’’سپاہی آج بھی کوئی نہیں آیا کسی نے پھول ہی بھیجے نہ بستی کے گھروں سے آشنا گیتوں کی آوازیں سنائی دیں نہ پرچم کوئی لہرایا سپاہی‘ شام ہونے کو آئی اور کوئی نہیں آیا فنا کی خندقوں کو جان دے کر پار کر جانا بڑی بات!! جہاں جینے کی خاطر مر رہے ہوں لوگ‘ اُس بستی میں مر جانا بڑی بات!! مگر پل بھر کو یہ سوچا تو ہوتا تمہارے بعد گھر کی منتظر دہلیز کو دل کی نشانی کون دے گا؟ ہوائوں سے الجھتی روشنی کو‘ اعتبارِ کامرانی کون دے گا ؟ درودیوار سے لپٹی ہوئی بیلوں کو پانی کون دے گا‘‘ کیا میری طرح آپ بھی اس نظم کو پڑھ کر کسی ایسی دنیا میں چلے گئے ہیں جہاں دھرتی کے دفاع کے لیے کڑیل جوان اپنی متاعِ عزیز‘ اپنی جانیں دھرتی پر وار دیتے ہیں اور زندگی پر موت کو ترجیح دیتے ہیں؟ کیا میری طرح اس نظم کے مصرعوں نے آپ کی آنکھیں بھی نم کر دی ہیں؟ اس نظم کے مصرعوں سے جو دھندلی سی تصویریں بنتی ہیں‘ اُن میں ایک طرف وطن پر اپنی جان وارتا ہوا سپاہی ہے۔ سبز ہلالی پرچم میں لپٹا ہوا سرد جسم جو ابدی حیات کی جانب سفر کر چکا ہے اور دوسری جانب اس کی ذات سے جڑے ہوئے لوگ‘ جن کا وہ بھائی‘ باپ‘ بیٹا اور شوہر تھا۔ بھری دنیا میں جو اُس کے بغیر تنہا ہیں۔ وہ اپنی زندگی کی خوشیوں اور غموں میں سپاہی کا ساتھ چاہیں گے۔ اُس کا سہارا اور اُس کا وجود تلاش کریں گے لیکن راہِ حق کا مسافر تو ابدی حیات پا کر اب اس فانی دنیا کی خواہشات اور تقاضوں سے ماورا ہو چکا ہے۔ یہ دو مصرعے تو گویا بازگشت کی صورت بار بار ذہن سے ٹکراتے ہیں۔ ’’فنا کی خندقوں کو جان دے کر پار کر جانا بڑی بات!! جہاں جینے کی خاطر مر رہے ہوں لوگ‘ اُس بستی میں مر جانا بڑی بات!!‘‘ یہ دنیا جو فانی ہے۔ مفادات‘ خواہشات‘ آرزوئوں اور تمنائوں کی دنیا ہے۔ یہ دنیا‘ سیاست‘ مکروفریب‘ ریاکاری کی دنیا ہے! چراغِ جاں لے کر آندھیوں کا ہم سفر سپاہی بھی آخر اسی دنیا کا باسی ہوتا ہے۔ اُس کے توانا جسم میں دھڑکتا دل بھی تو خوابوں اور خواہشوں کے ریشم سے بُنا ہوتا ہے اور اس کی ہر ہر بُنت میں کتنی محبتوں کے ٹانکے لگے ہوتے ہیں۔ اپنے ماں باپ کے لیے محبت‘ بہن بھائیوں کے لیے پیار‘ شریکِ حیات کے لیے الفت اور اپنے بچوں کے لیے بے پناہ خواب‘ بے پناہ محبتیں‘ مستقبل کے سہانے سپنے… جان وطن پر وار دینے والے بھی ہماری طرح کے انسان ہی ہوتے ہیں۔ ہماری ساری تگ و دو جینے کے لیے ہے اور وہ جینے کی لذت سے آشنا ہوتے ہوئے بھی فنا کی وادی میں اتر جاتے ہیں۔ وفا اور قربانی کی کہانی کسی ایک گمنام سپاہی کی نہیں۔ میرے وطن کی دھرتی ایسے سینکڑوں جانبازوں کے لہو سے سیراب ہے جنہوں نے زندگی اور زندگی سے جڑی خوشیوں کی محبت پر وطن کی محبت کو فوقیت دی۔ وفا اور قربانی کی یہ کہانی آج بھی لکھی جا رہی ہے۔ دہشت گردی کی جس جنگ میں ہمیں جھونکا گیا‘ اگر آج اس کے شعلے‘ ہمارے آنگنوں تک نہیں پہنچے تو اس کے پیچھے سینکڑوں جانوں کی قربانیاں ہیں۔ آئے دن اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز کے پروگراموں کی گہما گہمی میں ایسی خبریں سنی ان سنی کر دی جاتی ہیں۔ فلاں مقام پر ’’سکیورٹی اہلکار‘‘ دہشت گردی کا نشانہ بن گئے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے فرض شناس جوانوں کی شہادت‘ پولیس اور فوج کے جانبازوں کی شہادت… کیا اتنی عظیم قربانیوں کو کوئی ایک محترم سیاستدان اپنے جذباتی بیان سے رائگاں کر سکتا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں! سید منور حسن کا شکریہ کہ انہوں نے ایسا بیان دے کر مجھ جیسے پاکستانیوں کے دلوں میں پاک فوج کے عظیم شہداء اور ہر لمحہ چاق و چوبند رہنے والے جوانوں کی محبت کو جگا دیا وگرنہ مصروف زندگی کے الجھے ہوئے شب و روز میں ہمیں اتنی فرصت ہی کہاں ملتی ہے کہ چند لمحے ہی سہی‘ اپنے دلوں کو اُن کی عقیدت سے بھر لیں جو جینے کی لذت سے آشنا ہوتے ہوئے بھی ہماری دھرتی کے امن کے لیے فنا کی وادی میں اُتر گئے۔ ہمارے بچوں کے مستقبل کو محفوظ اور پُرامن بنانے کے لیے اپنے جگر گوشوں کو یتیم کر گئے۔ اپنی بہنوں کے آنگنوں کو شاد و آباد رکھنے کے لیے اپنے گھروں میں ہجر اُتار گئے اور یہ سب برضاورغبت! عظیم تر ہے وہ سانس جس کی ڈوری خدا کے رستے میں ٹوٹتی ہے۔ ہم سب ان قربانیوں سے غافل رہتے مگر سچ بات ہے کہ سید صاحب کے اس ایک بیان نے ہمیں تڑپا کر رکھ دیا۔ دل اور زبان نے بیک وقت احتجاج کیا۔ ہم سب نے اس تکلیف کو محسوس کیا جو شہدا کے خاندان والوں کو ان الفاظ سے پہنچی۔ اگرچہ کوئی معافی اس چبھن کا ازالہ نہیں کر سکتی لیکن کیا ہی بہتر ہوتا کہ جماعت اسلامی اُن کے بیان کا دفاع کرنے کی بجائے‘ اُن ہزاروں لوگوں کے دکھ کو محسوس کرتی جن کے پیارے اس جنگ میں شہید ہوئے اور جنگ ابھی جاری ہے۔ اس جنگ کی آندھیوں کے مقابل کتنے سرفروش چراغِ جاں لے کر کھڑے ہیں۔ اُن کی قربانیوں کا رتی بھر احساس ہوتا تو جماعت ایک ملفوف انداز میں ہی سہی‘ سید صاحب کے الفاظ واپس لے لیتی۔ جماعت اسلامی بلاشبہ کرپشن سے پاک دانشوروں اور پڑھے لکھے افراد کی جماعت ہے۔ اپنے ہم وطنوں کی خدمت کے لیے ہر محاذ پر پیش پیش منظم سیاسی جماعت کی ایک شاندار مثال ہے۔ جماعت اسلامی کے شایانِ شان یہی تھا کہ وہ وطن کی سرحدوں کی حفاظت میں سینہ سپر جوانوں اور شہداء کے ساتھ کھڑی ہو۔ سیاست کرنے کا حق حاصل ہے مگر اس حد تک نہیں کہ ہم شہیدوں کا لہو فراموش کردیں: جہاں جینے کی خاطر مر رہے ہوں لوگ اُس بستی میں مر جانا بڑی بات!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved