تحریر : عرفان صدیقی تاریخ اشاعت     19-08-2025

اَنس الشریف کو بتایا بھی تھا!

پاکستان کے ایوانِ بالا (سینیٹ) میں غزہ پر اسرائیلی حملے اور قتل و غارت گری پر بحث کا آغاز ہوا تو زور دار تقریروں کے ''سپیل ویز‘‘ کھل گئے۔ آتشیں لفظوں کی پھلجھڑیاں چھوٹنے لگیں۔ یوں لگا جیسے ایوان کا اجلاس ختم ہوتے ہی ہر گوشۂ ارض سے ایسا فلک شگاف نعرۂ حق بلند ہو گا کہ اسرائیل کے در و بام لرز جائیں گے اور ستاون مسلم ممالک سے اُٹھنے والی للکار سے یہ ناسور جڑوں سے اکھڑ کر مکمل طور پر معدوم ہو جائے گا۔
میری باری آئی تو میں تقریر کا فن بھول گیا۔ بھرائی ہوئی آواز میں ایک نوحہ پڑھ دیا۔ یہ نوحہ آج بھی یوٹیوب پر پڑا ہے۔
میرے غزہ کے نہتے باسیو! میرے غزہ کے پھول جیسے بچّو! اپنے سامنے اپنے بچّوں کو موت کی آغوش میں جاتے دیکھتی ماؤ! میری بہنو! میری بیٹیو! میرے بزرگو! میرے بیٹو! ہم پاکستان کے پچیس کروڑ لوگ سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ دیکھ رہے ہیں کہ تمہارے گھر کھنڈر ہو رہے ہیں‘ دیکھ رہے ہیں کہ تمہاری بستیاں ملبے تلے دبا قبرستان بن رہی ہیں‘ دیکھ رہے ہیں کہ تمہارے ہسپتال‘ تمہارے سکول‘ تمہاری مسجدیں! تمہارے کیمپ‘ سب ظالمانہ بمباری کا نشانہ بن رہے ہیں۔ دیکھ رہے ہیں کہ تم بھوک اور پیاس سے بلک رہے ہو‘ دیکھ رہے ہیں کہ تمہارے لیے کوئی پناہ گاہ نہیں بچی‘ دیکھ رہے ہیں کہ بچے کس طرح ماں باپ کی لاشوں سے چمٹے رو رہے ہیں۔ ہم یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ ہم تمہارے دُکھ درد میں شریک ہیں لیکن میرے پھول جیسے بچو! میری ماؤ! میری بیٹیو! ہم تم سے بھی زیادہ مجبور اور بے بس ہیں۔ ہم اُن طاقتوں کا نام بھی نہیں لے سکتے جو اس ظلم میں شریک ہیں۔ ہمیں بھی زندہ رہنے کو روٹی چاہیے۔ ہمیں معاف کر دو۔ آج نیل کے ساحل سے کاشغر کی خاک تک دو ارب مسلمان نہیں‘ راکھ کا ایک ڈھیر ہے۔ ہم بھی اس ڈھیر کا حصہ ہیں۔ ہم تمہاری مدد نہیں کر سکتے‘ ہمیں معاف کر دو۔ بس اتنی التجا ہے کہ روزِ محشر اللہ کے حضور ہماری شکایت نہ کرنا اور اگر کرو بھی تو میرے حضورﷺ کی نظروں سے بچا کر کرنا۔ ہم کس طرح نبی رحمتﷺکا سامنا کریں گے۔ اللہ تمہارا حامی وناصر ہو ۔
اور اب‘ الجزیرہ کے رپورٹر انَس الشریف شہید کی آخری ٹویٹ سامنے آئی ہے جو متعدد دوسرے صحافیوں کی طرح اسرائیلی درندگی کا نشانہ بنے۔ ایک بیٹی اور ایک بیٹے کے والد نے دو سال قبل اسرائیلی بمباری کا نشانہ بننے والے والد کو سپردِ خاک کیا تھا۔ انَس نے اپنی شہادت کی خوشبو محسوس کرتے ہوئے لکھا: ''یہ میری وصیت اور میرا آخری پیغام ہے۔ اگر یہ الفاظ آپ تک پہنچیں تو جان لیجیے کہ اسرائیل مجھے قتل کرنے اور میری آواز کو خاموش کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ سب سے پہلے‘ آپ پر اللہ کا سلام‘ اس کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں۔ اللہ جانتا ہے کہ میں نے اپنی پوری کوشش اور اپنی ساری طاقت اپنے لوگوں کا سہارا اور آواز بننے میں لگا دی‘ جب سے میں نے جبالیا پناہ گزین کیمپ کی گلیوں اور کوچوں میں آنکھ کھولی۔ میری امید تھی کہ اللہ میری عمر دراز کرے تاکہ میں اپنے اہلِ خانہ اور عزیزوں کے ساتھ اپنے اصل شہر‘ مقبوضہ عسقلان (المجدل)‘ واپس جا سکوں۔ مگر اللہ کی مرضی مقدم رہی‘ اور اس کا فیصلہ حتمی ہے۔ میں نے دکھ کو اس کی ہر صورت میں جیا‘ کئی بار مصیبت اور نقصان کا ذائقہ چکھا‘ پھر بھی کبھی اس بات میں ہچکچاہٹ نہ کی کہ سچائی کو جوں کا توں پہنچاؤں بغیر کسی تحریف یا مسخ کرنے کے تاکہ اللہ ان پر گواہ ہو جو خاموش رہے‘ جو ہمارے قتل کو قبول کرتے رہے‘ جنہوں نے ہماری سانسیں گھونٹ دیں‘ اور جن کے دل ہمارے بچوں اور خواتین کے بکھرے جسمانی ٹکڑوں کو دیکھ کر بھی نہ پسیجے‘ اور جنہوں نے اس قتلِ عام کو روکنے کے لیے کچھ نہ کیا جو ہمارے لوگ ایک سال سے زیادہ عرصے سے جھیل رہے ہیں۔
میں آپ کو فلسطین کے سپرد کرتا ہوں جو مسلم دنیا کا تاج ہے‘ اور دنیا کے ہر آزاد انسان کی دھڑکن ہے۔ میں آپ کو اس کے لوگوں کے سپرد کرتا ہوں‘ اس کے مظلوم اور معصوم بچوں کے سپرد‘ جنہیں کبھی خواب دیکھنے یا امن و سکون میں جینے کا موقع نہ ملا۔ جن کے پاکیزہ جسم ہزاروں ٹن اسرائیلی بموں اور میزائلوں کے نیچے کچلے گئے‘ ٹکڑے ٹکڑے کر دیے گئے اور دیواروں پر بکھر گئے۔
میں آپ سے کہتا ہوں کہ زنجیریں آپ کو خاموش نہ کریں‘ نہ ہی سرحدیں آپ کو روکیں۔ زمین اور اس کے لوگوں کی آزادی تک آپ پُل بنیں‘ یہاں تک کہ عزت و آزادی کا سورج ہمارے چرائے گئے وطن پر طلوع ہو۔ میں آپ کو اپنے اہلِ خانہ کے سپرد کرتا ہوں۔ میں آپ کو اپنی بیٹی ''شام‘‘ کے سپرد کرتا ہوں‘ جو میری آنکھوں کا نور ہے‘ جس کو اس طرح بڑا ہوتا دیکھنے کا موقع مجھے نہ ملا جیسا میں نے خواب دیکھا تھا۔
میں آپ کو اپنے پیارے بیٹے ''صلاح‘‘ کے سپرد کرتا ہوں‘ جس کی زندگی میں ساتھ دینے اور اسے سہارا دینے کی تمنا تھی‘ یہاں تک کہ وہ اتنا مضبوط ہو جاتا کہ میرا بوجھ اٹھا سکے اور مشن کو آگے بڑھا سکے۔
میں آپ کو اپنی عزیز ماں کے سپرد کرتا ہوں‘ جن کی بابرکت دعاؤں نے مجھے یہاں تک پہنچایا‘ جن کی دعائیں میرا قلعہ تھیں اور جن کا نور میری رہنمائی کرتا رہا۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ انہیں طاقت عطا کرے اور میری طرف سے بہترین اجر دے۔
میں آپ کو اپنی زندگی کی ساتھی‘ اپنی پیاری بیوی ''امِ صلاح (بیان)‘‘ کے سپرد کرتا ہوں‘ جن سے جنگ نے مجھے طویل دنوں اور مہینوں کے لیے جدا کر دیا‘ مگر وہ ہمارے رشتے پر قائم رہیں‘ زیتون کے درخت کے تنے کی طرح مضبوط رہیں‘ صابر‘ اللہ پر بھروسہ کرنے والی‘ اور میری غیر موجودگی میں سارا بوجھ اپنی پوری طاقت اور ایمان کے ساتھ اٹھانے والی۔
میں آپ سب سے کہتا ہوں کہ ان کا ساتھ دیں‘ ان کا سہارا بنیں‘ اللہ تعالیٰ کے بعد۔ اگر میں مروں تو اپنے اصولوں پر ڈٹے ہوئے مروں۔ میں اللہ کے سامنے گواہی دیتا ہوں کہ میں اس کے فیصلے پر راضی ہوں‘ اس سے ملاقات کا یقین رکھتا ہوں‘ اور اس پر مطمئن ہوں کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ بہتر اور دائمی ہے۔
اے اللہ! مجھے شہدا میں شامل فرما‘ میرے اگلے پچھلے گناہ معاف فرما‘ اور میرے خون کو میری قوم اور میرے اہلِ خانہ کے لیے آزادی کی راہ کو روشن کرنے والا بنا۔ اگر میں نے کمی کی ہو تو مجھے معاف کر دینا‘ اور میرے لیے رحمت کی دعا کرنا‘ کیونکہ میں نے اپنا وعدہ نبھایا اور کبھی بدلا یا غداری نہیں کی۔ غزہ کو مت بھولنا... اور مجھے بھی اپنی مخلص دعاؤں میں بخشش اور قبولیت کے لیے یاد رکھنا۔
انَس جمال الشریف ... 06-04-2025‘‘
یہ ہے وہ پیغام جو ہمارے پیارے انَس نے اپنی شہادت پر شائع کرنے کی وصیت کی تھی۔
میں نے تو اپنی بے بسی و بے چارگی بہت پہلے بتا دی تھی۔ دعا ہی کر سکتا ہوں کہ اللہ انَس کو درجاتِ بلند سے نوازے۔ اس کی بوڑھی والدہ‘ اس کی اہلیہ‘ اس کی بیٹی 'شام‘ اور اس کے بیٹے 'صلاح‘ کو صبر و استقامت عطا کرے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved