شہرِ اقتدار کے وہ معتبر لوگ جنہوں نے 2025ء کے ایوارڈ کی تقریب میں شرکت کی‘ ان کے مطابق جب ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو ہال میں داخل ہوئے تو اُن کا استقبال ایک عظیم ہیرو والا تھا۔ پھر پاکستان ایئر فورس کے وہ ہواباز شجاعت کے میڈل لینے کے لیے آئے جنہوں نے رافیل سمیت انڈین لڑاکا طیارے پتنگوں کی طرح گرائے تھے۔ ان کے آنے پہ لوگوں نے استعمال تو ہاتھ کیے لیکن تالی دل سے بجائی۔ پھرجوں جوں اعزازات کے فرمائشی فنکار آتے گئے‘ سرگوشیاں گفتگو میں بدلنا شروع ہو گئیں۔ محاورہ ہے دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔ اسلام آباد میں دیواروں کے کان نہیں ہوتے بلکہ کانوں کی دیواریں بنائی جاتی ہیں۔ اسی لیے ہر دیوار کے پیچھے سے ہر طرح کا ''لِیک‘‘ پچھلے 78 سالوں سے مسلسل سامنے آتا رہا ہے۔ ہال کے اندر تین طرح کی سرگوشیاں ہونا بیان کی گئیں۔
میڈلز کے اعزازی بازار کی پہلی سرگوشی۔ 'واقعی‘: تنگ ٹائیوں میں گلے پھنسائے‘ باڈی فِٹ شرٹس میں ڈھیلے پیٹ سنبھالے لاہوری گروپ کے پسندیدہ بیورو کریٹس کے نام پکارے جانے لگے ۔ا یسے میں ایک آواز آئی: Oh Really۔ اس نے سائنس ٹیکنالوجی‘ علم‘ ادب‘ فن یا ہنر میں کون سا امتیازی معرکہ مارا ہے؟ ابھی میں نے قومی زندگی کے جن اہم فیلڈز کا تذکرہ کیا ہے اُن کی بابت امتیازی اعزازات والے ایوارڈ پڑوسی ملک میں بھی سال 2025ء میں مختلف میدانوں کے ہیروز کو عطا کیے گئے۔ ہمارے صدر ہائوس کی طرح اُن کے راشٹر پتی بھَوّن میں تقریب منعقد ہوئی‘ جس میں بھارت کا سب سے بڑا بھارت رتن ایوارڈ غیر معمولی اور انتہائی امتیازی قومی سطح کی خدمات پر صرف تین لوگوں کو دیا گیا (یاد رہے اس وقت بھارت کی آبادی صرف اور صرف 150 کروڑ افراد پر مشتمل ہے اور ہم 25 کروڑ)۔ بھارت کا یہ سب سے بڑا سویلین ایوارڈ لینے والی پہلی شخصیت جسٹس ریٹائرڈ جگدیش سنگھ کھہیر سابق چیف جسٹس آف انڈیا ہیں‘ جنہوں نے پبلک افیئرز پر اتنے زبردست نوٹس لیے‘ حیران کن تعداد میں تاریخ ساز فیصلے صادر کیے جس کی وجہ سے اُنہیں سب سے بڑے اعزازات کی سب سے بڑی صف میں لاکھڑا کیا گیا۔ دوسرے نمبر پر شاردا سِنہا ایک گڑوی بجانے والی لوک فنکارہ ہیں‘ جنہوں نے پورے بھارت میں میلوں‘ ٹھیلوں اور نوٹنکی میں اپنے فن کا مدھر جادو جگایا۔ اُنہیں یہ اعزاز بعد از وفات دیا گیا۔ تیسرا ایوارڈ کمیو دانی رجنی کانت لاکھیا کو ملا‘ جو آرٹس کے شعبے میں لاکھوں کامیاب اور نام دار شاگرد چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوئے۔ بھارت کا دوسرا سب سے بڑا اعزاز پدم بھوشن ہے۔ اس سال وہ بابیک دیب رائے کو ملا‘ جو بنگلہ دیش والے ڈاکٹر یونس کی طرح بھارت کے ممتاز ماہرِ معیشت ہیں۔ بھارتی معیشت پر سب سے زیادہ لٹریچر اور ایجوکیشن کے ذریعے اُن کی خدمات کو بعد از وفات یہ اعزاز دے کرخراج تحسین پیش کیا گیا۔ وہ گورنمنٹ آف انڈیا کے ایڈوائزر بھی رہے۔ بھارت کا یہ دوسرا امتیازی ایوارڈ حاصل کرنے والی دوسری بھارتی شخصیت کا نام ڈاکٹر شبانہ چندرا کمار ہے‘ وہ بھارت کے قبائلی سماج کی ممتاز فوک ڈانسر ہیں۔ بھارت کا دوسرا بڑا ایوارڈ لینے والی تیسری شخصیت صدھاوی رِتما بھارا ایک سوشل ورکر ہیں۔ تیسرا ایوارڈ پدما شری ہے۔ چوتھا ایوارڈ ساہتیا اکیڈمی ایوارڈز‘ نیشنل فلم ایوارڈز اور ارجونا ایوارڈ‘ درون چاریا ایوارڈ‘ راجیو گاندھی کھیل رتنا ایوارڈ‘ یہ سارے ایوارڈز پورے بھارت کے تمام شعبوں اور سماج میں سے چن چن کر اعلیٰ کارکردگی والے سیلف میڈ لوگوں کو دیے گئے۔ آج ہم جس دورمیں جی رہے ہیں اُس میں کچھ بھی خفیہ نہیں رہا۔ اس لیے جب اعزازات کو لنڈا بازار کی آئٹم بنا کر پیش کیا جائے گا تو پھر ایسی نامزدگیوں پر Real لوگ لازماً Really? کا سوال اُٹھائیں گے۔
ترک زبان کی ایک بڑی بامعنی حکایت یوں ہے: بایک جفت چشم عاشق می شوی‘ سپس بہ ہمہ چشم ہا کور می شوی
ترجمہ: جب کوئی کسی ایک کی آنکھوں کی محبت میں ڈوب جائے تو پھر باقی سب آنکھیں اُس کی نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہیں۔
میڈلز کے اعزازی بازار کی دوسری سرگوشی: میں یہاں کوئی پوائنٹ سکورنگ نہیں کروں گا‘ نہ ہی کسی تضحیک وتذلیل مقصود ہے‘ لیکن اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ جن لوگوں کو سویلین اعزاز دیے گئے اُن کے بارے میں دوسری سرگوشی یوں سامنے آئی: Given For What? یعنی اس نے کون سا تیر مارا ہے۔ اگر آپ پنجاب پولیس میں لاہوری گروپ کے افسران کے نام پڑھیں تو سوائے چند ناموں کے باقی سیاسی سوچ‘ سیاسی وابستگی یا سیاسی بیک گرائونڈ رکھتے ہیں۔ صحافت میں بھی جن کو چنا گیا ان میں سے اکثرصحافی نہیں ۔ جس راگ کا سکرپٹ ملتا ہے اُسے گا دیتے ہیں جس سے روک دیا جائے رُک جاتے ہیں۔ دنیا میں شاید ہی کسی ریاست نے اپنے قومی اعزازات کی اس طرح سے بے توقیری کی ہو۔ آپ فیصلہ سازوں کے بابائے آدم ڈونلڈ ٹرمپ کو دیکھ لیں۔ اس امریکی صدرنے سال 2025ء میں امریکہ کا سب سے بڑا سویلین ایوارڈ پریذیڈنشل میڈل آف فریڈم پورے امریکہ کی کل آبادی پر مشتمل 50 ریاستوں میں سے صرف 19 لوگوں کو تقسیم کیا۔ نمایاں خدمات ہوتی کیا ہیں‘ وائٹ ہائوس کی جاری کردہ اس فہرست سے پتا چلتا ہے۔ صدارتی تمغہ برائے آزادی لینے والی پہلی شخصیت خوسے آندریس معروف شیف اور انسان دوست شخصیت ہیں‘ جنہوں نے دنیا کے تباہی زدہ علاقوں میں خوردنی امداد فراہم کرنے کے لیے ورلڈ سینٹرل کچن کی بنیاد رکھی۔ دوسرے نمبر پر مشہور گلوکار بونو آئے‘ جو غربت اور ایڈز کے خلاف سرگرم ہیں اور جو ریڈ‘ وَن اور پیپ فار جیسی مریض دوست اور انسان دوست تنظیموں کے شریک بانی ہیں۔ تیسرے نمبر پر ہیلری راڈہیم کلنٹن آئیں۔ یہ صدر ٹرمپ کی سخت مخالف اور ڈیمو کریٹک پارٹی کی مرکزی لیڈر ہیں مگر امریکہ کی نمایاں ترین خاتون اور پہلی سینیٹر ہونے کی وجہ سے انہیں یہ اعزاز دیا گیا‘ جس نے براہ راست الیکشن لڑا اور عوامی ووٹوں سے ایوانِ بالا میں گئیں۔
جس طرح ان دنوں آئینی عہدوں کا تمسخر اُڑایا جا رہا ہے‘ ایسا مذاق ہماری تاریخ میں 23 مارچ اتوار کے دن سال 1958ء میں پہلی بار ایجاد ہوا۔ آرکائیو اُٹھا لیں‘ صدارتی سیکرٹریٹ کراچی سے جاری نوٹیفیکیشن F40(PRS/58) کہتا ہے:
"On the recommendations of his ministers, the president of Pakistan Major General Iskindar Mirza has been pleased to accept for himself the award of Nishan e Pakistan".
کون نہیں جانتا اسکندر مرزا قائداعظم محمد علی جناح‘ لیاقت علی خان‘ عبدالرب نشتر یا سرسید کے رشتہ دار نہیں تھے بلکہ میر جعفر کے پڑپوتے تھے۔ سراج الدولہ سے غداری کرکے بنگال میں برٹش راج لانے والے میر جعفر۔
اے سخن کے امام‘ جا اور بن ؍ ڈپٹی سیکرٹری ایجوکیشن
تُو سمجھ لے کہ ہے گلاب کا پھول ؍ ڈی پی آئی کے دفتروں کی دھول
تو ہے باقی ہر ایک سے بہتر ؍ جو نہ آتا ہو کام‘ وہ بھی کر
تو ہے انجکشنِ صفِ تقویم ؍ اور مرتا ہے شعبۂ تعلیم
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved