تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     20-08-2025

تعلیم: سماجی تفریق کب تک؟

تعلیم اور سماج کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ تعلیم کے مقاصد میں جہاں معاشرے میں تبدیلی‘ ترقی‘ آزادیٔ افکار‘ آزادیٔ اظہار اور آزادیٔ انتخاب شامل ہیں‘ وہیں تعلیم کا ایک اہم مقصد معاشرے میں معاشی اور معاشرتی امتیازات کوکم کرنا ہے۔ یہ امتیازات معاشرے میں گروہ بندیوں کو فروغ دیتے ہیں جس کے نتیجے میں بے اعتمادی اور بے چینی کی فضا جنم لیتی ہے۔ کبھی یہ امتیاز شہری اور دیہاتی علاقوں میں رہنے سے جنم لیتا ہے کیونکہ شہر اور دیہات میں آسائشوں کی دستیابی میں عدم توازن ہے۔ یوں دیہات میں رہنے والے صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولتوں سے محروم رہتے ہیں۔ ایک اور اہم امتیاز امارت اور غربت کا ہے۔ امیروں کے بچے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں جبکہ غریب والدین کے پاس اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھیجنے کیلئے مالی وسائل نہیں ہوتے۔ معاشرے میں ایک اور امتیاز کی بنیاد جنس ہے۔ پاکستان میں بچوں اور بچیوں کے لیے تعلیمی مواقع میں واضح فرق ہے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں یا بیرونِ ملک تعلیم کے مواقع بھی لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کیلئے کم ہیں‘ اس کی ایک وجہ والدین کا بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیمی اداروں اور بیرونِ ملک تعلیم کیلئے بھجوانے میں ہچکچاہٹ ہے۔
پاکستانی تعلیمی نظام میں بھی مختلف طرح کے Inbuilt امتیازات ہیں‘ جس میں مدارس‘ اُردو میڈیم سکول‘ انگلش میڈیم ایلیٹ سکول‘ انگلش میڈیم نان ایلیٹ سکول‘ فورسز سکول‘ کیڈٹ کالجز‘ دانش سکول وغیرہ غیرہ۔ یوں تعلیم‘ جس کا ایک مقصد معاشرے میں معاشی اور معاشرتی امتیازات کوکم کرنا ہے‘ دراصل ان امتیازات کو اور گہرا کر رہی ہے۔
ان سارے امتیازات میں سب سے اہم فرق مالی وسائل کی دستیابی یا عدم دستیابی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت ملک میں اڑھائی کروڑ بچے مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے سکول کی دہلیز تک نہیں پہنچ سکے۔ ان اڑھائی کروڑ بچوں کا کیا قصور ہے؟ کیا وہ اہلیت میں دوسروں سے کم ہیں؟ کیا وہ ذہانت کی نعمت سے محروم ہیں؟ وہ ذہین بھی ہیں اوراہل بھی۔ ان کا واحد قصور یہ ہے کہ وہ غریب والدین کے گھر پیدا ہوئے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد جوکسی بھی ملک کیلئے ایک نعمت سے کم نہیں‘ ہم اسے تعلیم کی دولت سے محروم رکھ کر نعمت کے بجائے ایک نا گوار بوجھ میں بدل رہے ہیں۔ ان اڑھائی کروڑ بچوں میں کچھ تو چائلڈ لیبر کی چکی میں پس جاتے ہیں۔ کچھ مصروف شاہراہوں پر پھول بیچتے یا گاڑیوں کی وِنڈ سکرین دھوتے نظرآتے ہیں۔ کچھ بھکاری بن جاتے ہیں‘ کچھ منفی سرگرمیوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور کچھ دہشت گردوں کے مذموم مقاصد کا ایندھن بن جاتے ہیں۔
باثروت لوگوں کے بچوں کے سکول مختلف ہوتے ہیں‘ جہاں تمام ضروری سہولتیں میسر ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس عوام کے سکولوں کی حالت زار دیدنی ہے؛ کہیں چاردیواری نہیں‘ کہیں پینے کا صاف پانی نہیں‘ کہیں واش رومز نہیں اور کہیں استاد نہیں۔ انگریزی زبان‘ جو بدقسمتی سے اچھی نوکری لینے کا معیار ٹھہرا ہے‘ عام سکولوں میں اس کی تدریس پر وہ اساتذہ مامور ہوتے ہیں جو خود بھی انگریزی بولنے اور سمجھنے میں دقت محسوس کرتے ہیں۔ ان امتیازات اور تعلیمی عدم مساوات کے ساتھ معاشرے میں اچھی نوکری حاصل کرنے کے مواقع بھی مختلف ہوتے ہیں۔ مختلف اداروں سے ایک ہی ڈگری حاصل کرنے کے باوجود ایلیٹ تعلیمی اداروں کے طلبہ کو عام تعلیمی اداروں کے طلبہ پر فوقیت دی جاتی ہے۔
ماضی قریب میں پاکستان کی سپریم کورٹ نے ایک کیس پر نوٹس لیا‘ جو سکولوں میں سہولتوں کے فقدان سے متعلق تھا۔ سپریم کورٹ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں تمام سرکاری سکولوں میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنانے کا حکم دیا لیکن اس حکم پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔ آئین کے آرٹیکل 25-A‘ جو لازمی اور مفت تعلیم کو یقینی بناتا ہے‘ پر عملدرآمد حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اگر 25-A پر سنجیدگی سے عملدرآمد ہوتا تو پاکستان کے اڑھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر نہ ہوتے بلکہ دوسرے بچوں کے شانہ بشانہ تعلیم کے عمل میں شریک ہوتے۔
پاکستان اکنامک سروے (2024-25ء) کے مطابق اس وقت پاکستان میں خواندگی کی شرح 60.6فیصد ہے جو جنوبی ایشیا کے ممالک میں کم ترین سطح ہے۔ سوائے افغانستان کے باقی سارے ممالک‘ بشمول بنگلہ دیش‘ نیپال‘ بھوٹان اور مالدیپ خواندگی کی دوڑ میں ہم سے آگے ہیں۔ ایک ایسا دور جس میں مضبوط معیشت کا مطلب تعلیمی معیشت ہے‘ ہمارے اڑھائی کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ جو بچے سکول پہنچ جاتے ہیں ان میں سے 53فیصد آٹھویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے سکول چھوڑ دیتے ہیں۔ یوں Dropout بچوں کی اتنی کثیر تعداد کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر ہے۔ سکول چھوڑنے کی بہت سی وجو ہات میں سب سے بڑی وجہ مالی وسائل کی کمی ہے۔
سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 25-Aکے حوالے سے ٹھوس تجاویز کی روشنی میں وفاقی محتسب کی زیرِصدارت ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے نمائندے اور ماہرین شریک تھے۔ مجھے بھی اس کمیٹی کے ایک رکن کے طور پر مختلف میٹنگز میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ اس کمیٹی کی متعدد میٹنگز ہوئیں جن کے نتیجے میں ٹھوس تجاویز تیار کی گئیں۔ ان تجاویز پر مبنی رپورٹ اس وقت کے چیف جسٹس کی خدمت میں پیش کر دی گئی۔ اس رپورٹ پر عملدرآمد کی صورت میں پاکستان میں تعلیم کے معیار میں بہتری کی توقع کی جا سکتی تھی لیکن پھر وہی ہوا جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ یہ رپورٹ بھی کاغذات کے ڈھیر میں گُم ہو گئی اور اب تو اس کا نشان تک نہیں ملتا جو آؤٹ آف سکول اڑھائی کروڑ بچوں کو سکولوں کے مرکزی دھارے میں لانے کا ارادہ رکھتی تھی۔ کاش ہم سب بحیثیت قوم اس خواب کی تعبیرکیلئے کوشاں ہو جائیں جو ہماری قومی ترقی کا ضامن ہے۔
دراصل پاکستان کی تعلیم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ حکومتی سطح پر بے اعتنائی اور ارادے کا فقدان ہے اس کا سب سے بڑا ثبوت پاکستان اکنامک سروے 2024-25ء کی وہ رپورٹ ہے جس کے مطابق مالی سال 2024-25ء میں نو ماہ کے دوران تعلیم پر جی ڈی پی کا صرف 0.8 فیصد خرچ کیا گیا۔ یہ ملکی تاریخ کا کم ترین بجٹ ہے جو تعلیم پر خرچ کیا گیا۔ یاد رہے کہ کہ عالمی اداروں کے مطابق تعلیم پر جی ڈی پی کا کم از کم چار فیصد خرچ ہونا چاہیے۔ پاکستان میں حکومتی سطح پر بلند بانگ دعوے کیے جاتے ہیں‘ خوشنما خواب دکھائے جاتے ہیں‘ تعلیمی پالیسیوں کی ضخیم دستاویزات تیار کی جاتی ہیں لیکن یہ سب کچھ زبانی جمع خرچ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان دستاویزات پر کبھی عملدرآمد نہیں ہوتا۔ یوں معاشرے کے سماجی اور معاشی امتیازات ہر آنے والے دن کے ساتھ بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ اگر ہم قومی ترقی کے بارے میں واقعی سنجیدہ ہیں تو ہمیں تعلیم کی اہمیت کو سمجھنا ہو گا اور اسے اپنی پہلی ترجیح بنانا ہو گا۔ اس حقیقت کو جتنی جلدی مان لیں اتنا ہی بہتر ہے کہ معیاری تعلیم کی ضمانت ہی ہماری زندگیوں میں بہتری لا سکتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved