تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     18-08-2025

حاضر جناب

آپ اس عنوان سے یہ خیال نہ کریں کہ میں ریاست کے اندر ریاست کی بات کرنا چاہتا ہوں۔ کئی مسلح اور انتہا پسند گروہ لسانیت اور فرقہ واریت کے علاوہ پارسائی کا لبادہ اوڑھ کر ریاست جیسی حاکمیت قائم کرنے کی کوشش میں رہے ہیں۔ ریاستیں جب لچک دکھاتی ہیں‘ مصلحت پسندی سے کام لیتی ہیں توعسکریت پسند گروہ ہتھیار اٹھا لیتے ہیں۔ قوم اور ریاست سازی کا عمل جن عناصر کا متقاضی ہے‘ وہ ایسی ریاستوں میں مفقود یا کمزور ہوتے ہیں۔ جہاں کہیں ایک مضبوط‘ پُرعزم‘ ویژنری اور مقبول عام رہنما آزادی کی تحریکوں کی لہروں سے ابھرے‘ وقت نے انہیں مہلت دی‘ انہوں نے اقتدار کی مرکزیت قائم کرنے‘ آزادی کے خوابوں کو عملی تعبیر میں ڈھالنے اور ملک کی نئی سمت مقرر کرنے کے لیے نہ صرف اپنی کرشماتی شخصیت کا سہارا لیا بلکہ سیاست کے کھیل کے بنیادی اصولوں کو وسیع تر قومی ہم آہنگی کی قبولیت سے ہم کنار بھی کر دیا۔ سیاسی ریل کی پختہ پٹڑی بچھ گئی‘ ٹرین چلا دی‘ منزل دکھا دی اور قوم کا ترقی‘ خوشحالی اور استحکام کا سفر شروع ہو گیا۔ کبھی رفتار کم‘ کبھی رکاوٹیں اور کبھی تیز تر سیاسی مسافت کے عمل میں عوام کا منزل پر یقین اور سیاست کاروں پر اعتماد بڑھتا چلا گیا۔ ہمارا قومی سفر بھی کچھ اسی طرح شروع ہوا تھا۔ جب یہ سطور لکھ رہا ہوں تو پندرہ اگست 1947ء کی قائداعظم کی وہ تقریر پیش نظر ہے جو انہوں نے بطور پہلے گورنر جنرل‘ حلف برداری کے بعد کی تھی۔ ایک آئینی‘ جمہوری‘ وفاقی اور فلاحی ریاست کا تصور اگرچہ انہوں نے پہلی مرتبہ نہیں دیا تھا مگر یہ خطاب اور اس کے ساتھ چار دن پہلے آئین ساز اسمبلی کے سامنے تاریخی کلمات کو ملا کر پڑھیں تو ایک واضح اور مفصل تصویر ذہن میں ابھرآتی ہے۔ ہر نئے آزادملک کی امنگیں ایک جیسی تھیں اور نئی سحر کے شفق رنگوں کی منتظر آنکھیں نئے اجالوں کی طرف ٹکٹکی باندھے ہوئے تھیں۔ نوآبادیاتی نظام کے گرنے کے بعد عالمی سطح پر آزادی کا نعرہ نہ صرف سامراجی طاقتوں کے خلاف بلکہ فرد کی سیاسی‘ فکری اور ثقافتی آزادی کا امکان بھی لیے ہوئے تھا۔ عالمی ماحول ایسی ریاستوں کی تشکیل کے لیے نہ صرف سازگار تھا بلکہ ہر نوع کا تعاون بھی مہیا تھا۔ مگر پھر حالات تبدیل ہونے لگے۔
ایک عالمی نظام جس کے بنیادی اصول پر عالمی جنگ کے بعد بڑی طاقتوں میں ہم آہنگی تھی وہ مشرق اور مغرب کے درمیان نظریاتی دبائو میں چند سالوں ہی میں آ گیا تھا۔ دونوں جانب سے سیاسی اور نظریاتی توسیع پسندی کا مظاہرہ ہونے لگا تو انہیں کلیدی اتحادیوں کی ضرورت پڑی۔ ہمارے آزادی کے خواب پہلے ہی بکھر رہے تھے لیکن پھر طاقت کا توازن سیاستدانوں کے ہاتھ سے نکل کر خود پسند جارح اور جاہ طلب سرکاری افسروں کے پاس چلا گیا ۔ اب تو تاریخ کے اوراق کھلے پڑے ہیں‘ مزید ہم کیا کہیں۔ انہیں عوام کی تائید یا احکامات تو دور کی بات‘ رعونت میں ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی اورعالمی صف بندی کے پیش نظر 'ہم حاضر ہیں‘ کی صدائیں ایسے لفظوں اور جذبات کے ساتھ بلند کیں کہ انہیں یہاں دہراتے ہوئے شرم آتی ہے۔ قبولیت کے دروازے آناً فاناً مغرب میں کھل گئے اور نئے سیاسی نظریات کی بُنت کاری کچھ اس طرح ہونے لگی کہ بعد از نوآبادیاتی ریاستوں میں عسکری ادارے ریاست کی معاشی ترقی اور خوشحالی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ سیاسی ادارے ان کے مقابلے میں کمزور‘ نااہل اور یکجہتی کے بجائے سیاسی کشمکش کو ہوا دیتے ہیں۔ اس کے پیچھے مغرب کا خوف یہ تھا کہ جمہوری عمل کہیں ان ریاستوں کو چین اور سوویت یونین کی طرف نہ لے جائے۔اب ایسا بہت کچھ موجود ہے جس سے آپ اندازے بلکہ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ کون تھے جنہوں نے قومی سلامتی کے خطرات کے پیش نظر غیر جانبداری کو ترک کر کے مغرب کے دفاعی معاہدوں میں ہمیں شامل کروایا۔ ظاہر ہے کہ پھر نظام بھی بدل گیا‘ آئین بھی‘ سیاسی مکالمہ بھی۔ ہمارے جاگیردار اور گدی نشین سیاسی گھرانے جو آج بھی طاقتور ہیں‘ وہ ریاستی سرپرستی کے کرشموں سے سامراجی نظام کے زمانے سے آشنا تھے۔ وقت بدلنے کے ساتھ وہ نئے نظام کی برکتوں سے فیضیاب ہونے کے لیے بے تاب تھے۔ جنہوں نے بعد میں عوامی انقلاب کے نعرے اور عوامی رہنما کے خطابات پائے‘ 11 سال تک نئے دستور‘ جسے جالب جیسے جرأت مند بے نور کہتے تھے‘ کے تابع خوشحال سے مزید خوشحال اور نہال ہوتے رہے۔ اب مزید کھری باتیں کرنے کی ہمت نہیں۔ آپ خود سوچیں اور سیاسی منافقت اور عوامی جادوگری کی گتھیاں خود ہی سلجھائیں۔
جوکچھ مغرب کی اعانت سے بنا پائے تھے‘ جس کے بارے میں ایک گزشتہ مضمون میں لکھ چکا ہوں‘ ایک ہی ضرب سے زمین بوس کر دیا گیا۔ ایک نیا ابھرتا صنعتی طبقہ اور نئی معیشت جاگیردار طبقے کے لیے ایک سماجی اور سیاسی خطرے سے کم نہ تھی۔ برابری اور مساوات کے تقاضے کچھ اور ہوتے ہیں۔ اور ایسا صنعتی انقلاب کے ساتھ جمہوری رویوں اور سیاسی ثقافت سے ممکن ہو سکتا ہے۔ شخصیت پرستی کی آگ میں ہم ایسے پڑے‘ جو ہماری تاریخی روایات میں آسمان سے اترے نجات دہندوں کی شکل میں ہماری سیاسی شخصیت کا حصہ رہی ہے‘ کہ دوست اور دشمن کی پہچان قومی شعور سے نکل گئی۔ ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ بس ہماری قسمت ہی ایسی تھی کہ سیاسی حادثات مزید سیاسی حادثات کو جنم دیتے رہے اور ہمارے دکھ درد بزبان غالب: مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں۔
عالمی نظام میں ایک نیا موڑ آیا جب مغرب میں فلاحی ریاست کے خلاف سیاسی دھارا کنزرویٹو مارگریٹ تھیچر کو برطانیہ کی وزارتِ عظمیٰ اور رونلڈ ریگن کو امریکہ کی صدارت کے عہدے پہ لے آیا۔ سوویت یونین کے فرسودہ نظام میں اندرونی خوف اور شخصی آمریت نے میری عمر سے زائد کے بوڑھوں کو اقتدار میں رکھا ہوا تھا۔ انہیں ادراک ہی نہیں تھا کہ طاقت کے زور پر چلنے والے نظام کی لاٹھی کو عوامی نفرت کی دیمک چاٹ چکی ہے۔ زمانہ بدل چکا تھا مگر ان کی توسیع پسندی کے پرانے خواب ابھی زندہ تھے۔ مشرقی یورپ میں کئی بار طاقت آزمانے کے بعد ہمارے پڑوس افغانستان میں آ دھمکے۔ایک بار پھر مغرب کی طرف ہمارے راستے ایسے کھلے جس طرح ہاڑ کے مہینے کی تیز دھوپ کے بعد مون سون کے بادل برستے ہیں۔ ہر طرف ہریالی ہی ہریالی نظر آنے لگی۔ محبت کی اس بغل گیری سے ہم آج تک نہیں سنبھل سکے۔ ہر حادثے کے بعد ہم جمہوری پٹڑی کی طرف لوٹتے تو رہے‘ مگر ٹرین کے آخری ڈبوں کی سواریوں کی طرح‘ اور یہ بھی خبر نہ تھی کہ ہم کسی کی مقرر کردہ سمت کی طرف جا رہے ہیں۔ تیسرا دور بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ زیادہ نہیں لکھ سکتا‘ بس اتنا کہ پھر ہم اتحادی ہو گئے‘ ایک نئی جنگ کے فیوض وبرکات کی بارشیں برسیں۔ اس سیلاب کا پانی ابھی تک خشک نہیں ہو سکا۔ وہ جو نظام سرپرستی سے چار مرتبہ وجود پذیر ہوا تھا آج کل ایک زمانے کے معتبر جمہوری سیاستدان اُس قیمتی تحفے کو خوبصورت سیاسی زبان میں لپیٹ کر ہمیں قبول کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ہمیں تو قبول ہے لیکن اگر طبیعت کو ناگوار نہ گزرے تو ماضی کے تجربات کی روشنی میں ذاتی منفعت اور قومی مفادات کے تضادات کا بھی کچھ مشاہدہ کر لینے میں کوئی حرج نہیں۔ایسے واقعات ہمیں تاریخ کے دریچوں میں جھانکنے پر مجبور کرتے ہیں۔ مغرب میں بند دروازے ایک بار پھر کھل گئے ہیں اور کچھ اس انداز میں کہ ایسی مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔ لگتا ہے کہ اب استحکام ہوگا‘ سرمایہ کاری بڑھے گی‘ معدنی وسائل سونا اگلیں گے‘ ہم ترقی کریں گے۔ ہم ایسے پُرامید مستقبل کے خواب دیکھتے ہوئے آج سے چین کی نیند سوئیں گے۔ آپ بھی یقین کر لیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved