تحریر : میاں عمران احمد تاریخ اشاعت     18-08-2025

چینی سرمایہ کاری‘ ٹیکسٹائل اور ڈیجیٹل بینکنگ

وزیراعظم شہباز شریف نے اسلام آباد میں چینی ٹیکسٹائل گروپ کے لیے خصوصی اقتصادی زون کا افتتاح کیا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ اس زون کے قیام سے ملکی ٹیکسٹائل برآمدات میں تقریباً 400 ملین ڈالرز تک اضافے کا امکان ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کا ملک میں آنا خوش آئند ہے ۔ چین کے پاکستان کے ساتھ سفارتی‘ سیاسی‘ دفاعی اور کاروباری تعلقات دہائیوں پرانے ہیں اور دونوں ممالک ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ چین کے تعاون سے ملک میں آئی پی پیز کے تحت بجلی کے پلانٹس لگائے گئے۔ پی ٹی آئی دورِ حکومت میں جب آئی پی پیز کے معاہدوں کو ری وزٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو مقامی نجی اور سرکاری کمپنیوں نے سرکار کی شرائط مان لی تھیں لیکن چینی آئی پی پیز نے معاہدے تبدیل کرنے سے انکار کر دیا۔ اب جب موجودہ حکومت نے آئی پی پیز کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا فیصلہ کیا تو مقامی آئی پی پیز کو کامیابی سے قائل کر لیا لیکن چینی آئی پی پیز ابھی تک ڈٹے ہوئے ہیں اور معاہدے تبدیل کرنے کو تیار نہیں۔
چین کی جانب سے پاکستانی ٹیکسٹائل سیکٹر میں سرمایہ کاری کا ایک خاص پس منظر ہے۔ امریکہ نے چینی مصنوعات پر 34 فیصد ٹیرف لگا رکھا ہے جبکہ پاکستان پر ٹیرف 19 فیصد ہے‘ جو خطے میں سب سے کم ہے۔ بنگلہ دیش‘ بھارت‘ ویتنام پر ٹیرف پاکستان کی نسبت زیادہ ہے‘ بلکہ بھارت کے ساتھ امریکہ نے ٹیرف مذاکرات ہی ختم کر دیے ہیں۔ ممکنہ طور پر اسی وجہ سے پاکستان کا انتخاب کیا گیا‘ لیکن یہ پہلو بھی مدنظر رہے کہ امریکہ نے ملک کی مناسبت سے تھرڈ پارٹی کی درآمدات پر بھی ٹیرف لگایا ہے یعنی اگر کوئی چینی کمپنی پاکستان میں کمپنی کھول کر امریکہ کو برآمدات کرتی ہے تو اس پر ٹیرف ریٹ چین والا لاگو ہو گا نہ کہ پاکستان والا۔ اگر چینی سرمایہ کار پاکستانی سرمایہ کاروں کے ساتھ جوائنٹ وینچر کریں تو پھر شاید اس مسئلے کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔ چین نے الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری کے لیے ترکیہ میں پلانٹ لگایا ہے اور اسی طرح دوسرے ممالک میں بھی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے تاکہ امریکہ کو برآمدات کی جا سکیں۔ ان حالات میں چین کو پاکستان کی ضرورت ہے۔ پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ اس مرتبہ بہتر معاہدے کرے جن کا زیادہ فائدہ پاکستان کو ہو اور جو مراعات چینی ٹیکسٹائل گروپوں کو دی جا رہی ہیں وہی مراعات مقامی ٹیکسٹائل سرمایہ کاروں کو بھی دی جانی چاہئیں تاکہ مقابلے کی فضا برقرار رہ سکے اور ملکی ٹیکسٹائل کو بھی فائدہ ہو۔ ایک دوست بتا رہے تھے کہ ایک چینی کمپنی نے ان سے رابطہ کرکے ان کی کمپنی کی ٹیکسٹائل مصنوعات چین برآمد کرنے کا کہا۔ مطلب یہ کہ مہنگی بجلی‘ زیادہ شرح سود اور معاشی عدم استحکام میں بھی کچھ پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات چین کی نسبت سستی اور معیاری ہیں۔ چین میں بجلی سستی ہے‘ شرح سود کم ہے اور حکومت کی جانب سے سبسڈی بھی دی جاتی ہے۔ ان سب کے باوجود پاکستانی ٹیکسٹائل کی چین کو برآمدات اس طرف اشارہ ہے کہ پاکستانی ٹیکسٹائل سیکٹر پر اگر توجہ دی جائے تو یہ بہت بہتر کارکردگی دکھا سکتا ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے‘ ملکی جی ڈی پی کا تقریباً 25 فیصد زراعت سے جڑا ہے اور سب سے بڑا ایکسپورٹ سیکٹر ٹیکسٹائل ہے۔ تقریباً 17 ارب ڈالرز کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ ہیں‘ لیکن ملک میں متوسط اور غریب طبقے کے لیے پہننے کے کپڑے مہنگے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ملک میں استعمال شدہ کپڑوں (لنڈا بازار) کی درآمد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ 2024ء میں 43 کروڑ 40 لاکھ ڈالرز کے 10 لاکھ ٹن استعمال شدہ کپڑے درآمد کیے گئے۔ 2025ء میں یہ تعداد بڑھ کر 11 لاکھ 37 ہزار ٹن ہو گئی‘ جس کی مالیت تقریباً 51 کروڑ 10 لاکھ ڈالر ہے۔ ملک میں موجود کچھ مافیاز غریبوں کو ان سستے کپڑوں سے مستفید نہیں ہونے دیتے۔ خصوصی زونز میں کاروبار کرنے والے برآمد کنندگان تقریباً 70 فیصد لنڈا سیکٹر پر قابض ہیں۔ وہ صاف مال نکال کر دوبارہ ایکسپورٹ کر دیتے ہیں اور متوسط؍ غریب طبقہ اس سہولت سے بھی فائدہ نہیں اٹھا پاتا۔ ملک میں مہنگائی کے باعث غربت بڑھ کر 45 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ سرکار سے گزارش ہے کہ وہ مقامی ٹیکسٹائل سیکٹر کو مضبوط کرے تاکہ عوام کو سستا اور معیاری لباس بہ آسانی میسر آ سکے۔
بیرونی سرمایہ کاروں کو فائدہ پہنچانے کے بجائے چینی نظام کو ملک میں لانے کی زیادہ ضرورت ہے‘ جس پر درست سمت میں کام ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ برآمدات میں اضافے‘ ٹیکس آمدن کو بڑھانے اور درآمدات کو کرپشن فری کرنے کے لیے فیس لیس کلیئرنس سسٹم متعارف کرایا گیا تھا‘ جس سے کافی فائدہ ہوا اور کاروباری طبقے کی شکایات میں کمی آئی۔ کسٹم اور کلیئرنس افسران نے اس میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش تو کی لیکن سرکار نے نئے نظام کے نفاذ کویقینی بنایا۔ دنیا میں جہاں بھی انسانی مداخلت کو کم کیا گیا ہے وہاں نظام میں شفافیت دیکھنے میں آئی ہے۔ کیش لیس اکانومی کا تصور بھی ملکی ترقی کا ضامن ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں بنیادی تجارت اور لین دین کے نظام کو خودکار سسٹم سے جوڑنے کے فوائد سامنے آنے لگے ہیں۔ اس وقت ملک میں تقریباً 10کروڑ افراد انٹرنیٹ اور موبائل بینکنگ سے جڑے ہیں‘ جن کی سات ارب ٹرانزیکشنز کا ڈیٹا موجود ہے۔ حکومت نے ان صارفین کی تعداد 12 کروڑ سے بڑھانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اس کے علاوہ 20 لاکھ مرچنٹس کو اس سسٹم سے جوڑنے اور 15 ارب ٹرانزیکشن کا ہدف بھی طے کیا گیا ہے۔ پاکستان اس حوالے سے چین اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کے نقش قدم پر چل رہا ہے۔ چین میں تقریباً 80 فیصد ٹرانزیکشنز بینک یا موبائل ایپس سے ہوتی ہیں‘ جس کی وجہ سے کرپشن کم ہے۔ وہاں ٹیکس ریٹ پاکستان کی نسبت کم ہے مگر ٹیکس آمدن زیادہ ہے۔
جہاں حکومت کیش لیس اکانومی اور فیس لیس کلیئرنس پر زور دے رہی ہے وہاں منی لانڈرنگ کی روک تھام اور آن لائن ٹریڈنگ کے نام پر جوئے کے کاروبار کی روک تھام پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آج کل انفلوینسرز اور یوٹیوبرز پاکستان میں کھلے عام جوئے کی ایپس کو پروموٹ کر رہے ہیں اور انہیں روکا نہیں جا رہا۔ آج ایک بڑی گرفتاری ہوئی ہے جس سے امید ہے کہ جوئے کی پروموشن میں کمی آ سکتی ہے‘ لیکن شاید ابھی مزید کریک ڈاؤن کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں ان ایپس کو پروموٹ کرنے میں ڈیجیٹل بینکوں کا بھی بڑا کردار ہے۔ کیش لیس اکانومی میں سب سے پہلے قدم رکھنے والی دو بڑی ٹیلی کمیونی کیشن کمپنیوں نے ان ایپس کو زیادہ سہولتیں دی ہیں۔ کچھ بینک بھی سہولت کاری کر رہے ہیں۔ ان ایپس پر رجسٹریشن کے لیے کسی بینک یا ٹیلی کمیونی کیشن کمپنیوں کا موبائل نمبر ضروری ہوتا ہے۔ اگر بینک یا ٹیلی کام کمپنیاں یہ سہولت دینا بند کر دیں تو جوئے کی ایپس کا کاروبار بند ہو سکتا ہے۔ ایف آئی اے نے کچھ ویب سائٹس بلاک کی ہیں لیکن اس کے ساتھ ٹیلی کام کمپنیوں سے بھی ڈیٹا حاصل کرنے کی ضرورت ہے‘ جس سے یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ جوئے کی ویب سائٹس سے کتنی ٹرانزیکشنز ہوتی ہیں۔ ایک وارننگ کے بعد ان ٹیلی کام کمپنیوں کے ذمہ داران کے گرد بھی گھیرا تنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق ان ایپس کو سہولتیں فراہم کرنے میں ٹیلی کام کمپنیاں سب سے بڑی سہولت کار ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved