوعیت کے استعمالات میں لایا جاتا ہے‘ حتیٰ کہ ضرورت کے مطابق آب پاشی کے لیے بھی خارج کیا جاتا ہے۔ اسی طرح امریکہ میں جدید ریڈار اور سیٹلائٹ سسٹمز پر مشتمل نیشنل ویدر سروس فلیش فلڈز کی پیشگی اطلاع دیتا ہے۔ اس سلسلے میں عوام کے موبائلز پر ایپلی کیشنز موجود ہوتی ہیں جو انہیں موسم کے بارے میں وارننگز جاری کرتی رہتی ہیں۔ اس سلسلے میں ٹیکسٹ میسجنگ سے بھی کام لیا جاتا ہے۔ امریکہ میں اس کے علاوہ شہری منصوبہ بندی میں نکاسیِ آب کے نظاموں کو جدید خطوط پر استوار کیا گیا ہے تاکہ بارش کا پانی جمع نہ ہونے پائے یا پھر نظام ایسا ہے جس کا مقصد بارش کے اضافی پانی کو سٹور کر کے بعد میں استعمال کرنا ہے۔ ملک عزیز میں کلاؤڈ برسٹ کے نقصانات کو کم کرنے کے لیے عالمی تجربات سے سیکھنے کی اشد ضرورت ہے۔
ملک میں محکمہ موسمیات کو جدید ترین خطوط پر از سر نو مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ موسم سے متعلق ویب سائٹس پر اکثر مشاہدے میں آتا ہے کہ بارش تک کی بروقت قابلِ اعتماد اطلاع یا وارننگ کا نظام نہیں ہے۔ پی ٹی وی کا معروف کامیڈی شو ''ففٹی ففٹی‘‘ کا ایک کلپ یاد آ رہا ہے جس میں خبریں پڑھنے والا یہ بتا رہا ہوتا ہے کہ آج ملک بھر میں موسم خشک رہے گا لیکن نیوز اینکر کے پیچھے موجود کھڑکی کے شیشے میں اسی وقت بارش ہوتی بھی دکھائی دیتی ہے۔ موسمی اطلاع یہ ہوتی ہے کہ بارش ہو گی لیکن سارا دن خشک گزر جاتا ہے اور جس روز یہ بتایا جاتا ہے کہ بارش نہیں ہو گی اس روز اتنی بارش ہوتی ہے کہ سڑکوں پر گوڈے گوڈے پانی کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس لیے جب تک موسمیات کی خبریں دینے والے ادارے کو Sophisticated نہیں بنایا جاتا موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنا مشکل ہو گا۔
ضروری ہے کہ شہری علاقوں (پہاڑی اور میدانی‘ دونوں) میں نکاسیِ آب کا ایسا نظام بنایا جائے کہ اگر پانی ذخیرہ نہ کیا جا سکے تو وہ سڑکوں پر نہ آئے بلکہ نکاسیِ آب کے چینلز میں سے ہوتا ہوا کسی ندی نالے میں جا گرے۔ علاوہ ازیں قدرتی نالوں اور دریاؤں کے قریب تعمیرات پر پابندی عائد ہونی چاہیے کیونکہ ان تعمیرات کی وجہ سے بارش کے پانی کے قدرتی بہاؤ کا راستہ رکتا ہے۔ سکولوں اور کالجوں میں موسمیات کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگ یہ جا ن سکیں کہ شدید بارشوں کی صورت میں انہوں نے خود کو کیسے سنبھالنا ہے اور مصیبت میں پھنسے ہوئے لوگوں کی مدد کیسے کرنی ہے۔
اور سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ جنگلات کی کٹائی کی رفتار کم کر کے شجر کاری میں اضافہ کیا جائے۔ جنگلات کے ماہرین کا خیال ہے کہ اچھے موسم‘ خوش گوار ماحول اور معتدل موسمیات کے لیے کسی بھی ملک کے 25فیصد رقبے پر جنگلات کی موجودگی ضروری ہے۔ افسوسناک‘ حیرت ناک بلکہ تشویشناک بات یہ ہے کہ پاکستان میں جنگلات کا رقبہ پانچ فیصد سے بھی کم (کل رقبے کا 4.8 فیصد) ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اس 4.8فیصد رقبے کا لگ بھگ 40فیصد جھاڑیوں اور جڑی بوٹیوں پر مشتمل ہے جبکہ ہر سال ایک لاکھ ایکڑ سے زیادہ رقبے پر موجود جنگلات اور درخت کاٹ لیے جاتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان ایشیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ درخت کاٹے جا رہے ہیں۔ جنگلات اور درختوں کی بڑے پیمانے پر کٹائی بھی موسمیاتی تبدیلیوں کا ایک سبب ہے۔ علاوہ ازیں درخت کٹنے سے نہ صرف زمین کا کٹاؤ (Soil Erosion) زیادہ ہوتا ہے بلکہ پہاڑی علاقوں میں بہتے تند و تیز پانی کا راستہ روکنا بھی ناممکن ہو جاتا ہے۔ اس طرح جنگلات کی تیزی سے کٹائی کئی حوالوں سے ہمارے ملک کے ماحول اور موسموں کو متاثر کر رہی ہے۔
ان تباہیوں کا راستہ روکا جا سکتا ہے‘ سرکش سیلابوں کا رخ موڑا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے منظم اور اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ برسات کا موسم ہے تو ثواب سمجھ کر سب سے پہلے تو اپنے حصے کے پودے لگائیں۔ پودے جڑی بوٹیاں نہیں ہونی چاہئیں بلکہ ایسے پودے ہونے چاہئیں جو مستقبل میں بڑے ہو کر درخت بن سکیں۔ ہم بونیر جیسے سانحات پر افسوس تو بہت کرتے ہیں‘ کیا ہی اچھا ہو کہ ان سانحات پر افسوس کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے حصے کی شمع ہی جلاتے جائیں‘ اپنے حصے کے درخت ہی لگاتے جائیں۔
احمد فراز نے کیا خوب کہا تھا:
شکوۂ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved