ایک زمانہ تھا جب ہم چار موسم دیکھا کرتے تھے اور بونس میں موسمِ برسات ماحول کو چار چاند لگادیتا تھا۔ مگر اب ایسا نہیں ہے! انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے موسم گرما طویل ہو گیا ہے۔ خزاں اور بہار صرف چند دن کیلئے آتے ہیں۔ سردیاں خشک اور کم دورانیے کی ہو گئی ہیں۔ انتظار ہی کرتے رہ جاتے ہیں مگر برفباری نہیں ہوتی۔ کتنی تتلیاں اور پرندے اب نہیں آتے۔ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے گلیشیر پگھل رہے ہیں‘ دریائوں میں طغیانی آ رہی ہے۔ موسم اس حد تک تبدیل ہو گئے ہیں کہ اب بادل پھٹ رہے ہیں‘ جس کی وجہ سے سیلابی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ ہم شدید موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہیں‘ مگر اس کے باوجود بے دریغ درخت کاٹے جا رہے ہیں۔ پہاڑ سٹون کرشنگ کے نام پر مٹائے جا رہے ہیں۔ دریائوں کے راستوں پر گھر اور بازار بنا دیے گئے ہیں۔خیبر پختونخوا میں سیلابی صورتحال جون‘ جولائی میں بھی پیدا ہوئی اور اب اگست میں بھی اچانک یہ صورتحال پیش آئی۔ پہلے بارشوں‘ گلیشیر پھٹنے کی وجہ سے سیاح جان کی بازی ہار گئے اور اب کلائوڈ برسٹ کی وجہ سے شدید نقصان ہوا ہے۔ کلائوڈ برسٹ یا بادل پھٹنا کیا ہوتا ہے؟ یہ ایک ایسا قدرتی عمل ہے جس میں بارش برسانے والا بادل وہ سارا پانی‘ جو اس نے گھنٹوں میں کسی علاقے میں برسانا ہوتا ہے‘ یکدم اس جگہ پر برسا دیتا ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق 30مربع کلومیٹر کے علاقے میں ایک گھنٹے میں سو ملی میٹر یا اس سے زائد بارش کلائوڈ برسٹ کہلاتی ہے۔ ایسی بارش کی وجہ سے فوری سیلاب آ جاتا ہے۔ اس میں کوئی حکومتی غفلت یا انتظامی لاپروائی شامل نہیں ہوتی لیکن موسم کی اس شدت کے ہم سب ذمہ دار ہیں۔ یہ بادل اتنے طاقتور اور پانی سے بھرے ہوتے ہیں کہ یہ پانی چند منٹوں میں ایک جھیل بنا سکتا ہے۔ درحقیقت ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے موسموں کا توازن بگڑ گیا ہے۔ اگر اب بھی ہم نے درخت نہ لگائے‘ ماحولیاتی آلودگی پر قابو نہ پایا تو اس کے بھیانک نتائج برآمد ہوں گے۔ خیبر پختونخوا میں اب تک بارشوں‘ سیلاب اور طوفان کی وجہ سے تین سو سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ گھروں کے گھر‘ گائوں اور قصبے طوفانی بارشوں میں بہہ گئے۔ خاندان کے خاندان اُجڑ گئے۔ بونیر‘ سوات‘ بٹگرام‘ مانسہرہ‘ شانگلہ‘ تورغر اور باجوڑ میں شدید نقصان ہوا ہے۔ سیلاب زدہ علاقوں سے جو وڈیوز آرہی ہیں ان کو دیکھ کر دل مضطرب ہے۔ انسان پانی اور ملبے کے ڈھیر میں بے بس ہیں۔ گاڑیاں دریائوں میں ڈوب گئیں۔ سب سے زیادہ جانی نقصان بونیر میں ہوا‘ بشونئی گائوں کے بیشتر لوگ سیلابی ریلے میں بہہ گئے۔ اکثر لاشیں بھاری پتھروں تلے دبی ہوئی تھیں۔ دوسرے علاقوں کے لوگوں نے یہاں آ کر ان کی تدفین کی۔ پورا گائوں ختم ہو گیا۔ بہت سے لوگ لاپتا ہیں‘ جن میں بچوں اور خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔
پاکستان میں 2010ء اور 2022ء میں بھی بدترین سیلاب آ چکے ہیں تاہم ریسکیو اور ریلیف اداروں کو بہتر بنانے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ ہمارے ملک میں ایک ایسے قومی ادارے کی کمی ہے جس کو کوئی بھی‘ ملک کے کسی بھی حصے سے ایمرجنسی کی صورت میں مدد کے لیے بلا سکے۔ پھر پہاڑی علاقوں میں نہ تو موبائل سگنل آتے ہیں اور نہ ہی انٹرنیٹ ہر جگہ موجود ہوتا ہے۔ لوگ اگر آفت میں پھنس جائیں تو قسمت ہی ان کے کام آتی ہے۔ کبھی بھی انہیں بروقت مدد نہیں مل پاتی۔
دنیا بھر میں جتنا کاربن کا اخراج ہو رہا ہے‘ جس سے موسمیاتی تبدیلیاں جنم لے رہی ہیں‘ پاکستان اس کے محض ایک فیصد کا ذمہ دار ہے مگر کاربن کے اخراج سے متاثر ہونے والے پہلے دس ممالک میں یہ شامل ہے۔ ہمیں یہ معاملہ عالمی برادری کے سامنے اٹھانا ہوگا کہ ہم اس کاربن کے اخراج کا ایک فیصد کے بھی ذمہ دار نہیں اور ساری تباہی ہمارے حصے میں آ رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے فطرت کا سارا توازن بگڑ گیا ہے۔ اب ایک ابھرتا خطرہ یہ ہے کہ پاکستان میں ہر ماہ زلزلے آ رہے ہیں۔ پہلے کبھی کبھار زلزلہ آیا کرتا تھا مگر اب ان کی شدت اور تعداد میں اس قدر اضافہ کیوں ہو رہا ہے‘ اس پر کسی کی کوئی توجہ نہیں۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے علاوہ ہم اربن فلڈنگ یعنی شہری سیلابوں کا بھی شکار ہیں۔ یہ کیوں ہمیں ٹارگٹ کر رہے ہیں‘ اس لیے کہ ان کے پیچھے ناقص منصوبہ بندی‘ انسانی غلطیاں اور کرپشن ہیں۔ بڑے شہروں کا یہ حال ہے کہ بارش ہوئی کہ نہیں‘ شہر مفلوج ہو گیا اور اس حوالے سے کراچی‘ لاہور اور راولپنڈی سرفہرست ہیں۔ چند گھنٹوں کی بارش سے سڑکیں ندی نالوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ اب یہ مسائل اسلام آباد میں بھی بڑھ رہے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ ناقص نکاسیِ آب کا نظام ہے۔ اس کے ساتھ ندی نالوں اور دریائوں پر رہائشی و کمرشل تعمیرات کی اجازت! یہ انتظامیہ کی غفلت اور ملی بھگت سے ہوا۔ اب جیسے ہی بارش شروع ہوتی ہے سارا پانی گھروں اور بازاروں میں داخل ہو جاتا ہے۔ انڈر پاس تالاب بن جاتے ہیں۔ ندی نالوں میں کچرا پھینکنے کی وجہ سے بھی نکاسیِ آب میں مشکل پیش آتی ہے۔ شہری سیلابوں کی ذمہ دار حکومتیں ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم نے کرنا کیا ہے؟ ایک طرف بادل پھٹ رہے ہیں اور دوسری طرف زلزلے آ رہے ہیں۔ سیاح اور مقامی افراد سیلابی ریلوں‘ مٹی کے تودوں اور پتھروں کی بارش کی زد میں آ رہے ہیں۔ شہروں میں بیٹھے لوگوں کے گھروں‘ دفاتر اور دکانوں میں پانی آ رہا ہے۔ دوسری طرف حکومت اپنی مدح سرائی میں مصروف ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیں محکمہ موسمیات کی پیشگوئیوں کو بروقت عوام تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ صوبائی حکومت‘ ضلعی انتظامیہ‘ میڈیا‘ سوشل میڈیا‘ پولیس اور ریسکیو اداروں کے ذریعے فوری طور پر سب کو آگاہ کرنا تاکہ مقامی شہری اور سیاح تمام حالات سے بخوبی واقف ہوں۔ بارشوں سے قبل تیاری کی جائے تاکہ نکاسی آب کا نظام درست کام کرے اور جانی نقصان کم سے کم ہو۔ ندی نالوں اور دریائوں کے کناروں پر بسنے والوں کو متبادل رہائش فراہم کی جائے۔ کسی کا گھر‘ ہوٹل توڑ کر اس کو معاشی موت دینے کے بجائے متبادل جگہ یا معاوضہ دے کر جگہ خالی کرائی جائے۔ بارش کی صورت میں فائر بریگیڈ‘ سینی ٹیشن اور متعلقہ ڈپارٹمنٹس کو تیار رکھنا چاہیے۔ ان کے پاس ڈی واٹرنگ پمپس ہر وقت موجود ہونے چاہئیں۔ شدید بارشوں میں سیاحتی مقامات کو بند کر دینا چاہیے۔ این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے۔ ریسکیو 1122 کا دائرہ پورے ملک میں پھیلایا جائے اور جدید مشینری بھی اسے فراہم کی جائے۔ طویل مدتی پالیسیوں میں سب سے پہلے ماحول دوست سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے۔ درخت لگائے جائیں‘ پہاڑوں پر سٹون کرشنگ اور غیر ضروری تعمیرات کو روکا جائے۔ سڑکیں‘ پل اور انڈرپاس بناتے ہوئے انہیں ایسے ڈیزائن کیا جائے کہ وہ ژالہ باری‘ زلزلے اور بارشوں کو برداشت کر سکیں۔ کچرے کو ندی نالوں سے نکال کر تلف کیا جائے۔ شہر میں پارکس اور سبزہ زار زیادہ بنائے جائیں تاکہ بارش کا پانی زمین میں جذب ہونے میں آسانی ہو۔ اگر یہ پانی سڑکوں پر کھڑا ہو جائے تو ڈینگی‘ ملیریا اور ہیضہ پھیلنے کا خدشہ ہے۔ بارش کا پانی بہت قیمتی ہے‘ کاش اس پانی کو چھوٹے آبی ذخیروں اور ڈیموں میں محفوظ کرکے سارا سال استعمال کیا جائے۔
اگر ماضی میں واٹر سٹوریج منصوبوں پر کام کیا ہوتا تو یہ پانی سیلاب بن کر شہروں میں تباہی نہ لاتا۔ ارضیاتی اور موسمی تبدیلیوں پر گہری نظر رکھی جائے‘ اس کے لیے ایک مؤثر ادارہ اور مانیٹرنگ ٹیمیں ہونی چاہئیں‘ جو حکومت اور عوام کو بروقت آگاہ کریں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں ایک مربوط پالیسی کی ضرورت ہے‘ جس کا تاحال کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔ اگر جلد حکمت عملی مرتب نہ کی گئی تو مستقبل میں قدرتی آفات اور انسان کے پیدا کردہ مسائل کی وجہ سے مزید نقصان کا اندیشہ ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved