تحریر : حافظ محمد ادریس تاریخ اشاعت     19-08-2025

رسولِ رحمتﷺ کے محبوب صحابی …(3)

حضور پاکﷺ نے حضرت معاذؓ کو یمن کا گورنر مقرر کیا تو ان کی سواری کے ساتھ چلنے لگے اور فرمایا: ''اے معاذ! شاید آج کے بعد تم مجھ سے نہ مل سکو اور جب مدینہ واپس آئو تو تمہارا گزر میری قبر پر ہو‘‘۔ حضرت معاذؓ زار وقطار رونے لگے۔ آنحضورﷺ نے اپنا رخ مدینہ کی طرف پھیر لیا اور فرمایا ''اے معاذ رونے کے بجائے صبر کرو‘‘۔ جب حضرت معاذؓ آنحضورﷺ سے رخصت ہوئے تو آخری دعا جو آپﷺ نے دی وہ یہ تھی کہ اللہ تمہیں ہمیشہ اپنے حفظ وامان میں رکھے‘ ہر قسم کے مصائب سے تمہاری حفاظت فرمائے اور جن وانس کے ہر شر سے تمہیں محفوظ رکھے۔ حضرت معاذؓ نے اس موقع پر مدینہ کی طرف رخ کیا اور اس کے باغات اور گھروں پر نظر ڈالی اور کہا: اے اللہ میں اہلِ تقویٰ سے محبت کرتا ہوں اور انہی سے میری دوستی ہے۔ اس وقت آپ کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔
اس تقرر کے وقت آنحضورﷺ کی ہدایات کا خلاصہ حدیث وسیرت کی کتابوں میں یوں بیان ہوا ہے کہ آپﷺ نے فرمایا اے معاذ! لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا انہیں مشکل میں نہ ڈالنا۔ ان سے دوستی قائم کرنا‘ نفرت سے بچنا۔ تم وہاں ایسے لوگوں کو بھی پائو گے جو پہلے سے کسی مذہب کے پیروکار ہیں‘ ان کے پاس پہنچو تو حکمت کے ساتھ ان کو اسلام کی طرف دعوت دو‘ جب وہ توحید ورسالت پر ایمان لے آئیں تو ان سے کہنا کہ اللہ نے تم پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ جب وہ اس بات کو تسلیم کر لیں تو اس کے بعد انہیں بتانا کہ تمہارے مالدار لوگوں پر اللہ نے زکوٰۃ واجب کی ہے۔ یہ تمہارے امراء سے وصول کی جائے گی اور غربا کی مدد میں استعمال ہو گی۔ جب وہ یہ ساری باتیں تسلیم کر لیں تو زکوٰۃ‘ عشر اور صدقات وصول کرتے ہوئے ان سے چن چن کر اچھی چیزیں نہ لینا‘ نہ ہی ردی قسم کا مال وصول کرنا‘ بلکہ متوازن انداز میں یہ فرض ادا کرنا۔ مظلومین کی آہ اور بددعا سے ہمیشہ بچنے کی کوشش کرنا‘ کیونکہ ان کی دعا اور اللہ کے مابین کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔
حضرت معاذؓ کو آنحضورﷺ کی رحلت کی خبر یمن ہی میں موصول ہوئی۔ آپؓ فراقِ نبوی میں زار و قطار روئے۔ یمن کی جانب رخصت کرتے ہوئے اپنے آقاﷺ کی باتیں ذہن میں تازہ ہو گئیں۔ آپؓ یمن سے واپس مدینہ آئے تو خلیفۃ الرسول سیدنا ابوبکرؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی واپسی کی اطلاع دی۔ ساتھ ہی وہ سارا مال جو وہاں سے لائے تھے‘ خلیفۃ الرسول کی خدمت میں پیش کر دیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: آنحضورﷺ نے آپ کو ہدیہ قبول کرنے کی اجازت دی تھی۔ یہ مال آپ کا ہے‘ بیت المال کی رقوم تو آپ باقاعدگی سے بھیجتے رہے ہیں‘ یہ مال آپ خود استعمال کریں۔
حضرت معاذؓ کے حالات میں تمام مؤرخین نے لکھا ہے کہ وہ فیاض اور فراخ دل تھے۔ جو بھی ان سے کچھ سوال کرتا اسے پورا کرتے‘ جو کوئی ان سے مانگتا وہ اسے عطا کر دیتے۔ آنحضورﷺ کی زندگی میں بھی اس فیاضی کی وجہ سے آپؓ کی جائیداد کا بیشتر حصہ بک گیا تھا اور آپ پر قرض بھی چڑھ گیا تھا۔ آنحضورﷺ نے قرض خواہوں کو بلا کر آپؓ کی جائیداد میں سے کچھ عطا فرمایا اور پھر کہا کہ جو اپنا قرض معاف کر سکیں وہ معاف کر دیں۔ حضرت معاذؓ بن جبل نے یمن سے ملنے والے ہدیوں کی دولت سے بھی قرض خواہوں کے قرضے ادا کیے۔ یمن سے واپسی کے بعد مختصر عرصہ آپؓ مدینہ میں مقیم رہے مگر آپ کو وہاں چین نہ آیا کیونکہ آپ کو جہاد پر جانے کا بہت شوق تھا۔ آپؓ نے خلیفۃ الرسول سے اجازت لے کر رومیوں کے خلاف جنگوں میں شرکت فرمائی اور بڑے بڑے کارنامے سرانجام دیے۔
سب سے پہلے حضرت معاذؓ نے حضرت عمروؓ بن عاص کی قیادت میں اردن اور فلسطین کے علاقوں میں جاری جنگوں میں حصہ لیا۔ آپ کی جنگی مہارت اور بہادری کو دیکھ کر حضرت عمروؓ بن عاص اور بعد میں حضرت ابوعبیدہؓ بن جراح نے آپ کو ہمیشہ لشکروں کے میمنہ پر سالار مقرر کیا اور آپ نے ہر جنگ میں بڑی بہادری کے ساتھ دشمنوں کو پسپا کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اجنادین کی جنگ میں حضرت معاذؓ کا تذکرہ بہت تفصیلاً تاریخ میں منقول ہے۔ آپؓ کو سفیر بنا کر رومی جرنیلوں کے پاس بھیجا گیا اور وہاں بھی آپ نے نہایت بہادری اور عقل مندی کے ساتھ ان کو اسلام کی دعوت دی اور ان کی طرف سے پیش کردہ مراعات کو رد کر دیا۔ رومی چاہتے تھے کہ مسلمانوں کو کچھ علاقوں پر حکومت کا حق دے کر جنگوں سے واپس بھیج دیں۔ ساتھ ہی انہوں نے ہر مجاہد کے لیے نقد انعام کا لالچ بھی دیا مگر آپؓ نے ان کی ہر پیشکش کو ٹھکرا دیا۔
آپؓ نے فرمایا: تم لوگوں کو ہماری دعوت ہے کہ تم اسلام قبول کر لو‘ ایسا کرو گے تو تم ہمارے بھائی ہو گے۔ تمہارے حقوق وہی ہوں گے جو ہمارے ہیں۔ یہ قبول نہیں تو جزیہ دے کر ہماری حکومت کے تابع ہو جائو۔ اس صورت میں تمہیں تمام حقوق حاصل ہوں گے اور ہم تمہاری جان اور مال ہر چیز کی حفاظت کے ذمہ دار ہوں گے۔ اگر یہ بھی منظور نہیں تو پھر تم بھی اپنی قوت استعمال کر لو اور ہم بھی اپنا زور لگا لیں گے۔ میدانِ جنگ میں جو فیصلہ ہو گا وہ سامنے آجائے گا۔ یہ کہہ کر آپؓ نے اتمامِ حجت کر دیا اور واپس اپنے لشکر میں آ گئے۔
حضرت ابوعبیدہؓ جب مغربی محاذ پر سالارِ اعلیٰ مقرر ہوئے تو انہوں نے حضرت معاذؓ کو اپنا نائب مقرر کیا۔ دونوں صحابہ میں بے پناہ محبت تھی۔ دونوں کی زندگی سادہ اور اسلامی اخلاق وتعلیمات کا کامل نمونہ تھی۔ سپاہِ اسلام کو جب حضرت ابوبکر صدیقؓ کی رحلت کی اطلاع ملی تو حضرت ابوعبیدہؓ بہت غمزدہ ہوئے۔ حضرت ابوبکرؓ کی بہت سی بے مثال خوبیوں کا تذکرہ کیا اور فرمایا کہ تمام صحابہ کرام میں کوئی بھی ابوبکرؓ کے مقام کو نہیں پا سکتا۔ اس کے بعد آپؓ نے قاصد سے پوچھا: اب مسلمانوں نے کس کو خلیفہ منتخب کیا ہے؟ انہیں بتایا گیا کہ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ کو خلافت کے لیے نامزد کیا تھا جن کی بیعت اور اطاعت تمام اہلِ اسلام نے بخوشی کر لی ہے۔ اس موقع پر حضرت ابوعبیدہؓ اور حضرت معاذؓ دونوں نے کہا: الحمدللہ! مسلمانوں نے بہت اچھا فیصلہ کیا کہ اپنے میں سے سب سے بہتر شخص کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ حضرت عمرؓ بھی حضرت ابوعبیدہؓ کے مقام و مرتبہ کو جانتے تھے۔ آپؓ نے اپنی شہادت کے وقت کہا تھا کہ اگر ابوعبیدہؓ زندہ ہوتے تو میں ان کو خلیفہ نامزد کر دیتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوعبیدہؓ کا صحابہ کے درمیان کیا مقام تھا۔ حضرت معاذؓ بن جبل میدانِ جنگ میں حضرت ابوعبیدہؓ کے نائب تھے۔
مغربی محاذ پر پے درپے کامیابیوں کی خبریں اور مال غنیمت مدینہ پہنچتا تھا تو اہلِ مدینہ بہت خوش ہوتے تھے اور مجاہدین کی کامیابی کی دعائیں کرتے تھے۔ جنگ یرموک مغربی محاذ کی جنگ عظیم کہلاتی ہے۔ یرموک کے معرکے میںحضرت معاذؓ نے فتح حاصل کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کیا۔ اس جنگ میں مسلمان بھی بہت بڑی تعداد میں شہید ہوئے لیکن کفار کے مقتولین کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ بیان کی جاتی ہے۔ جب بیت المقدس کی فتح کے وقت اہلِ یروشلم نے درخواست کی کہ اگر تمہارا بادشاہ خود یہاں آئے تو ہم بغیر جنگ اور مزاحمت کے شہر کی چابیاں اس کے حوالے کر دیں گے ۔ اس موقع پراہلِ شوریٰ کی مشاورت سے حضرت عمرؓ مدینہ سے شام آئے اور بیت المقدس بغیر جنگ کے فتح ہو گیا۔ حضرت ابوعبیدہؓ اور حضرت معاذؓ بن جبل کو دیکھ کر حضرت عمرؓ کی آنکھوں میں آنسو آگئے کہ اتنی فتوحات کے باوجود ان کے لباس بہت سادہ اور ان کا طرزِ زندگی فقیرانہ تھا۔ آپؓ نے فرمایا: باقی سب لوگوں میں تبدیلیاں آ گئی ہیں مگر تم دونوں کو میں اسی طرح دیکھتا ہوں جس طرح آنحضورﷺ کے دور میں آپ لوگ تھے۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved