ہماری حکومتیں بڑی چالاک ہیں۔ جس چالاکی کا میں ذکر کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ حکومتیں اس تماش بین عوام کو کسی نہ کسی نان ایشو میں مصروف رکھتی ہیں۔ حکمران عوام کی توجہ اصل ملکی اور قومی امور سے ہٹانے کی غرض سے ہر چند روز بعد کسی نہ کسی ایسے معاملے کو چھیڑ دیتے ہیں جس کا اصل درپیش مسائل سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا مگر شغل میلے کی شوقین اس قوم کا حال اس شخص جیسا ہے جسے کسی نے کہہ دیا ہو کہ اس کا کان وہ سامنے جاتا ہوا کتا اٹھا کر لے گیا ہے تو وہ ہاتھ لگا کر اپنا کان چیک کرنے کے بجائے بلا سوچے سمجھے اس کتے کے پیچھے دوڑ لگا دیتا ہے‘ جو اپنی ہی مستی میں چلا جا رہا تھا۔
ادھر بھی یہی حال ہے۔ ہر ایک دو ماہ کے بعد حکمران کوئی ایسی پھلجھڑی چھوڑتے ہیں کہ سارا سوشل میڈیا‘ سارے وی لاگرز‘ فیس بُکیے‘ وَٹس ایپیے‘ ٹویٹریے اور انسٹاگرامیے اپنے سارے کام کاج اور ضروری معاملات چھوڑ چھاڑ کر اس تازہ ترین معاملے پر پل پڑتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ باقی ساری قوم بھی اپنے مسائل‘ مشکلات‘ تکالیف اور محرومیاں بھول کر اس نوٹنکی کو دیکھنے میں لگ جاتی ہے‘ جو میرے خیال میں سر کار نے جان بوجھ کر اور سوچ سمجھ کر لگائی ہوتی ہے۔ اس سارے طے شدہ ڈرامے کے دوران نہ صرف یہ کہ عوام اپنے اصل مسائل کو بھول جاتے ہیں بلکہ اکثر اوقات اسی نان ایشو کے دھویں کی آڑ میں حکمران اپنا کوئی الو بھی سیدھا کر لیتے ہیں۔ آج کل کسی کو یہ خیال نہیں آ رہا کہ امریکہ ہم پر اچانک کیوں محبت نچھاور کر رہا ہے اور کن شرائط پر مہربانی ہو رہی ہے۔
ایک شخص کو دوسری شادی کرنے کا بڑا شوق تھا مگر اسے اپنی بیوی اور سسرال سے بڑا خوف آتا تھا کہ خدا جانے اس کے عقدثانی کر لینے پر ان کا ردِعمل کیا ہو اور اس کے سسرالی اس کے ساتھ کیا سلوک کریں۔ اس کے دوست اس کے دل میں چھپی ہوئی دوسری شادی کی دیرینہ خواہش پوری کرنے کے سلسلے میں حوصلہ بھی دیتے رہتے تھے مگر بات نہیں بن رہی تھی اور وہ شخص ارادے باندھتا تھا اور توڑ دیتا تھا۔ اس کے ایک دوست نے اسے مشورہ دیا کہ وہ دوسری شادی کیے بغیر گھر میں جا کر یہ بتا دے کہ اس نے دوسری شادی کر لی ہے۔ پوچھا کہ اس سے کیا ہو گا؟ دوست نے کہا کہ جب وہ گھر جا کر یہ بتائے گا کہ اس نے دوسری شادی کر لی ہے تو اس گھر میں ظاہر ہے ہنگامہ شروع ہو جائے گا‘ اس کی بیوی اپنے غم وغصے کا اظہار کرے گی‘ اس کے سالے اس پر اپنا ردعمل دیں گے۔ اگر تو معاملہ شور شرابے‘ لڑائی جھگڑے اور معمولی مارپیٹ سے ختم ہو جائے تو اس ساری فرضی واردات کے نتیجے میں ہونے والی کارروائی کو برداشت کر لے اور اس کے بعد جا کر خاموشی سے دوسری شادی کر لے۔ اور اگر بالفرض محال وہ اس خبر کے بعد والی صورتحال کو برداشت نہ کر پائے اور اس کا حوصلہ جواب دے جائے تو وہ فوراً اعلان کر دے کہ اس نے تو مذاق کیا تھا اور شغل لگا رہا تھا‘ بھلا اس نے کیوں دوسری شادی کرنی تھی جبکہ وہ اپنی اسی شادی سے خوش اور اپنی بیوی سے نہ صرف انتہائی مطمئن ہے بلکہ اس سے شدید محبت بھی کرتا ہے۔
راوی اس بارے میں بالکل خاموش ہے کہ اس شخص نے اس مشورے پر عمل کیا یا نہیں۔ اور اگر کیا تو اس کا کیا نتیجہ نکلا‘ تاہم میں دوسری شادی کے شوقین ان تمام حضرات سے‘ جو میرے کالم میں درج یہ طریقہ واردات پڑھ رہے ہیں‘ ان کو پیشگی مطلع کرنا چاہتا ہوں کہ اس مشورے پر عمل کرنے کی صورت میں تمام تر نقصانات کا ذمہ دار عمل کرنے والا شخص خود ہوگا اور اس قلمکار کا اس کے عمل اور گھریلو ردعمل سے کوئی واسطہ یا ذمہ داری نہ ہو گی۔
تاہم ہمارے ہاں حکومتیں اصلی مشن کے بارے میں افواہیں نہیں پھیلاتیں؛ البتہ اصل مشن کو چھپانے کیلئے نئے نئے اور قطعاً غیر متعلق قسم کے شوشے چھوڑتی رہتی ہیں۔ اس سلسلے کا تازہ ترین شوشہ ریاستی سول ایوارڈز والا ہے جو ہر طرف چھایا ہوا ہے۔ ہر سمجھدار اور ناسمجھ اس ہنگامے میں اپنا اپنا حصہ بڑھ چڑھ کر ڈال رہا ہے۔ عالم یہ ہے کہ جب سے کسی نے افواہ پھیلائی ہے کہ نشانِ امتیاز‘ ہلالِ امتیاز‘ ستارۂ امتیاز اور تمغہ امتیاز اسی نام کے ایک مقامی سٹور سے دستیاب ہیں‘ کئی بندے شاہ جی سے پوچھ چکے ہیں کہ ملتان والے سٹور پر تو ابھی تک نہیں آئے‘ کسی کو کراچی میں کہہ کر ہمیں یہ تمغے وہاں سے منگوا دیں۔ ایوارڈز کا ذکر چلا تو میں نے کہا: شاہ جی لوگ آئین پاکستان کے آرٹیکل 259 کے حوالے سے ان حالیہ ایوارڈز کی بندر بانٹ اور لوٹ سیل کو غیر آئینی کہہ رہے ہیں‘ آئین میں ان ایوارڈز کے اہل افراد‘ شعبے اور خدمات کی اقسام واضح ہیں۔ بہادری‘ مسلح افواج کے افراد کی غیر معمولی کارکردگی اور تعلیمی امتیاز یافتہ افراد ان ایوارڈز کے حصول کے حقداروں کی آئینی فہرست میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ روایتی طور پر کھیل‘ فنونِ لطیفہ‘ سائنس‘ ادب اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں کارکردگی کے حامل افراد کو یہ ایوارڈز ایک باقاعدہ عمل سے گزارتے ہوئے عطا کیے جاتے تھے‘ تاہم اس میں حکمران خود‘ وزرا‘ مشیروں اور رشتہ داروں کو نوازنے کا نہ تو قانون ہے اور نہ ہی کوئی اخلاقی جواز۔ اس بار تو حد ہو گئی ہے۔ یہ ساری توپ معرکہ حق کے کندھے پر رکھ کر چلائی گئی ہے۔ چلیں اس معرکے میں ناقابلِ یقین کارکردگی دکھانے پر مسلح افواج کے متعلقہ افراد کو ایوارڈز دینے کا تو قانونی‘ اخلاقی اور منطقی جواز ہے مگر غیر متعلقہ افراد کی ایک لمبی فہرست ہے جو ان ایوارڈز کو لے اڑی ہے‘ آپ کا کیا خیال ہے؟
شاہ جی نے ٹھنڈی سانس لی‘ مسکرائے (ان کی مسکراہٹ میں میرے لیے طنز صاف دکھائی دے رہا تھا) اور پھر کہنے لگے: برادرم! یہ لوگ جو تمہیں غیر متعلق لگ رہے اس سارے معرکے میں براہ راست شریک تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ٹی وی پر کامیابیوں کی خبریں سن کر تالیاں پیٹی تھیں‘ نعرے لگائے تھے‘ مبارکبادیں دی تھیں‘ اخبار میں میزائل کی تصویر دیکھ کر خوشی سے باچھیں پھیلائی تھیں‘ بھارتی رافیل گرنے پر بھنگڑا ڈالا تھا‘ رات خواب میں بھارت پر ایٹم بم چلایا تھا اور اسی قسم کی دیگر سرگرمیاں جو شجاعت‘ بہادری‘ دلیری اور جنگی کارکردگی کے زمرے میں آتی ہیں‘ سرانجام دی تھیں۔ میں نے کہا: شاہ جی ایوارڈز کی لوٹ سیل تو پہلے بھی لگتی رہی ہے لیکن اس بار ''نشان‘‘ جیسا اعلیٰ ایوارڈ جس طرح ٹکے ٹوکری ہوا ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ آپ کو تو علم ہی ہوگا کہ 'نشان‘ پاکستان کا سب سے بڑا سول ایوارڈ ہے۔ اسے سول ایوارڈز کا نشانِ حیدر سمجھ لیں۔ اس میں نشانِ پاکستان‘ نشانِ شجاعت اور نشانِ امتیاز شامل ہیں۔ اس بار اتنے نشان عطا ہوئے ہیں کہ عطا اللہ تارڑ کو بھی نشانِ امتیاز عطا ہو گیا ہے۔ شاہ جی بولے: یہاں تم زیادتی کر رہے ہو۔ تارڑ صاحب نے بطور وزیر اطلاعات جنگ کی خبریں مناسب جگہ پر لگوانے کیلئے جتنی بھاگ دوڑ کی تھی تم سوچ بھی نہیں سکتے۔
پھر کہنے لگے: ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ تم ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے تو یہ سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ 23 مارچ 1958ء کو صدرِ پاکستان میجر جنرل اسکندر مرزا نے خود کو اور اپنے ساتھ ساتھ الحاج خواجہ ناظم الدین کو نشانِ پاکستان عطا کیا۔ اپنی اہلیہ ناہید اسکندر مرزا کو نشانِ امتیاز اور اپنے وزیراعظم ملک فیروز خان نون کو نشانِ قائداعظم اور ان کی اہلیہ بیگم وقار النسا نون (سابقہ وکٹوریا ریکھا) کو بھی نشانِ امتیاز عطا کیا۔ پھر میری طرف گھور کر دیکھا اور کہنے لگے: ابھی تو وزیراعظم میاں شہباز شریف نے مارے انکساری کے نشانِ پاکستان لینے سے انکار کر دیا ہے۔ زرداری صاحب نے تین میں صرف ایک بچے کو نشان زدہ کیا ہے‘ دو کو خالی ٹرخا دیا ہے۔ ایسے درویش اور اللہ لوگ حکمران مقدر والوں کو ملتے ہیں۔ اب یہ درویش اور کیا قربانی دیں جس سے تمہارے دل میں ٹھنڈ پڑ جائے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved